مرد کی کم عقلی

Aysha Ahmad
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: عائشہ احمد
گھر عورت کی وجہ سے بنتے ہیں اور ٹوٹتے مرد کی بے عقلی کی وجہ سے۔لیکن افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ ہمارے ہاں گھر کی بربادی کا ذمہ عورت کو ٹھہرایا جاتا ہے۔مرد نے خود کو باہر کمانے کی حد تک محدود کر لیا ہے اور گھر کا سارا نظام عورتوں کے حوالے کر کے خود ہر ذمہ داری سے بر الذمہ ہو گیا ہے۔اگر گھر کا ماحول کشیدہ ملتا ہے تو بجائے کے مسئلے سلجھانے کے اپنے سکون کے لیے چورر راستے ڈھونڈنا ہے ،جسکا نتیجہ گھر کی تباہی کی صورت میں ہوتا ہے ،اس وقت پاکستان میں طلاق کی شرح بہت خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔جسکا زیادہ نقصان عورت کو ہوتا ہے ،اس لیے کہ آخر میں وہی قصور وار ٹھہرائی جاتی ہے۔اور اگر اس کے بچے ہیں تو اس کے لیے مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔
اﷲ نے مرد کو عورت سے طاقت ور بنایا ہے۔اور اسے گھر کا سربراہ بنا کر گھر کے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کی لیکن مرد بطور سربراہ بری طرح ناکام ہے۔اسے یہ پتہ ہی نہیں کہ اس کے والدین کا کیا مقام ہے،بہن بھائیوں کے کیا حقوق ہیں،بیوی اور اولاد کے کیا حقوق ہیں۔اور ان سب میں عدل و انصاف کیسے کرنا ہے۔کیسے گھر کے معاملات میں توازن رکھنا ہے،ماں کی ماننی ہے تو پھر بیوی کی نہیں سننی اور اگر بیوی کی ماننی ہے تو پھر ماں کی نہی ماننی،مطلب یہ کہ مرد کی اپنی عقل کہاں ہوتی ہے،کیا وہ صرف باہر ہی لڑکیوں کو بے وقوف بنا سکتا ہے،اور گھر آتے ہی وہ کاٹھ کا الو بن جاتا ہے،خود کو عقل مند کہنے والا مرد جب ماں ،باپ کے کہنے پہ بیوی کو طلاق دیتا ہے تو کیا وہ یہ نہیں سوچتا کہوہ غلط کر رہا ہے۔وہ اﷲ کے احکامات کی نافرمانی کر رہا ہے۔کیا غلط کاموں میں اﷲ والدین کی اطاعت کی اجازت دیتا ہے؟ہرگز نہیں ،پھر وہ اپنا گھر توڑتے ہوئے یہ کیوں نہیں سوچتا کہ میرے ماں ،باپ بھی غلط ہو سکتے ہیں۔اور وہ یہاں بھی غلط کرتا ہے کہ بیوی کے کہنے پہ والدین کو گھر سے نکال دیا۔لیکن ایسا کم ہوتا ہے۔زیادہ بیوی ہی ظلم کا شکار ہوتی ہے،اس لیے کہ پاکستان میں والدین کی نافرمانی برا فعل سمجھا جاتا ہے۔لیکن والدین کی اطاعت ایک حد تک جائز ہے ااور جب والدین کا فرمان اﷲ کے احکامات سے ٹکرا جائے تو یہاں والدین کی نافرمانی جائز بنتی ہے اور مرد پہ اسکا کوئی گناہ نہیں ہے اس لیے کہ اﷲ کء نزدیک ناپسندیدہ فعل ہے اور جب مرد عورت کو طلاق دیتا ہے تو عرش تک کانپ جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی اسے سمجھ نہیں آتی۔عورت کو کم عقل ہے بقول مر د کے۔لیکن مرد خود کو تو عقل مند کہتا ہے۔بے شک تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے لیکن زیادہ تالی ہمیشہ ایک ہاتھ سے ہی بجتی ہے۔لیکن افسوس دین کے ماننے والے معاشرے میں اﷲ کے احکامات کی نافرمانی بڑی بے دردی سے کی جاتی ہے۔اور قرآن مجید کی آیات کو جھٹلایا جاتا ہے۔اور جو اﷲ کی آیات کا انکا رکرتے ہیں ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ جب طلاق ہوتی ہے تو وہ ایک مرد اور عورت کے کے درمیان رشتہ نہیں ٹوٹتا بلکہ نسلیں تباہ ہو

جاتی ہیں ۔وہ دین جو مسلمان ہونے کی شرط یہ رکھتا ہے کہ ہمارے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں،تو وہ کیسے ممکن ہے کہ کسی کا گھر اجاڑنے کی جازت دے،اور وہ لوگ جو گھر اجاڑتے ہیں ان کو اس بات کا ذرہ بھی احساس نہیں ہوتاکہ کل انہوں نے مرنا بھی ہے اور اپنے راب کے سامنے پیش بھی ہونا ہے۔لیکن پتہ نہیں کیوں ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی مسلمان نہیں ہے،اور ہمارے والدین بھی عجیب ہیں کہ بیٹے کی شادی پہ لاکھوں روپے خرچ کر لیتے ہیں،لیکن جب بہو گھر میں آتی ہے تو اسے سکون نہیں لینے دیتے۔اور وہ لڑکی کہ جو اتنا جہیز لے کر آتی ہے اور اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ایک انجان گھر میں آتی ہے تو بجائے اس کی قدر کریں ہم،اسے عزت دے اسے سکون کا ایک سانس بھی لینے دیا جاتا ہے۔اور پھر اس کی کوشش ہوتی کہ کہ وہ شوہر کو اپنے ہاتھوں میں کرے۔جسکا نتیجہ صرف بربادی ہی بربادی ہے۔اس لیے یہ مر د کی ذمہ داری ہے کہ وہ بطور سربراہ اپنی ذمہ داریاں انجام دیاور تمام رشتوں میں توازن کو ملحوظ خاطر رکھے۔اﷲ پاک ہم سب کو سیدھے راستے پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

Short URL: http://tinyurl.com/ycuft79l
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *