نیو ائیر نائٹ ایک فکری و نظریاتی شو

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: حفیظ چوہدری
دنیا میں اِس وقت تین نظام ہائے تواریخ وسن چل رہے ہیں۔ قمری (1439ھجری) ،بکرمی(2074ب) اور عیسوی(2018ء) شوروغب موخرالذکر کا ہے۔مادی ترقیوں کے بام عروج کو چھونے والی تہذیبوں کی یہ ایک مذہبی علامت ہے۔ہر تہذیب یافتہ اور متمدّن قومیں اپنے رواجی،فکری اور سماجی شعار کی بقاء کا کوئی نہ کوئی طرز عمل و فکراپناتی ہے۔جس سے اُس کا ملی تشخص قائم رہتا ہے۔اور وہی اس کی معرفت کا پہلا زینہ ہوتا ہے۔جتنی اقوام گذشتہ گذری ہیں اُن کے ثقافتی اور خود ساختہ اطوار کے نشانات تاریخ کی کتابوں اورمختلف جگہوں پر اب بھی موجود ہیں۔
قوم نمرود کا سالانہ قومی اکٹھ،مجوس کا آتش پرستی کا میلہ ،آشوری اور کلدانیوں اور قوم لوط کے سالانہ جشن،ہندو اور سکھ دھرم کی بیساکھیاں اور جنم بھومی کا سنگ ،یہ سب اپنے اختتام و ابتداء برس کے الوداع استقبال کیلئے کرتے ہیں۔انہی اقوامِ کے تسلسل میں 31دسمبر کی شب یورپ و مغرب کا نیو ائیر نائٹ جو نصف شب گذرنے پر یکم جنوری کی تاریخ شروع ہوتے ہی ایک جشن شروع ہو جاتا ہے۔
دنیا کا ہر دن و تاریخ غروبِ آفتاب کے ساتھ ہی بدلتا ہے۔لیکن تاریخ میں واحد کلنیڈر عیسوی ہے جواپنی تاریخ رات 12بجے بدلتا ہے۔اِس رُخ پر ہی بس نہیں بلکہ تہذیبی سطح پر اس کے ساتھ کچھ اور بھی منسلک ہے۔بین الاقوامی سطح پر اس کی شروعات ہو چکی ہیں۔اب ترقی کر کے اس نے مسلم یوتھ پاپولیشن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔اِس کو انحطاط کہیں یا بھولا پن یورپی تمدن کا جال کہیں یا ہماری معاشرتی تنزلی کہ اب ویلنٹائن ڈے،بسنت،راکھی،ہولی جیسے خاص طبقاتی شعارشمار ہوتے ہیں بارے نیو جنریشن کو علم تو کیا یہ بھی معلوم شاید نہ ہوں کے یہ کس قوم کے تہوار ہیں اور کس نظریے کے تحت منائے اور اپنائے جاتے ہیں۔
یہ چیزیں براہِ راست لانچ نہیں کی جاتیں بلکہ اس طرح کے پروگرامز طے کئے جاتے ہیں کہ لوگ خود بخود متوجہ ہوں ۔داڑھی کا مخصوص اسٹائل ،بالوں کی خاص کٹنگ،لباس کے فیشنز،حتیٰ کہ اپنی ملکی زبان کا جو حشر ہو رہا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپانہیں ہے۔ جب دادا کی وفات پر پوتا یہ کہے گا کہ بابا ! داداجی،کی چیتا کب جلانی ہے؟تو اس سے گھرانے سے’’ پان ازدی اسلام ازم‘‘ کی سوچ کیونکر پیداہو سکتی ہے۔کہ ہم روح اسلام پر کیسے عمل پیرا ہوں جو عین فطرت ہے۔
جس تہذیبی اقدار کو ہم اپنانے کے لیے مرغ بسمل بنے ہوئے ہیں اُس کی اپنی پائیداری تارعنکبوت بنی ہوئی ہے۔سطحی سوچ وزاویے نے ذہنی شکستگی کو ہر رُخ اور ہر پہلو سے قبول کرنے میں کبھی عار محسوس نہیں کی ۔ کیونکہ جب اپنی ہمتیں جواب دے جائیں تو غیر کی بیساکھی اچھی لگتی ہے۔لیکن ہوا کے سہارے کو بیساکھی بھی نہیں کہتے۔
نیو ائیر کا جشن نہیں یہ ایک مشتعل مشن ہے۔جو ایک تحریک کی طرح اپنایا جا رہا ہے۔کیونکہ کسی کو متوجہ کرنے کے لیے اس طرح کے فواحشی اور غیر اخلاقی پروگراموں کی ضرورت ہوتی ہے۔جس میں اخلاقی وروحانی حدود و قیود سے بغاوت اِس کیلئے خیثّتِ اول ہوتی ہے۔
انسانی اقدار کو روند کر ترقی کے زینے پر نہیں چڑھا جا سکتا۔اور اگر زینہ ہی بقول اقبالؒ شاخ نازک پر ہو تو دوام واستحکام کیسے حاصل ہوگا۔قرض کی مئے پی کر فاقہ مستی کا مدعی ہونا قرینِ عقل نہیں ہے۔اور نہ ہی یوں ترقی ملتی ہے۔نقل کے لیے عقل کا ہونا ازحد ضروری ہے۔لیکن جو ہوبھی جہل مرکب تو پھر!
شریعت مطہرہ میں ہر وہ چیزجس میں مال و جان اور وقت کا ضائع ہو نا ، جس میں کسی انسان ومخلوق خدا کی منفعت نہ ہو اُس کام سے سختی سے منع کر دیاگیا ہے۔اسی لیے فرمایا کہ انسان سے اس کی عمر اور مال کی آمد اور خرچ کا سوال کیا جائیگا کہ اس کا استعمال کہاں کیا۔
نامور مذہبی اسکالر حضرت مولانا شوکت علی فیض مدظلہ لکھتے ہیں کہ یورپ و مغرب کی ایسی تقلید جو آندھی کی طرح چھا رہی ہے۔جب قوم پلٹ کر دیکھے گی تو اس بدبودار باد سموم کی برکت سے ہر گلی محلہ و گاؤں اور قریہ میں اولڈ ہومز کیساتھ کے جھولے بھی ویلکم کریں گے۔ضرورت اس امر کی ہے اگر کوئی سدّ سکندری نہیں بن سکتا تو بادِ تسنیم کا ہلکا سا جھونکہ ہی بن جائے کہ اردو کا ’’سدّ‘‘ نہ سہی سرایئکی کا ’’سدّ‘‘ ہی بن جائےْ اور اُس کے اثر سے قوم کو نکال کر اُس شاہراہ پر ڈال دے۔جس پر چڑھ کر عرب کے ’’حدّی خواں‘‘ زمانہ بھر کے ہادی و راہبر بن گئے۔ستاروں پر کمندیں ڈالنا نہ سہی ،اور جہانوں کی تلاش نہ سہی کم از کم ’’علامہ محمد اقبالؒ ‘‘ کی اتنی تو مان لیں کہ
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زِندگی
تو میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

Short URL: http://tinyurl.com/y3x5fbye
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *