نبی الملاحم ﷺ کے تشکیل کردہ جہادی دستے

Print Friendly, PDF & Email

تحریر:مولانامحمد جہان یعقوب
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی سرایا بھی روانہ فرمائے۔اسلامی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعداد تقریباًچھپن تھی،جن میں سے دوسرایا کو خاص شہرت حاصل ہوئی ،ایک تو سریہ’’موتہ‘‘جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ توجہ وکثرت التفات کی وجہ سے ’’ غزوہ موتہ‘‘کہلایا ۔اوردوسرا ’’جیشِ اسامہ بن زیدؓ ‘‘

تاریخ اسلام سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاد کا حکم مدنی دور میں نازل ہوا۔ آغاز میں صرف اپنے دفاع کے لیے لڑنے کی اجازت دی گئی،اسے’’ دفاعی جہاد ‘‘کہتے ہیں۔اس کے بعد’’ اقدامی جہاد‘‘ کی بھی اجازت مل گئی،اسلام کاآخری غزوہ’’ تبوک‘‘بھی ایک ’’ اقدامی جہاد ‘‘تھا۔ہم یہاں ان چھوٹے چھوٹے جہادی دستوں کاذکرکرنا چاہتے ہیں،جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تشکیل دیے اوراپنے کسی صحابیؓ کو امیر بناکر روانہ فرمایا،حدیث وسیرت کی کتابوں میں ان دستوں کے لیے ’’سرایا‘‘کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔
’سرایا ‘‘عربی زبان کے لفظ ہے اور’’ سریّہ ‘‘کی جمع ہے جس کے معنی فوج کی تھوڑی سی تعداداورمختصر لشکر کے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ عربی زبان کی جنگی اصطلاحات میں سرِیہ رات کے وقت جانے اورساریہ دن کے وقت نکلنے کے لیے بولا جاتا ہے،اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں لشکر کا جانا پوشیدہ ہوتا ہے۔اسی طرح ایک لشکر کاوہ حصہ جو اس لشکر سے نکلتا ہے اور اسی میں واپس آتا ہے،وہ بھی سریہ کہلاتاہے۔سریہ کے شرکاکی تعدادزیادہ سے زیادہ 500پانچ سو تک ہوتی ہے۔(المواہب اللدنیہ)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاایک صفاتی نام یا لقب ’’نبی الملاحم‘‘بھی ہے ،یعنی جنگوں والے نبی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں جہاں تقریباًاٹھائیس غزوات کاتذکرہ ملتاہے،وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی سرایا بھی روانہ فرمائے۔اسلامی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعداد تقریباًچھپن تھی،جن میں سے دوسرایا کو خاص شہرت حاصل ہوئی ،ایک تو سریہ’’موتہ‘‘جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ توجہ وکثرت التفات کی وجہ سے ’’ غزوہ موتہ‘‘کہلایا ۔اوردوسرا ’’جیشِ اسامہ بن زیدؓ ‘‘۔دونوں کی تفصیل آگے بیان کی جارہی ہے۔
مختصر طور پر یہ جان لیجیے کہ : سریہ حضرت حمزہؓ :رمضان1 ھ میں،سریہ عبیدہ بن حارثؓ :شوال 1ھ میں،سریہ سعد بن ابی وقاصؓ :ذی القعدہ 1 ھ، میں،سریہ عبداللہ بن جحشؓ: رجب 2 ھ میں،سریہ عمرو بن عدیؓ :رمضان 2 ھ میں،سریہ سالم بن عمیرؓ برائے قتل ابورفک:شوال 2 ھ میں،سریہ برائے قتلِ کعب بن اشرف:ربیع الاول 3 ھ میں،سریہ زیدبن حارثؓ،سریہ ابو سلمہ بن عبدالاسد،سریہ عبداللہ بن انیس:ؓمحرم 4 ھ میں، سریہ مرثد بن ابی مرثد، صفر4ھ میں،سریہ محمد بن مسلمہؓ :محرم 6ھ،سریہ عبداللہ بن عتیکؓبرائے قتل ابو رافع یہودی:جمادی لثانی6ھ میں،سریہ سعید بن زیدؓاورسریہ عکاشہ بن محصنؓ:ربیع الاول 6 ھ میں،سریہ محمد بن مسلمہؓ:ربیع الثانی 6 ھ میں،سریہ ابو عبیدہؓ بن جراح: ربیع الثانی 6ھ میں،سریہ زید بن حارثہؓ:ربیع الثانی 6تارجب 6 ھ میں،سریہ عبدالرحمنؓ بن عوف،سریہ زید بن حارثہؓ اورسریہ علی بن ابی طالبؓ:شعبان 6ھ میں،سریہ زید بن حارثہؓ:رمضان 6ھ میں،سریہ عبداللہ بن رواحہؓ:شوال 6ھ میں،سریہ عمر بن خطابؓ،سریہ ابو بکرصدیقؓ،سریہ بشیر بن سعدؓ،سریہ غالب بن عبداللہ اللیثیؓ،سریہ بشر بن سعد انصاریؓ اورسریہ ابن ابی العوجا:ذی الحجہ 7 ھ میں،سریہ غالب بن عبداللہ لیثیؓ:صفر 8ھ،سریہ شجاع بن وھب اسدیؓ،سریہ کعب بن عمیر غفاریؓ،غزوہ موتہ اورسریہ عمروؓ بن العاص:جمادی الاخری 8ھ میں،سریہ خبط ،جسے عنبر نامی مچھلی کے واقعے کی وجہ سے سریہ عنبر بھی کہتے ہیں:رجب 8ھ میں،سریہ ابو قتادہؓ،سریہ ابوحدرد اسلمیؓاورسریہ خالدؓ بن ولید،سریہ اوطاس،سریہ عمروؓ بن عاص،سریہ سعد بن زیدؓرمضان 8ھ میں،سریہ خالدؓ بن ولید:شوال 8ھ میں،سریہ طفیل بن عمروالدوسیؓاورسریہ عیینہ بن حصن الفزاری:محرم 9ھ میں،سریہ قطبہ بن عامرؓ،سریہ ضحاک بن سفیان کلابیؓ،سریہ علقمہ بن مجز زمدلجی:ربیع الثانی 9ھ میں، سریہ علیؓ ابن طالب ،سریہ عکاشہ بن محصنؓاورسریہ خالدؓ بن ولید،یہ تیسراسریہ تھاجوسیف اللہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سربراہی وامارت میں ہوا::ربیع الثانی 9ھ میں،واقع ہوئے۔(تعلیم الجہاد)
ذیل میں مشہور سرایاکاتذکرہ کیاجاتاہے:
(۱) سریہ حضرت حمزہؓ : 
یہ سریہ رمضان شریف ۱ ھ ؁ میں واقع ہوا ۔اس کے قائد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ور رضائی بھائی اسداللہ والرسول حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ تھے۔ اس سریہ میں تیس مہاجرصحابہؓ شریک ہوئے ، جب کہ دشمن کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ تھی ۔مقابلہ ایک قریشی قافلے سے تھا،جو شام سے سامانِ تجارت لے کر آرہا تھا ۔ اس قافلے کا سردار ابو جہل تھا۔ اس کی فوج تین سو فوجیوں پرمشتمل تھی ۔ مسلمانوں کاارادہ تھا کہ ابو جہل کے قافلے پر حملہ کیا جائے ،جو پورے شہر کا سامان تجارت لے کرآرہا تھا،تاکہ کفار پر معاشی ضرب لگائی جائے ،جس سے ان کے ظلم کا زور ٹوٹ جائے۔
(۲)سریہ حضرت عبیدہ بن حارثؓ : 
یہ سریہ شوال ۱ ھ ؁ میں واقع ہوا ۔حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ اس کے قائد تھے۔یہ سریہ ابو سفیان کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے تھا،جو بطنِ رابغ کے مقام پر دو سو آدمی لے کر مدینہ پر حملہ کی عرض سے پہنچنے والا تھا ۔ اس سریہ میں ساٹھ مہاجرصحابہؓ شریک ہوئے۔اس میں بھی کفار تعداد میں کہیں زیادہ، تقریباً ۲۰۰ کے قریب، تھے ۔ جنگ کی تو نوبت نہ آسکی البتہ تیر اندازی ہوئی ۔ یہی وہ سریہ ہے،جس میں حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ نے اسلام کی طرف سے پہلا تیر چلایا تھا ۔ 
(۳)سریہ حضرت عبداللہ بن جحشؓ اور پہلی غنیمت:
حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ کا دستہ سب سے پہلا دستہ ہے ،جس نے غنیمت حاصل کی ،اس اعتبار سے یہ سریہ قابلِ ذکرہے ۔حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ اس کے سردار تھے،اس دستے میں بارہ مہاجرین تھے ۔ ان کو مقام نخلہ پر قریش کے تجارتی قافلے کی خبر لانے کے کیے بھیجاگیا تھا،اُس قافلے کے اندر عمرو بن حضرمی اور عبداللہ بن مغیرہ کے دو بیٹے عثمان اور نوفل قابلِ ذکر تھے ۔ وہاں اتفاقی طور پر جنگ کی سی صورت حال پیش آگئی ۔ اِس دستے نے سب سے پہلے دو آدمی گرفتار کیے اور ایک کو قتل کردیا۔ یہ جنگ اتفاق سے رجب کے مہینے میں پیش آئی تھی،جو حرمت والے مہینوں میں سے ہے ،جن میں جنگ اور قتل وقتال کی ممانعت ہے ،اس وجہ سے کفار نے بہت کچھ اعتراض بھی کیے۔
(۴)سریہ بئرِمعونہ : 
یہ سریہ ماہ صفر ۴ ھ ؁ میں لڑا گیا ۔ اس لڑائی میں مسلمانوں کی سرداری حضرت منذر بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس تھی ۔ مسلمانوں کی تعداد صرف ستّر حفاظِ قرآن صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر مشتمل تھی ،جب کہ ان کے پاس سامان جنگ بھی نہ ہونے کے برابر تھا ،کیوں کہ یہ لوگ جنگ کے لیے نہیں گئے تھے ،بلکہ ابو براء عامر کی پُر فریب درخواست کی بنا پر نجد میں تبلیغ کی خاطر نکلے تھے، کہ راستے میں عامر، رعل ، ذکوان ، اور عصیہ کے قبیلے والوں نے حملہ کردیا اور سب کو شہید کردیا ۔ مگر بعد میں یہ قبیلے مسلمان ہوگئے تھے ۔
(۵)غزوہ موتہ :
یہ لڑائی جمادی الاولیٰ ۸ ھ ؁ میں ہوئی۔ اس جنگ کی وجہ یہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بصریٰ کے حاکم ’’ شرجیل ‘‘ کو دعوتِ اسلام دینے کے لیے حضرت حارث بن عمیر رضی اللہ عنہ کواپنے نامہ مبارک کے ساتھ روانہ کیا ۔ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر کو شہید کردیا ، اس کی سزا کے طور پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لشکر روانہ کیا ۔ اس لشکر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تو شرکت نہیں فرمائی تھی ،لیکن پھر بھی اسے غزوہ اس لیے کہا گیا ،کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکر کو بہت خاص خاص نصیحتیں فرمائی تھیں ۔ اسلامی فوج کی تعداد صرف تین ہزار تھی، جبکہ شرجیل کی فوج کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تھی۔ اسلامی لشکر کا سردار حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایاگیا ، مگر ساتھ ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وصیت بھی کی تھی کہ اگر یہ شہید ہوجائیں تو حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کو سردار مقرر کیا جائے اور اگر وہ بھی شہید ہوجائیں تو حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو سردار مقرر کیا جائے ۔وہ بھی شہید ہوجائیں ،تو مسلمان جس کو چاہیں اپنا امیر بنالیں۔ ان مٹھی بھر مسلمانوں کا کفار کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے اس قدر رعب بٹھایا کہ دشمن پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگیا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق تینوں علم بردار شہید ہوگئے، ان کے بعد جھنڈا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور انھوں نے دشمن کا اس زور سے مقابلہ کیا کہ فتح ونصرت نے اسلامی لشکر کے قدم چومے اور کفار کا سب غرور خاک میں مل گیا۔ 
(۶)سریہ غالب بن عبداللہ لیثیؓ
یہ سریہ صفر 8ھ میں ہوا، مکہ سے 42 میل کے فاصلے پر واقع مقامِ کدید کی طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غالب بن عبداللہ لیثی کو تقریبا پندرہ سولہ افراد کے ساتھ صفر 8 بنی ملوح قبیلے کی سرکوبی کے لیے بھیجا۔ نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ہدایت کی کہ دشمن پر اچانک حملہ کردینا۔چناں چہ صحابہ کرامؓ نے اچانک ان پر حملہ کردیااور بہت سے مویشی لے آئے۔ بنی ملوح ایک بڑے لشکر کے ساتھ ان کے تعاقب میں روانہ ہوئے، مگر اللہ تعالی نے دشمن اورنبوی لشکرکے درمیان سیلابی پانی کو حائل کردیاجس کی وجہ سے وہ ناکام ونامراد واپس لوٹ گئے۔اس سے واپسی پرنبی المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی حضرت غالب بن عبداللہ لیثیؓ کو حضرت بشیر بن سعدؓکے ساتھیوں کا بدلہ لینے کے لیے بھیجا۔ فدک کے مقام پر حضرت غالبؓ دو سو مسلمانوں کے ساتھ پہنچے اور حضرت بشیر بن سعدؓ کا بدلہ لیا۔واضح رہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان 7ھ میں حضرت بشیر بن سعدؓ کو تیس آدمیوں کے ساتھ فدک میں بنو مرہ کی طرف بھیجاتھا۔ بنوہ مرہ کے قبیلے نے ان پر حملہ کرکے ان سب کو شہید کردیا، صرف بشیر بن سعدؓ زندہ بچے، جنھیں وہ مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے تھے۔
(۷) سریہ قطبہ بن عامرؓ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفر 9ھ میں قطبہ بن عامر کو 20 آدمیوں کے ساتھ نبو خشعم کے ایک قبیلے میں تبالہ نامی جگہ کی طرف بھیجا،یہ دس اونٹوں پر باری باری سفر کرتے اس علاقے میں پہنچ گئے۔ وہاں انھوں نے ایک آدمی کو گرفتار کرلیا۔ اس سے پوچھا تو اس نے چلاّ چلاّ کر لوگوں کو خبردار کرنا شروع کردیا جس پر انھوں نے اسے قتل کردیا۔دونوں لشکروں کے درمیان شدید لڑائی ہوئی، دونوں طرف سے بہت سے افراد زخمی ہوئے۔ قطبہ بن عامرؓغنیمت میں کافی سارے اونٹ بکریاں لے کر مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ 
(۸)جیشِ اسامہؓ 
رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ربیع الاول 11ھ میں حضرت اسامہ بن زیدؓ کو سات سو فوجیوں کے ساتھ بلقا کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی آخری لشکر کشی ہے۔ آپﷺ نے اسامہ بن زیدؓ سے فرمایا: لشکر لے کر جاؤ اور اس جگہ،جہاں تمہارا باپ شہید ہوا تھا(اس سے موتہ کا مقام مراد ہے)، ان کو گھوڑوں کے نیچے روند ڈالو۔ یہ لشکر روانہ ہوکر مدینہ سے تین میل دور مقامِ جرف میں خیمہ زن ہوا۔ لوگ تیاری کرکے ساتھ شامل ہورہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت زیادہ ناساز ہوگئی،اس شدت مرض میں بھی نبی الملاحم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی کہ اسامہؓ کا لشکر لازمی بھیج دینا۔چناں چہ جانشین پیغمبرخلیفۃ الرسول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اسے روانہ کیا گیا،یہ دور صدیقی کی پہلی فوجی مہم تھی،اس لشکر میں ۔اکثر صحابہؓ ،جن میں حضرت عمرفاروقؓ جیسے جلیل القدر صحابہ کرامؓ بھی شامل تھے،اس لشکر کے ان حالات میں بھیجے جانے کے حق میں نہیں تھے۔ان کا موقف تھا کہ: مدینہ منورہ خود خطرات میں گھرا ہوا ہے اس لیے لشکر کو بھیجنے کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں۔لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس لشکر کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تیار کیا تھا،میں اسے ایک دن کے لیے بھی نہیں روکوں گا، چاہے تمھارے چلے جانے کے بعدیہاں ہمیں کیسے ہی حالات سے دوچار ہونا پڑے۔ اس لشکر کے جانے سے آس پاس کے مخالفین پر بڑا اچھا اثر ہوا۔ باغی یہ جان کر مرعوب ہوگئے کہ اگر مسلمانوں میں کسی قسم کی کمزوری ہوتی یا مدینہ کمزور ہوتا ،تو خلیف�ۂ وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس لشکر کو روانہ نہ کرتے۔
چناں چہ علامہ عبدالحق محدث دہلوی ؒ لکھتے ہیں:جب جوش جہاد میں بھرا ہوا عساکرِ اسلامیہ کا یہ سمندر موجیں مارتا ہوا روانہ ہو،ا تو اطراف وجوانب کے تمام قبائل میں شوکتِ اسلام کا سکہ بیٹھ گیا اورمرتد ہوجانے والے قبائل ،یا وہ قبیلے جو مرتد ہونے کا ارادہ رکھتے تھے، مسلمانوں کا یہ دَل بادَل لشکر دیکھ کر خوف ودہشت سے لزرہ براندام ہو گئے اورکہنے لگے کہ اگر خلیفہ وقت کے پاس بہت بڑی فوج ریزروموجود نہ ہوتی تو وہ بھلا اتنا بڑالشکر ملک کے باہر کس طرح بھیج سکتے تھے؟اس خیال کے آتے ہی ان جنگجو قبائل نے جنہوں نے مرتد ہوکر مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کا پلان بنایا تھا خوف ودہشت سے سہم کر اپنا پروگرام ختم کر دیا بلکہ بہت سے پھر تائب ہوکر آغوشِ اسلام میں آ گئے اورمدینہ منورہ مرتدین کے حملوں سے محفوظ رہا ۔(مدارج النبوۃ)
حضرت اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہ کالشکرمقام اُبنی میں پہنچ کر رومیوں کے لشکرسے مصروفِ پیکار ہو گیا اورآخر کار بہت ہی خوں ریزجنگ کے بعد لشکرِ اسلام فتح وظفر کے پھریرے لہراتا ہوا، بے شمار مال غنیمت لے کر چالیس دن کے بعد فاتحانہ شان وشوکت کے ساتھ مدینہ منورہ واپس پہنچا۔جانشین رسول خلیف�ۂ بلافصل سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اس صائب فیصلے نے ایک طرف تورومیوں کی عسکری طاقت کوتہس نہس کر دیا اوردوسری طرف مرتدین کے حوصلوں کو بھی پست کر دیا۔

Short URL: http://tinyurl.com/y6wb737p
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *