ماں۔ اک عظیم ہستی ۔۔۔۔ گل عرش شاہد

Gul Arsh Shahid
Print Friendly, PDF & Email

                کہتے ہیں اللہ نے دنیا میں سب سے اچھی مخلوق انسان کو بنایا انسان دنیا ميں اللہ کا نائب ہے تمام مخلوقات میں اسے اشرف المخلوقات کا لقب دیا گیا ہے، انسانوں کو گروہوں اور فرقوں میں بنایا تاکہ وہ ایک دوسرے کو پہچان سکیں، پھر انسانوں میں جو رشتے قائم ہوئے ان میں بھائی، بہن، ماں، باپ، چچا، چچی، ماموں، ممانی، خالہ، خالو، تایا، تائی، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ بنائے، ان سب ميں ایک رشتہ ایسا بھی بنایا جو اس نے محبت، پیار اور شفقت کی مٹھاس کے ساتھ بنایا، یہ وہ رشتہ ہے کہ جسے اللہ نے ماں کا نام دیا، کہا جاتا ہے کہ اللہ نے ماں کو ممتا کا روپ دیا، وہ خود تکلیف برداشت کر کے اپنی اولاد کو خوش رکھنے کی کوشش کرتی ہے، ایک ماں جو نو ماہ تک اپنی اولاد کو اپنے پیٹ میں رکھتی ہے، اس دوران وہ بے پناہ تکلیف سہتی ہے لیکن جب وہی بچہ دنیا میں آتا ہے تو اس کی ایک جھلک ہی ایک ماں کی تمام تکلیفوں کو مٹا دیتی ہے۔

ماں خود تو تکلیف سہہ سکتی ہے مگر اسے یہ ہر گز گوارہ نہیں کہ اس کے بچے کو ایک کانٹا بھی چبھے۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ماں سے محبت کرنا، اس کا ہر حکم مانناہر بچے پر لازم ہے، قرآنِ مجید میں بھی بے شمار بار ماں کی حرمت پر تلقین کی گئی ہے، ماں کے پائوں تلے جنت رکھ دی گئی ہے۔ اللہ نے شرک کے بعد سب سے کبیرہ گناہ ماں کی نافرمانی کو قرار دیا ہے، ماں کے متعلق تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ اگر ایک مسلمان بچے کی ماں کافر ہوتو اس سے بھی حسنِ سلوک سے پیش آیا جائے کہیں اس میں بھی دل آزاری نہ ہو جائے۔

دینِ اسلام ہمیں حضرت مریم علیہ السلام، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جیسی مائوں کے نمونے دیتا ہے جہاں ایک طرف مائوں کو اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہیں اولاد کو بھی ماں باپ کا سہارا بننے کا درس دیا گیا ہے۔ تاریخ کی کتب میں ایسے بے پناہ واقعات موجود ہیں جن میں اولاد کے دل میں ماں کی اس درجہ عزت دیکھی جا سکتی ہے کہ دل رشک کرتا ہے۔ اللہ نے ماں کو اتنی عزت بخشی کہ کائنات کا سب سے خوبصورت رشتہ ماں کا ہے، حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ فرعون کے خوف سے اللہ کے بھروسے اپنے لختِ جگر کو دریا نیل میں ایک صندوق میں بند کر کھے ڈال دیا کیونکہ فرعون نے یہ منادی کروائی ہوئی تھی کہ بنو اسرائیل میں پیدا ہونے والے ہر لڑکے کو قتل کر دیا جائے تاکہ وہ فرعون کے لئے کوئی خطرہ نہ بن پائے، اللہ کے سہارے پر موسی علیہ السلام کو دریا نیل کی تندو تیز لہروں ميں ڈال کر وہ ماں خوش ہوئی ہوگی ہر گز نہیں مگر صرف بیٹے کی زندگی بچ جائے اس سوچ کے ساتھ کمسن موسیٰ کو دریا کی موجوں میں چھوڑ آئیں، مگر قدرت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا، وہ صندوق کہ جس میں موسیٰ تھے دریا سے ہوتا ہوا فرعون کے محل تک پہنچ گیا اور فرعون کی بیوہ آسیہ کو مل گیا۔ آسیہ کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی، تو انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تربیت کی، ان کی پرورش ایک بہترین انداز میں کی۔

جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ماں کی قدر کم ہوتی گئی، وہ بچہ جو کبھی ماں کی انگلی تھامے پہلا قدم لیتا تھا آج وہی بچہ بڑا ہو گیا ہے، ماں کا پیار آج بھی وہی ہے مگر اب اولاد کے لئے وہی پیار گھٹن بنتا جا رہا ہے، بچپن میں ماں کے ہاتھ سے روٹی کھانے والا بچہ آج اسی ماں کے آگے انگلیوں کے اشاروں سے بدتمیزیاں کر رہا ہے۔ کل جو بچہ اپنی ماں کی آغوش میں سکون محسوس کرتاتھا آج وہی بچہ اپنی ماں کو دکھوں کے پہاڑ دے رہا ہے، کل جب وہ بچہ چھوٹا تھا تو اپنے بالوں کی مالش کرواتا، کبھی بالوں کو تیل لگواتا اور وہی بچہ آج اگر ماں اس کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھ دے تو کہتا ہے کہ آپ نے میرا ہئیر سٹائل خراب کر دیا، اتنی دیر محنت کر کے بال سیٹ کئے تھے۔ کیا یہ سب اس لئے ہوا کہ ماں کا پیار بدل گیا؟ ہر گز نہیں ماں توآج بھی وہی ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کی ماں تھیں یا حضرت آسیہ تھیں، غلط تو ہم اولاد ہیں، ہم نے اپنے ماں باپ بالخصوص ماں کے پیار پر ہی شک کرنا شروع کر دیا ہے۔ آج کے بچے یہ بھول گئے ہیں کہ کتنی تکلیف برداشت کی تھی اس ماں نے جب اس کے دنیا میں آنے کا وقت ہوا تھا، آج کا بچہ یہ بھول گیا ہے کہ کیسے اس کی ماں نے اپنی تمام خواہشات کو، اپنی خوشیوں کو دفن کر دیا صرف اس لئے کہ میرے بچے کی زندگی سنور جائے، اس ماں نے کبھی دنیا سے لڑائی کی تو کبھی خود اپنے شوہر کے آگے کھڑی ہوئی کہ مجھے اپنے بچے کا مستقبل روشن بنانا ہے، میرا بچہ کبھی بھی اداس نہ ہو، میرے بچے کی ہر خواہش پوری ہونی چاہئے، مگر دوسری طرف آج کا بچہ ایک ناجائز ضد کی خاطر اپنی ماں کو یہ کہتا ہوا زرہ برابر بھی نہیں جھجھکتا کہ اے ماں!تو نے میرے لئے کیا ہی کیا ہے؟ آج کے بچے شاید یہ بات بھول گئے ہیں کہ آج وہ بچے ہیں مگر کل کو وہ بھی ماں اور باپ بنیں گے اور جو آج وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ کر رہے ہیں کل کو ان کی اولاد بھی ان کھے ساتھ وہی سب کچھ کر سکتی ہے۔

کیا ایک ماں اسی دن کے لئے اولاد مانگتی ہے؟ کیا وہ ماں نو ماہ تک اپنے پیٹ ميں اسی لئے بچے کو رکھتی ہے کہ ایک دن آئے اور وہی بچہ ماں کو ہی دھتکار دے ۔۔۔۔ ماں نے جو قربانیاں اپنی اولاد کے لئے دی ہوتی ہیں اسے کے بدلے اگر ماں اس بچے کے خون کا ایک ایک قطرہ بھی نچوڑ دے تو بھی وہ بدلہ پورا نہ ہو پائے گا۔ ایک عورت کے لئے وہ پل سب سے حسین ہوتا ہے جب وہ اپنے بچے کو پہلی بار دیکھتی ہے لیکن سب سے زیادہ درد ناک لمحہ وہ ہوتا ہے کہ جب وہی اولاد ماں کے آنسوئوں کا سبب بنتی ہے، کہا جاتا ہے کہ آسمان پر فرشتے بھی اس اولاد پر لعنت بھیجتے ہیں جو اپنی ماں کو اذیت میں رکھتی ہے۔ ماں کی عزت کرنے میں ہی دنیا اور آخرت کی کامیابی چھپی ہے، اللہ کی قسم ماں ہے تو بچے سلامت ہیں ورنہ اس بچے کا کچھ بھلا نہیں ہو سکتا جس کی ماں اس سے راضی نہ ہو۔

آخر میں میں تمام بچوں، بڑوں سے کہ جن کی مائیں ابھی زندہ ہیں، ہاتھ جوڑ کے درخواست کرنا چاہوں گا کہ اللہ کے لئے اپنی ماں کی عزت کریں، انہیں خوش رکھیں، کوئی تکلیف نہ ہونے دیں، اُف تک نہ کریں، کبھی اپنی ماں کے آگے اونچی آواز میں بات نہ کریں، کبھی کوئی ایسی بات ہر گز نہ کریں جس سے ماں کا دل دکھے، اللہ کو راضی کرنے کا آسان حل یہی ہے کہ اس کی سب سے بہترین مخلوق ماں کو راضی کر لیا جائے اسی میں ہماری بقاء ہے ورنہ اللہ کے سامنے قیامت کے دن جب سوال ہو گا کہ کیا تم نے ماں کی خدمت کی ؟تو ہم کیا جواب دیں گے۔۔۔۔ ذرا سوچئے

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ماں باپ کا سایہ ہم پر سلامتی کے ساتھ بنائے رکھے اور ہمیں ہمیشہ ان کی خدمت گار اولاد کی طرح رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!!

Short URL: http://tinyurl.com/zgqkztm
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *