نمک حرام افغانستان کا چمن سرحد پربزدلانہ پر حملہ

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: مولانامحمد وقاص رفیعؔ 
چھ لاکھ انسانی کھوپڑیوں کی بنیاد پر استوار ہونے والا وطن عزیز ملک پاکستان عرصہ ہوا کیا اپنے کیا پرائے سبھی کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے ، کوئی اس کا جانی دُشمن ہے تو کوئی مالی ، کوئی اس کی زندہ دل غیور عوام کی نسل کشی کرنا چاہتا ہے تو کوئی دُنیا کے نقشے سے اس کا وجود عنقاء کرنے پر تُلا ہوا ہے ، لیکن جانے کس کی نیم شب کی دعاؤں کی بدولت یہ ملک آج تک اپنی پوری آب و تاب اور شان و شوکت کے ساتھ قائم دائم ہے اور تاقیامت انشاء اللہ اسی طرح قائم دائم اور پھلتا پھولتا رہے گا ۔
امریکہ و اسرائیل اور برطانیہ وہندوستان سمیت تمام کفریہ طاقتیں تو روزِ اوّل ہی سے اس ملک کی جڑیں کاٹنے پر پوری طرح سے تلی ہوئی ہیں اور اس کو نقصان پہنچانے کا کوئی دقیقہ بھی فروگزاشت نہیں ہونے دیتیں لیکن حیرانگی اس امر کی ہے کہ وہ افغانستان جو ایک مسلم ملک ہے اور جو کم و بیش گزشتہ 36 برس سے ملک پاکستان سے برابر مستفید و متمتع ہورہا ہے آج اُس کے ہاتھوں وطن عزیز ملک پاکستان کو جن مشکلات و مصائب کا سامنا ہے وہ کسی بھی محب وطن شخص سے ڈھکا چھپا نہیں ؂
وہ تو ہیں کھلے دُشمن اُن کا خیر سے کیا ذکر ؟
دُوستی مگر حضرت آپ کی قیامت ہے!
آج سے 36 سال پہلے پاکستان نے ایک ایسے مشکل اور گھمبیر وقت میں ایک پڑوسی ہونے کے ناطے باشندگانِ افغانستان کو اپنی پاک سرزمین میں بطورِ مہمان کے بلایا تھا کہ جس وقت روس جیسی ایٹمی اور سپر پاور طاقت نے ان کی نسل کشی شروع کررکھی تھی ، ان کی عورتوں کی عزتیں لوٹنے لگے تھے ، ان کے معصوم بچوں کو موت کے گھاٹ اتارنے لگے تھے ، ان کے بوڑھوں اور بزرگوں کی عزت و بڑائی کی چادر کو تار تار کرنے لگے تھے اور ان کی وسیع و عریض زمین ان پر تنگ کرنے لگے تھے ، اُس وقت جب ان لوگوں نے سرزمین پاک وطن پر اپنے قدم رکھے تو ان کے پاس نہ کھانے پینے کے لئے کچھ تھا اور نہ ہی رہن سہن کے لئے کچھ ، پھر پاکستانی حکومت اور پاکستان کے غیور عوام نے ان کا خیر مقدم کرتے ہوئے سب سے پہلے ان کا پرتپاک استقبال کیا ، ان کی خوب آؤ بھگت کی اور ا س کے بعد ان کو کھانے پینے کی تمام قسم کی اشیاء بہم مہیا کیں ، رہنے سہنے کے لئے اپنے گھر دیئے ، ان کے سامنے اپنی زمینیں حاضر کیں اورانہیں اپنے کاروبار اور دیگر کام کاج میں بطورِ ملازم کے انہیں بھرتی کیا اور وہ سب کچھ ان کے لئے کیا جو ایک میزبان کو ایک مہمان کے آنے پر کرنا چاہیے ، الغرض جو کچھ ہوسکتا تھا حکومت اور عوام نے مل کر وہ سب کچھ ان کے لئے کیا ، لیکن اس کے صلہ میں انہوں نے گزشتہ 36 سالوں میں پاکستان اور باشندگانِ پاکستان کو جو صلہ دیایا جو نمک حلال کیا آج اُس پر دل خون کے آنسو رُورہا ہے ۔
انہوں نے ملک میں دہشت گردی و غارت گری کا پرچارکیا ، اغواء برائے تاوان کا بیج بویا ، معصوم بچوں اور قیمتی انسانی جانوں کا استحصال کیا ، منشیات کو فروغ دیا ، دینی اور عصری تعلیمی اداروں کو ایک دوسرے سے متنفر کیا ، ہماری خاندانی اور وطن پرست لڑکیوں کو اپنے نکاح میں لایا ، جب کہ ان کی کوئی لڑکی آج تک سننے میں نہیں آیا کسی نے اس کو اپنے نکاح میں لائی ہو ، بڑے بڑے شہروں کراچی ، لاہور ، فیصل آباد ، اور راولپنڈی کی معروف مارکیٹوں میں انہوں نے اپنا سکہ جمایا اور ملک میں چوری ،ڈکیتی ،اغواء برائے تاوان ،جنسی بے راہ روی اور دو نمبری جیسی جانے کتنی ہی واردات انہیں کے وجودِ نامسعود کے اثر اور دم قدم سے معرضِ وجود میں آئیں ۔
پاکستان سمیت ساری دُنیا کے باشندگان اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم محض اس لئے اور صرف اس لئے حاصل کرتے ہیں تاکہ اُس کے ذریعے معاشرے کو جہالت و ناخواندگی اور قدامت پسندی جیسی مہلک معاشرتی بیماریوں سے نجات اور چھٹکارا حاصل کراکے انہیں علم اور ترقی اور جدت پسندی جیسے اعلیٰ اور مہذب راستے پر گامزن کرسکیں ، مختلف علوم و فنون میں مہارت حاصل کرکے انسانی معاشرے کی خدمت کی جاسکے اور پھر اس سے حاصل ہونے والے منافع سے اپنا ذہنی و جسمانی سکون حاصل کیا جاسکے ،لیکن یہ تمام تر فلسفہ افغانیوں کے یہاں فضول اور بے کار گردانا جاتا ہے ، انہوں نے تو بس ایک ہی سبق پڑھا ہے پیسہ ، پیسہ اور پیسہ ۔۔۔ چاہے حلال کا ہو یا حرام کا ، اپنی بچیاں دوسروں کے ہاتھوں فروخت کرکے ہو یا دوسروں کے بچے بچیاں اغواء کرکے ان سے بھاری بھرکم تاوان وصول کرکے ، منشیات اور دونمبری کے ذریعہ سے حاصل کیا ہوا ہو یا چوری ڈکیتی اور قتل و غارت کے ذریعہ سے ، بہرحال پیسہ حاصل کیا جائے اور پیسے کے بل بوتے پے دوسروں سے اپنی رشتہ داریاں اور برادریاں قائم رکھیں جائیں ۔
گزشتہ چند سالوں سے ملک پاکستان جن داخلی اور خارجی ناگفتہ بہٖ مسائل و حالات سے دو چار ہے اُن میں سب سے اہم کردار ادا کرنے والے پڑوسی ملک افغانستان کے باشندگان تمام دُنیا میں سرفہرست ہیں ،یہی وجہ ہے کہ جب سے گزشتہ چند ماہ سے ملک پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا ہے اور اُس نے افغانی باشندوں کو انتہائی عزت و احترام کے ساتھ اپنے ملک واپس جانے کا کہا ہے تو ’’ہماری بلی اور ہم ہی کو میاؤں‘‘ کے مصداق افغانی باشندے پاکستان کو آنکھیں دکھانے لگے اور اسے بری طرح سے گھورنے لگے ہیں ، جس کا بروقت فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھارت نے اُنہیں ہاتھوں ہاتھ لے لیا اور اب ایک طرف سے بھارت آئے روز پاکستان کی سرحدوں پر اپنا گھناؤنا کھیل کھیل رہا ہے تو دوسری طرف افغانستان اپنی نمک حرامی کا ثبوت دیتے ہوئے پاک افغان بارڈر پر پاکستان سے چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے ، چنانچہ گزشتہ روز افغان فورسز نے چمن کی سرحد پر منقسم دو گاؤں کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں مردم شماری ٹیم کو نشانہ بناتے ہوئے بلا اشتعال گولہ باری اور فائرنگ کردی جس سے مردم شماری ٹیم کے متعدد اہل کار ، تین خواتین اور دو بچوں سمیت کل بارہ پاکستانی شہری شہید ہوگئے ، جس کے جواب میں پاک فورسز نے افغان فورسز کی تین چوکیاں اور دو گاڑیاں تباہ کردیں جب کہ متعدد افغان اہل کاروں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ۔
قارئین باتمکین! یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں کہ جس پر چپ سادھ لی جائے بلکہ اس سے قبل بھی افغانستان اس طرح کا گھناؤنا کھیل کھیل چکا ہے، جس میں سب سے اوّل پاک افغان طور خم بارڈر پر چھیڑ چھاڑ کا واقعہ ہے کہ جس میں افغانستان بہرحال کامیاب نہ ہوسکا اور اُس کے چند دن بعد چند افغانی اوباش گنڈہ گر نوجوانوں نے وادئ چترال میں آکر کئی سو مویشیوں اور کئی قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع بھی کیا تھا ۔ 
لہٰذا اس تناظر میں ہم حکومتِ وقت اور اربابِ اقتدار سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ پہلے اپنے ملک کا دفاعی نظام خوب اچھی طرح بحال کرے ، پاک افغان سرحد کو مکمل طور پر سیل کرے اور پھر ان نمک حرام افغانیوں کو ملک بدر کرکے انہیں اپنے ملک کے راستہ پر چلتا کرے اور ’’خس کم جہان پاک‘‘ کا مصداق وطن عزیز ملک پاکستان کو امن ، چین اور سکھ کا گہوارہ بنائے اور امریکہ و اسرائیل اورہندوستان و افغانستان سمیت تمام دُشمن ممالک کو اپنی اوقات میں رہنے کا درس دے۔

Short URL: http://tinyurl.com/ybh7x8qm
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *