قراردادپاکستان کا مقصد

Muhammad Sajawal Nawaz
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: محمد سجاول 
۲۳ مارچ کا دن پاکستان کے تاریخی تناظر میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔۲۳مارچ ۱۹۴۰ کو منٹو پارک جسے بعد میں اقبال پارک کا نام دیاگیا اور اب وہاں پر پاکستان کا رفعت،عظمت ،عزت ،شان وشوکت اور جا ہ وجلال کانشان مینارپاکستان موجود ہے۔۲۳ مارچ ۱۹۴۰کو اس پلیٹ فارم پر برصغیر کے مختلف شہروں،قصبوں اور صوبوں سے مسلمانوں نے شرکت کی ۔جس کی صدارت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کی۔قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے کراچی سے لاہور کا سفر ریل گاڑی پر طے کیا،جب وہ لاہور پہنچے تو وہاں پر ہزاروں مسلمان آپؒ کے استقبال کے لیے بے چین کھڑے تھے۔جب غیور مسلمانوں نے آپؒ کو دیکھا تو ان کا جوش وولولہ عروج پر پہنچ گیا،کیونکہ قائد اعظم ہی ان کی امید تھے،پھر قائد اعظم محمد علی جناحؒ اپنی تمام تر مصروفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے منٹو پارک پہنچے ۔اس وقت وہاں پر تقریباً ۷۵۰۰۰ غیور مسلمان موجود تھے ۔اس دورکے میڈیا کے مطا بق قائداعظم محمد علی جناحؒ نے ۱۰۰ منٹ کی تقریر کی ،جس میں ان کی چند باتیں درجہ ذیل ہیں۔کہ ہمیں اب اپنے تمام تر اسلامی، سماجی، سیاسی ،معاشی ،تمدنی اور تہذیبی امور خود سر انجا م دینے ہوں گے۔جس میں محنت ،کامیابی، حکمت عملی ،ایمانداری ،دیانتداری ،خلوصِ نیت، صمم قلب اور صداقت جیسے تمام تر افعال شامل ہیں ۔ہم ایک قوم ،ایک مذہب اور ایک امت ہیں۔اس وقت کسی مسلمان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ایک دوسرے کو حکارت کی نظر سے دیکھ سکیں کیونکہ تب اخلاص،ہم آہنگی اور محبت موجود تھی۔ اس قرارداد کے دوران قائد اعظمؒ نے دوقومی نظریے کی وضاحت کر تے ہوئے فرمایا: کہ اسلام اور ہندو محض مذاہب نہیں ہیں بلکہ در حقیقت دو مختلف معاشرتی نظام ہیں ۔ چنانچہ اسے خواب وخیا ل ہی کہنا چاہیے کہ ہندو اور مسلمان مل کر ایک مشترکہ قومیت تخلیق کرسکتے ہیں۔ میں اشگاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ وہ مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر مبنی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔یہ نظریہ ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال ؒ کادیا ہوا تھاجس کی بنیا د کو آگے بڑھاتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ کو بیان کیااور پھر ۱۹۴۰ کے سات سال بعد ۱۹۴۷ میں اس دھرتی پر ملک پاکستان وجود میں آیا۔ جہاں آج ہم لوگ آزادی سے رہتے ہیں ،اپنی تمام تر رسومات، عبادات اور با قی سب افعال باخوبی سر انجام دیتے ہیں۔نیوزی لینڈمیں ہوئے حالیہ حملے سے کون واقف نہیں جس میں مسجد میں داخل ہو کربہ گناہ مسلمانوں کی لاشوں کے انبار لگا دیے گئے۔
اس تقریب میں شامل بنگال کے صدر شیر بنگال اے ۔کے فضل الحق نے مسلمانوں کے مشترکہ لائحہ عمل پر مبنی ایک قرارداد پیش کی جس کو قرار دادلاہور یا قرار داد پاکستان کے نام سے موسوم کیا گیا۔قرارداد لاہور کا متن مندرجہ ذیل تھا:
آل انڈیا مسلم لیگ کایہ اجلاس اس ملک میں صرف اس آئن کی پاسداری کرتا ہے کہ وہ مسلمان جو مختلف خطوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں ،مختلف علاقوں میں رہ رہے ہیں ۔مسلمان ہونے کے ناطے ان کو انسانی تحفظ میسر نہیں ہیں،ہم سب مسلمان ایک قوم ہیں ۔یہ قرارداد ان تمام مسلمانوں کے لئے ان کو ایک جگہ پر یکجا کرنے کے لئے ہے کہ ہم سب خود مختار ہوں گے۔یہی وجہ ہے کے مسلمانانِ ہند ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ کی قرارداد پیش کرنے کے بعد ملک پاکستان کوحاصل کرنے کے لئے کوشاں ہوگئے ۔ بہت سی کوششوں،لگن،ہمت،جوش وولولہ ، جدوجہد ،قربانیوں اور بلندوبالا حوصلے کے ساتھ تھیک سات سال بعد پاکستان مرضِ وجود میں آیا۔ہمیں ۲۳مارچ صرف چھٹی کے دن کے طور پر ہی نہیں منانا چاہیے ،بلکہ ۲۳ماررچ ۱۹۴۷ کا پسِ منظر اپنے ذہنوں میں رکھنا چاہیے۔کیونکہ اس قرارداد کے منظور ہونے سے ہی ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو مسلمان وہاں پر رہنے والے ہندواور انگریزوں کی بربریت،ظلم اوراستحصالی سے بچ گئے اور ایک علیحدہ ملک میں آزادی سے رہنے لگے۔اس دن ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہماری کوشش ہو کہ ملک کو عظیم سے عظیم تر بنائیں۔فرقہ واریت سے آزاد ہوجائیں۔

Short URL: http://tinyurl.com/y55dtyuu
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *