لب خاموش ہیں!۔۔۔۔ تحریر: ابو عشارب

Abu Asharab
Print Friendly, PDF & Email

کائنات میں انسان کی ہستی سب سے زیادہ شرف اور فضیلت کے ساتھ سرفراز کی گئی ہے ۔ پروردگار عالم نے اس کے واسطے پیکر جسمانی ہی احسن تقویم مقدر فرمایا اور اسی احسن تقویم کے لباس میں ن نوع انسانی عالم میں جلوہ گر ہوئی ۔
تمام مخلوقات انسانی تدبر اور تصرف کے تابع کردی گئیں کہ وہ اپنے فہم اور ارادہ سے ان پر جیسے چاہتا ہے حکمرانی کرتاہے اور ان کے منافع سے متمتع ہوتاہے ۔ ادنی غور و فکر سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ انسان کی برتری اور فضیلت صرف اس کے ظاہری پیکر کی خوبصورتی قدوقامت کی زیبائش اعضاء کے بہترین تناسب اور اس کی صورت و شکل کے حسن و جمال کی وجہ نہیں ہو سکتی ،کیونکہ اس نوع کی خوبیاں ن تو قدر مشترک انفرادی اور جزوی طور پر دوسرے حیوانات میں ن بھی پائی جاتی ہیں کسی کی گردن اور ٓنکھ حسن و جمال میں اپنا جواب نہیں رکھتی تو کوئی جسمانی نزاکت و لطافت میں اپنا جواب رکھتا کسی کی اواز مسحور کن نغموں کو شرماتی ہے ، تو کسی ی جلد کی نرمی اور خوبی کے سامنے ریشم بھی ہیچ ہے ۔
ٍ تو اگر انسانی کرامت اور برتری صرف اسی حد تک محدود ہو تی تو انسان بھی در حقیقت ایک خوبصورت یا سب سے زیادہ خوبصورت جانور ہی کی حیثیت سے بہتر اور قابل قدر سمجھا جا سکتا تھا۔ یقیناًایسا نہیں بلکہ ہر شخص جانتا ہے کہ اس کی کرامت اور برتری کا حقیقی معیار اس کے وہ معنوی کمالات اور خوبیاں ہیں جن کے واسطے اللہ نے ان کو پیدا کیا ، احسن تقویم کے ساتھ احسن خلق کی مطابقت ہی انسان کو اشرف المخلوقات کا مصداق بناتی ہے اور خَلق اور خُلق کی عدم مطابقت اس اعلی علیین پر پہنچانے کی بجائے مقام اسفل السافلین میں گرادیتی ہے ۔ جس کے بعد اس کا درجہ مخلوقات میں اشرف اور افضل ہو نے کے بعد ارذل اور بد تر ہو جاتاہے ، حتی کہ وہ معنوی کمالات کے فقدان اور روحانی دنائت و کمینہ پن کی وجہ سے بھی بد تر شمار ہو نے لگتا ہے ۔ غرض خَلق اور خُلق کی یکسانیت و مطابقت انسان کا حقیقی کمال ہے۔
انسان کا دوسری مخلوقات سے امتیاز جس طرح صرف ظاہری خوبی اور زیبائش سے نہیں ہے اسی طرح ادراک حسی اور اس اس کا کمال بھی کسی نہ کسی حد تک نوع انسانی کے ساتھ شرکت رکھتاہے ۔ معلوم ہوا کہ انسانی کمال اور امتیاز صرف روھانی اور باطنی کمالات میں مضمر ہے ۔
جیسا کہ امام بیہقی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے جب عقل کو پیدا فرمایا تو اس کو خطاب فرمایا کھڑی ہو جا ، تو کھڑی ہوگئی پھر اس کو فرمایا پیچھے ہٹ جا تو وہ پیچھے ہٹ گئی ، پھر اس کو فرمایا آگے بڑھ تو وہ آگے بڑھ گئی ، پھر اس کو فرمایا بیٹھ جا تو وہ بیٹھ گئی تو اس کے بعد اس سے فرمایا کہ میں نے تجھ سے بہتر کوئی مخلوق پیدا نہیں کی اور نہ تجھ سے زیادہ افضل نہ تجھ سے زیادہ خوبیوں والی ۔ ہاں اور سن لے اے عقل! تیری ہی وجہ سے میں مواخذہ کروں گا اور تیرہی بدولت اپنی عطائیں کروں گا اور تیرے ہی ذریعے میں پہچانا جاؤ ں گا ، تیری ہی وجہ سے میں عتاب کروں گا اور تیری ہی وجہ سے ثواب (جزا) و سزا بھی ہو گی۔
ٍ اس حدیث میں انسان کی عملی زندگی کے ان چار پہلوؤں کی طرف اشارہ ہے جو بالعموم اس میں پائے جاتے ہیں ، کسی کام کی طرف رغبت اور کسی سے نفرت ، کسی کی جانب پیش قدمی اور کسی سے اجتناب و پرہیز غرض یہ تمام عملی پہلو عقل انسانی اور اس کے تصرف کے تابع ہیں اسی مرحلہ سے ہدایت و گمراہی کی دو راہیں بٹ جاتی ہیں ۔ اگر ان جذبات کامصرف اور رخ صحیح ہے تو انسان کے یہ عملی پہلو اس کو فلاح و سعادت کی طرف گامزن کریں گے اور اگر رخ غلط ہے تو پھر اس کا منتھائے جدوجہد شقاوت و بدبختی ہے تو اس مرحلہ پر ضروت داعی ہوئی کہ عقل کی رہنمائی کے لئے صحیح علم اور ہدایت خداوندی کی روشنی حاصل ہو تاکہ وہ انسانیت کے صحیح مقام کو پہچانے اور مقصد انسانیت کے حصول اور اس کی تکمیل کی استعداد و صلاحیت حاصل کرسکے۔ عقلاً یہ بات ممکن نہیں کہ انسانوں کے فوز فلاح کے امور انہی کے مدارکات اور عقول کیک حوالہ کردئے جائیں اس لئے کہ عقلاء کے انظار و افکار کا اختلاف دنیا میں محتاج بیان نہیں ۔ ایک ہی فعل ایک شخص مستحسن سمجھتاہے اور اس کی خوبی دلیل و برہان پیش کرتاہے اور دوسرا اسی فعل کے قبیح ہو نے کا دعوی کرتاہے اور دلیل بھی دیتاہے۔ تو ایسی صورت میں یہ کیسے ممکن تھا کہ نوع انسانی کاتمام دینی اور دنیوی نظام خود ان کی عقلوں کے حوالہ کر دیا جاتا جن کا باہمی تصادم اور کشمکش ہمہ وقت جا ری ہے تو اللہ نے انسانی عقول کی صحیح اور کامل رہنمائی کے لئے اپنی طرف سے ایک نور کامل عظیم الشا ن ہدایت اور کتاب مبین اپنے پیغمبر ﷺ پر نازل فرمادی تا کہ اس کی روشنی میں انسان انسانیت کے صحیح مقام کو پہچان لے ، انسانی ، حیوانی شہوانی اور روحانی زندگی میں امتیاز محسوس کرلے اور مقصد انسانیت کی تحصیل اور تکمیل اس کیلئے ممکن ہو دنیوی زندگی بھی خیر و رحمت اور عافیت و راحت بن جائے اور آخرت میں دائمی نعمتوں ، راحتوں اور رضائے خداوندی کا مستحق بنے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ ہم نے اپنے مذہب اور دین کو اس عقل کے تابع کردیا حالانکہ اتباع ہدیٰ تو یہ ہے کہ شریعت (مذہب)کو حاکم اور عقل کو محکوم بنایا جائے ، مگر معاملہ اب اس کے برعکس نظر آتا ہے ۔
’’خدارا۔۔۔۔! اس عقل کو ظلمت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے سے نکال کر قرآن و حدیث اور فقہ کی آشنائی عطا فرما ۔(اٰمین )۔

Short URL: http://tinyurl.com/jymgym4
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *