معاشرہ۔۔۔۔ شاہد شکیل

Shahid Shakil
Print Friendly, PDF & Email

کیا ہم میں سے کبھی  کسی نے سوچا ہے کہ پاکستان کے ترقی نہ کرنے کی وجوہات کیا ہیں ؟

اس بارے میں اگر کسی عام شہری سے پوچھا جائے تو وہ بے زاری سے رٹا رٹایا جواب دے گا کہ پاکستان کی قسمت ہی خراب ہے کیوں کہ اس ملک کو آج تک کوئی اچھا لیڈر نصیب نہیں ہوا۔

پاکستان اکانومک سروے کی رپورٹ کے مطابق ملک میں اٹھاون فی صد لوگ غیر تعلیم یافتہ ہیں ۔ایک غیر تعلیم یافتہ شہری جب سوچے سمجھے بغیر ایسے رٹے رٹائے جواب دے گا تو اس کے فرشتے بھی پاکستانی نام نہاد سیاست اور سیاست دانوں کی نو ٹنکیوں سے کوسوں دور ہوں گے اور دیکھا جائے تو اس عام شہری کی سوچ پر شک کر نا جہالت ہے کیوں کہ جب وہ تعلیم اور شعور سے بے بہرہ ہے تو اس کا مُو قف درست ہے وہ فقط سیاست دان اور اس کے نعروں کو ہی اپنا مستقبل سمجھتا ہے وہ نہیں جانتا کہ جب یہ سیاست دان ، رہنما بر سرِ اقتدار آئے گا تو چند ماہ یا ہفتوں قبل ووٹ حاصل کرنے کے لئے جو بھی بلند بانگ دعوے یا نعرے بازی کی تھی انہیں پایہ تکمیل تک پہنچائے گا بھی یا نہیں ؟ پاکستانی سیاست دانوں اور ان کے نعروں پر کتاب لکھی جا سکتی ہے ۔

تاریخ گواہ ہے کہ پاکستانی عوام کو آج تک سوائے جھوٹے وعدوں اور نعروں کے اور کچھ نہیں ملا اب تو نعرے سننا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے دو وقت کا کھانا ملے نہ ملے نعرہ ضرور ملتا ہے ۔

جب بھی نئی حکومت بر سرِ اقتدار آئی نعرے ہی لگائے موجودہ بحرانوں کو سابقہ حکومت کی نااہلی قرار دیا اور تمام مسائل کا موردِ الزام ٹھہرایا ، پانچ سال ملک میں کم اور بیرونی ممالک کے دورے اور سیر سپاٹے زیادہ کئے جب جب میڈیا کا سامنا ہوا گول مول ، ٹال مٹول اور دروغ گوئی سے کام لیا اور انتظار کرنے کو کہا کہ موجودہ بحران پر قابو پانا دو چار روز کی بات نہیں ہماری کوششیں جاری ہیں ۔

پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مسائل اور بحران گھٹنے کی بجائے پروان چڑھتے ہیں مسائل اور بحران کا حل نکالنے ، ختم یا کم کرنے کی بجائے جہاں بحران نہیں ہوتے وہاں بھی جان بوجھ کر پیدا کر دئے جاتے ہیں ، مسائل اور بحران کوئی نادیدہ قوت نہیں بلکہ اپنی کرسی کو سلامت رکھنے کے لئے یہ نام نہاد رہنما ہی معاشرے میں اپنے ذہین دماغ کو غریب عوام پر استعمال کر کے پیدا کرتے ہیں ۔

ہزاروں سوالوں کا ایک ہی جواب ہوتا ہے ملک دشمن عناصر ، بیرونی طاقتیں ، دہشت گرد اور اَزلی دشمن وغیرہ وغیرہ پاکستان کو خوشحال نہیں دیکھنا چاہتے یہ گھسے پٹے جواب سن کر ایک غیر تعلیم یافتہ عام انسان معاملات یا ان سیاست دانوں کی اس پینترے بازی کی تہہ تک کیسے پہنچ سکتا ہے ، اس بے چارے کو دال روٹی ، بجلی پانی ، صحت بیماری ، بچوں کی تعلیم ، بیٹیوں کا شادی بیاہ اور روز مرہ کے ہزاروں جھمیلوں سے فرصت نہیں تو وہ سیاست دان اور اس کی سیاست کو کیا جانے ۔ اپنے مفاد اور ذات کے لئے سب مل جل کر جیبیں بھرتے ہیں اور نعرے مارتے ہوئے یہ جا وہ جا۔

ان نام نہاد سیاست دانوں نے پاکستان کو بزنس اور جوئے کا اڈا بنا دیا ہے جو جتنا مال لگائے گا اتنا زیادہ منافع پائے گا ملک میں اور ملک سے باہر بھی ، ان پڑھ عوام اللہ اس کے رسول اور قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے کی بجائے ان لالچی اور بے ایمان رہنماؤں کے نقشِ قدم پر چل نکلی ، ہر چیز میں ملاوٹ کی ، مٹی بیچنے والے نے مِٹی میں بھی ملاوٹ کی ، گناہِ کبیرہ کی حدود بھی پار کر گئے معصوم بچوں عورتوں کے ریپ سے لے کر مردے کی بھی جان نکال لی ، کسی زمانے میں سنا تھا کہ کفن چور پائے جاتے ہیں لیکن آج ملک وقوم ترقی کر گئے ہیں اب تو کفن کے اندر والی چیز کا بھی سب کچھ نکال کر جیب ہلکی رہتی ہے، کیوں کہ اس زمین پر ہمارا بھی حق ہے حلال حرام تو کتابوں میں ہی اچھا لگتا ہے ۔ مزے کی بات جب کوئی عالمِ دین مسجد میں یہ کہنے کی بجائے کہ اللہ اور اس کے رسول  کے بتائے راستہ پر چلو  چیخ چیخ کر یہ کہتا ہے کہ اس حکومت نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے پڑوسی ملک جو ہمارا ازلی دشمن ہے یہ سب کچھ وہی اسرائیل اور امریکا کے ساتھ مل کر کروا رہا ہے تو سن کر اس کے ( وعظ ) پر شک ہوتا ہے کہ وہ عالمِ دِین ہے یا پاکھنڈی سیاست دان ؟ سیاست اور مذہب کی ملاوٹ معاشرے میں ہر غیر تعلیم یافتہ شہری کو جدید دنیا سے دور ، رقابت ، نفرت ، اور نفسیاتی مرض میں مبتلا کر دیتی ہے ۔

سیاسی ، سماجی ، معاشی اور مذہبی مسائل اتنے ہیں نہیں جتنا اس توہم پرست معاشرے میں چند جاہلوں نے پھیلا دئے ہیں ان تمام مسائل اور بحرانوں کے جتنے ذِمے دار یہ پایہ کہ سیاست دان یا رہنما ہیں اتنا ہی غیر ذمہ دار الیکٹرونک میڈیا بھی ہے جو ان واقعات کی جڑ تک پہنچنے کی بجائے روزانہ انہیں نمک مرچ لگا اور چٹپٹا بنا کر ٹی وی پر دکھا دیتا ہے ۔بچوں کو اُدھڑی اور جلی کٹی لاشیں دکھا کر کون سا تیر مارا جا رہا ہے ، لاشوں کے چیتھڑے دکھا کر اپنے آپ کو اوپن میڈیا کہلانے والے انٹر نیشنل شوئنگ رینکنگ کو سراسر فراموش کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں ہم ذمہ داری سے اپنا کام کرتے ہیں ۔

سیاست دان اپنا مفاد حاصل کرنے کے لئے غریب اور ان پڑھ عوام کو استعمال کرتے ہیں اسی وجہ سے ملک میں تعلیمی نظام نہیں آنے دیتے کہ یہ جاہل قوم اگر پڑھ لکھ گئی تو ہمارے پیروں سے بادشاہت کی کرسی کھینچ لے گی اور یہی وجہ ہے کہ عوام کو مختلف بحرانوں کے شکنجے میں پھنسا کر اپنی اپنی باریوں کا انتظار کرتے ہیں ، علاوہ ازیں عوام بھی کہیں نہ کہیں ان تمام مسائل اور بحرانوں کی خود ذمہ دار ہے ، اخلاق اور برداشت کا دامن چھوڑ کر ضد اور ہٹ دھرمی کا چغہ پہن رکھا ہے شاید یہ لوگ نہیں جانتے کہ ضد اور ہٹ دھرمی میں اکثر غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں اور پچھتا وہ رہ جاتا ہے ۔

پاکستانی معاشرے کو جو فرسودہ روایات وراثت میں ملی ہیں کہ ہمارا لیڈر یا رہنما ہی سب کچھ کرے گا ان روایات کو اب اپنے دل ودماغ سے نکال باہر کریں کوئی کچھ نہیں کرے گا جو کچھ کریں گے وہ آپ خود کریں گے ۔ اب بھی وقت ہے کہ دل ودماغ اور آنکھیں کھول کر فیصلہ کریں نہیں تو یہ چند امیرکبیر لوگ آپ کو تو غلاظت کے کیچڑ میں ڈبو چکے ہیں اپنی آنے والی نسل کے بارے میں سوچیں ، خود تعلیم حاصل نہیں کر سکے تو اپنے بچوں کو تعلیم دلوائیں وقت حالات اور دنیا کے ساتھ چلنا سیکھیں نہ کہ ریورس گئیر لگا کر تاریخ کا حصہ بنیں ۔

مسلمانوں کے نام رکھ لینے یا عربی پڑھنے سے کبھی کوئی مسلمان نہیں بنتا ، قرآن حکیم کو ترجمعے سے پڑھیں اور اس پر عمل بھی کریں کیوں کہ جب تک آپ ایک اچھا انسان نہیں بن پائیں گے کبھی مسلمان نہیں بن سکتے اور نہ ہی محبِ وطن ۔ وراثت میں ملی جہالت کی باتوں کو دفن کریں اور سوچیں کہ کیا اچھا اور کیا برا ہے جب آپ میں اچھے برے کی تمیز اور پہچان آجائے گی پھر آپ کو کسی لیڈر یا رہنما کی ضرورت محسوس نہیں ہو گی ۔ دوسروں کو بھی بیدار کریں پھر دیکھیں اپنے پاکستان اور معاشرے کو ۔ کبھی بھول کر بھی سیاست کو مذہب میں اور مذہب کو سیاست میں استعمال نہ کریں ۔

انسان کا عمل ہی اسے اچھا یا برا بناتا ہے اچھا کام کریں گے تو دنیا یاد رکھے گی برا کریں گے تو بھی دنیا یاد رکھے گی لیکن کن الفاظ میں؟

یہ سوچ لیں کہ دنیا میں اپنے کس عمل سے لوگوں کے دلوں میں رہنا چاہیں گے ؟

Short URL: http://tinyurl.com/gn5dvm7
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *