مسائل کا تعفن زدہ کنواں۔۔۔۔ تحریر: امجد ملک

Amjad Malik
Print Friendly, PDF & Email

بہت پرانا قصہ ہے کہ کسی گاؤں کے لوگ مولوی صاحب کے پاس آئے اور کنویں میں کتا گر جانے اور کنویں کے پانی کو پاک کرنے کا مسلہ پوچھا. مولوی صاحب نے لوگوں کو ” پورے سو لوٹے ” پانی نکالنے اور کنویں کے پانی کو پاک کرنے کا مشورہ دیا. چنانچہ لوگوں نے کنویں سے ” سو لوٹے پانی ” نکالا اور کنویں کو پاک کر دیا. گاؤں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی. لیکن کوئی بھی شخص پانی پینے کی بجائے واپس چلا جاتا. وہی بھلے مانسوں کا ٹولہ دوبارہ مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا. گزارش کی کہ “آپکی ہدایت پر ہم سو لوٹے نکال کر کنویں کو پاک کر چکے لیکن پانی پینے کو دل نہیں مانتا ”
مولوی صاحب نے کہ کہ” پانی صاف کرنے کا مسلہ یہی ہے. پھر کیا پریشانی ہے ? چلو میں چلتا ہوں پی کر تسلی کرواتا ہوں ”
مولوی صاحب کنویں پہ پنچے تو حیرت زدہ ہو گئے. اور بولے ” کمبختو ! مرا ہوا کتا بھی تو نکالنا تھا ”
مرا کتا نکالے بغیر , لاکھوں لوٹے بھی نکال دو , کنواں پاک نہیں ہوگا.
یہ کہانی ہماری زندگیوں میں بہت اہم مثال بن گئی ہے. نفرت و عداوتوں , لالچ و حرام خوری کے ” مرے کتے ” دلوں سی نکالے بغیر ہماری ظاہری کوششوں سے نہ امن آنا ہے ,نہ محبت ,نہ خوش حالی.
میری یاداشت ان نعروں سے شروح ہوتی ہے جب گلی گلی صدر ایوب کی “مہنگائی , مظالم , چند خاندانوں کی دولت اور ملکی وسائل پر گرفت ” کے خلاف تحریک زوروں پر تھی. اس وقت “بچپن “اسی کا یقین کر چکا تھا کہ صدر ایوب کے اقتدار چھوڑتے ہی , پاکستان , دنیا کے نقشے پر ایک مثالی ملک بن کے ابھرے گا. تعلیم , صحت اور بنیادی سہولیات میں شاید ہم یورپ اور امریکا کے برابر کھڑے ہونگے. مجھے یاد ہے , ہم مٹی سے اٹی ٹاٹوں کو جھاڑتے اسکول میں , یہی سوچتے تھے کہ عنقریب ہم اعلیٰ بنچوں پر بیٹھے ہونگے.
ستر سال , ایک صدی کے برابر , عرص? گزرنے کے بھد , اب بھی بچوں کو سخت سردی میں , بوسیدہ ٹاٹ اور ننگی ٹھنڈی زمین پر بیٹھا دیکھ کر , ایوب خان کے دور کے “بائیس خاندان ” یاد آ جاتے ہیں. وہ سحر انگیز لیڈر , انکی تندو تیز تقریریں , میلوں لمبے جلوس , لاکھوں کے پرجوش نعرے لگاتے چہرے , آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں.
ترقی کے نام پر بننے والے منشور , تبدیلی کے نعرے , سیاست دانوں کی آنیاں جانیاں , کبھی سول کی کرپشن اور بدعنوانیوں کے نام پہ آنے والی فوجی حکومتیں , ہم وہ قوم ہیں جس نے عجیب و غریب طریقوں سے حکومتیں بنتے اور ٹوٹتے دیکھیں.
سیاسی پارٹیوں کی اقتدار کی رسہ کشی , کا محور اور عنوان ہمیشہ ” غریب عوام ” رہے.
ہر تقریر , ہر پالیسی , ہر تحریک , ہر الیکشن , ہر مہم , عوامی مسائل , عوام کی ترقی کے نام سے شروع ہوئی , عوام کے نام پہ ختم ہوئی.
میک اپ زدہ چہرے , خوبصورت قیمتی لباس , سٹوڈیوز کے, سجے سجائے ,لائٹوں کی چکا چوند , والے سیٹ پر بیٹھے , اپنی چرب زبانی کا جادو جگا کر اب بھی عوام کا دل موہ رہے ہیں.
جمہوریت پہ قربان ہونے والے , یہ قوم کے سپوت , انتہائی آرام دہ , پالکی نما گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں , حفاظت کے لئے مستعد گارڈز , رہنے کے لئے عالیشان فارم ہاؤسز , دنیا کی ہر آسائش سے لطف اندوز ہوتے , بچوں کی پاکستان اور بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کی سہولیات , علاج باہر , جائیداد باہر , حج عمرے سرکاری ,
میں ایوب خان کے آخری دور میں مٹی سے اٹی ٹاٹ جھاڑ کر اسکول میں بیٹھتا تھا. اور میرے ملک کے بچے اب بھی وہی پریکٹس کر رہے ہیں. کروڑوں بچوں کو تو وہ ٹاٹ کا اسکول بھی نصیب نہیں.
سیاسی لوگ ستر سالوں سے ” مسائل کا کنواں ” پاک کرنے کے لئے لوٹے نکال رہے ہیں لیکن ” مسائل کا مرا کتا ” ابھی کنویں سے نکالا نہیں گیا.
انصاف جب تک عام آدمی کی دہلیز تک نہیں پونچے گا اسے انصاف کوئی نہیں کہے گا.
جب تک غریب کا بچہ , آسانی اور سہولت سے تعلیم تک رسائی حاصل نہیں کر پاتا , سب دھوے جھوٹ ہیں , جب تک غریب بوڑھے , ہسپتالوں کے وارڈوں میں دوائیوں کی پرچیاں پکڑے , ہر آنے جانے والے کو حسرت و یاس سے منتیں کرتے نظر آتے رہیں گی. جب تک مائیں اپنی جوان بیٹیوں کے جہیز کا انتظار کرتے کرتے , قبروں میں جاتی رہیں گی , سیاست کا ہر دعو? , ہر اعلان , ایک چکمہ اور سراب کے علاوہ کچھ نہیں.
مسائل کا کنواں جوں کا توں ہے. تھانہ , کچہری , ہسپتال , اسکول , بجلی , پانی جیسی بنیادی ضروریات اور انصاف کے حصول جیسے مسائل غریب کے لئے ایک خواب ہے. جو وہ ستر سالوں سے دیکھ رہا ہے.
قوم ایک آ س , ایک امید پر , ہر دفعہ دھوکہ کھاتی ہے. خوبصورت تقریروں , دل نشین باتوں کے ماہر فنکار , وقتی اسٹیج سے , میلہ لوٹ جاتے ہیں.
بنیادی مسائل جوں کے توں , مستقبل کے سہانے خواب دکھانے والوں کی , پچھلی کار کردگی اور موجودہ کوششوں کی سمت اور تعین , انکا روٹ , انکی منزل ہی الگ ہے , کوئی ایسی پائیدار کوشش اور عملی اقدام نظر ہی نہیں آتا جس سے کسی ایسے انقلاب کی راہ ہموار ہو رہی ہو , جو غریب کو تعلیم , صحت, انصاف اور بنیادی مسائل کے چنگل سے نکل سکے.
مسائل کا کنواں , اندھا دھند , لوٹے نکالنے , سے پاک نہیں ہوگا. ان تعفن زدہ , مجبوریوں اور مسائل کا ادراک کرنا ہوگا جس سے اس ملک کے غریب کو سامنا ہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/hoj5hr8
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *