فیصلہ ضمیر کا

ch-ghulam-ghous
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: چوہدری غلام غوث
ایک سردار جی کپ میں چمچ ہلاتے ہوئے چائے کی چُسکی لیتے ،بُرا سا منہ بنائے کپ نیچے رکھ کر چمچ ہلانے لگتے جب سردار جی یہ عمل پانچ سات بار دہرا چکے تو چمچ ٹرے میں رکھ کر بولے ،لوبھئی دوستو ایک بات تو روز روشن کی طرح طے ہوگئی دوستوں نے حیرانگی سے چونک کر پوچھا کیا سردار جی اسی یقین سے بولے یہی ناں کہ اگر چائے میں چینی نہ ہو تو لاکھ چمچ ہلائیں چائے کبھی میٹھی نہیں ہو سکتی سپریم کورٹ ٓف پاکستان میں زیر سماعت پانامہ کیس میں الزام لگانے والے اور جن پر الزام لگایا گیا دونون ہی قانون اور آئین کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے،کسی نے اخبار کی خبروں کے تراشوں کا سہارا لیا اور کسی نے قطری شہزادے کے خط کو ڈھال بنایا ۔جبکہ دونوں فریقین کے وکلا بڑی سج دھج سے عدالت میں پیش ہوتے رہے بہت زیادہ بحث و مباحثہ کرتے ہوئے لمبے چوڑے دلائل دیتے رہے مگر دونوں فریقین قانونی تقاضوں کے مطابق ٹھوس شہادتیں اور ثبوت عدالت میں پیش نہ کر سکے جس طرح لاکھ چمچ ہلانے سے بغیر چینی کے چائے میٹھی نہیں ہوئی تھی اسی طرح موزوں اور ناقابل تردید شہادتوں کی عدم فراہمی کے بعد اسی طرح کا فیصلہ ہی متوقع تھا 
قارئین کرام !ملکی تاریخ کے سب سے بڑے کیس پانامہ لیکس کا فیصلہ بلآخر سپریم کورٹ ٓف پاکستان نے 20اپریل کو سُنا دیا جو کہ 23فروری سے ضمیر کی طرح عدالت کے سینے میں محفوظ تھا ۔دور حاضر کا بڑا کیس پانامہ لیکس جنوری سے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں زیر سماعت تھا الزام لگانے واے اور جن پر الزام لگا تھا دونوں فریقین اس کیس کی سماعت کے دوران پیش پیش رہے کیس کے حوالے سے جو باتیں کمرہ عدالت میں ہوتیں بعد ازاں دونوں فریقین ایک کھلی عدالت لگا کر میڈیا کے سامنے سینہ تان کر بڑے فخر سے بتاتے اور مدعا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ،سماعت کے دوران 5رکنی لارجر بینچ کے معزز جج صاحبان بھی ریمارکس دیتے جو اگلے روز اخبارات کی شہہ سرخیوں کا حصہ بنتے ایک معزز جج صاحب نے کہا کہ عشروں تک یاد رہنے والا فیصلہ دیا جائے گا جبکہ بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بھر پور فیصلہ دیا جائے گا جو ملکی تاریخ کا تعین کرے گا جبکہ سنئیر قانون دانوں کے تبصروں اور آرا نے مزید اس کیس کے ٹیمپو کو ہیجانی کیفیت میں لا کھڑا کیا اس دوران حکومتی اعصاب بھی جکڑن کا شکار رہے قوم اضطرابی کیفیت میں مبتلا رہی حکومتی مشینری بھی سست روی کا شکار ہو گئی ساری توجہ اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے پر مرکوز رہی ترقیاتی کاموں کی رفتار کم ہوئی عالمی سطح پر حکومت کے تشخص کو بھی نقصان پہنچا اصل توانائی جس کی ملک اور عوام کو ضرورت تھی اس کی بجائے ساری توانائی اس کیس پر خرچ ہونے لگی جس کی وجہ سے توانائی کا اصل بحران اپنی جگہ قائم و دائم رہا۔ عدالت عظمی نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ سنا دیایہ جو فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے دیا اس درخت کی ماند ہے جو زمین پر کھڑا ہوتا ہے تو وہ ایک حقیقت ہوتا ہے جس حقیقت کو ہر دیکھنے والا اپنے اپنے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے لکڑ ہارا اپنی ضرورتوں کے تحت اس پر نظر ڈالتا ہے ،پھل فروش اس کے پھل کو دیکھ کر اپنی چھابڑی میں سجانے کی نظر سے دیکھتا ہے،مالی اس کو اپنی نظر سے دیکھتا ہے ،گھونسلہ بنانے والے پرندے اسے اپنے مخصوص انداز سے دیکھتے ہیں ،ایندھن کے طور پر استعمال کرنے والوں کی اپنی نظر ہوتی ہے جبکہ کارپینٹر اس کو فرنیچر کے شاہکار کے طور پر دیکھتا ہے غرض ہر شخص اسے اپنی سوچ اور اپنے نظرئیے سے دیکھتا ہے ۔ہمارے مزاح نگار لکھاری خالد مسعود کا کہنا درست ہے کہ پانامہ کیس کے فیصلے کا سب سے زیادہ فائدہ مٹھائی بیچنے والوں کو ہوا کیونکہ اس فیصلے کے بعد جنہوں نے الزام لگایا تھا اور جن پر الزام لگا دونوں مٹھائیاں بانٹتے رہے ۔فیصلے کے بعد راقم کو بھی درجنوں ایسے منچلے ملے جنہوں نے بر ملا اعتراف کیا کہ انہوں نے دونوں طرف سے مٹھائی کھائی ہے اور یہ شہادت دی کہ مٹھائی دونوں فریقین کی ہی میٹھی تھی اللہ کرے اس طرح سے ایک دوسرے کیلئے ان کی زبان بھی مٹھاس آجائے ۔جبکہ فیصلے کے بعد عام پاکستانی مخمصے کا شکار نظر آیا ۔ عوام میں اس فیصلے کی اثر پذیری کس حد تک رہی یہ تو آنے ولا وقت ہی بتائے گا کون سچا اور کون جھوٹاہے اس کا فیصلہ بھی ملک کی اعلی عدالت ہی کرے گی اس طرح ایک مرتبہ پھر قوم کو انتظار کی سولی پر لٹکا دیا گیا ہے۔ قارئین سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد ایک مرتبہ پھر سے مجھے دانشوار دلا یاد آگیا جس نے ڈنکے کی چوٹ پر کہا تھا چوہدری صاحب پانامہ کیس جیسے معاملات کا فیصلہ صرف دنیا کا ایک واحد طاقتور اور غیر جانبداداراہ ہی کر سکتا ہے اور چوہدری صاحب اس کا نام ضمیر ہے اسطرح کے معاملات کے فیصلے ریاستی اداروں کے بس کی بات نہیں ہوتے یہ فیصلے صرف اور صرف ضمیر کے جھنجھوڑنے سے ہوتے ہیں۔ 

Short URL: http://tinyurl.com/yd7nfvoa
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *