فاٹا تاریخ کے آئینے میں اور خیبرپختوخواہ میں انضمام

Mir Afsar Aman
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: میر افسر امان
فاٹا(فیڈرل ایڈمنسٹرٹیڈ ٹرائیبل ایریا )پاکستان کے شمال مغرب میں پاکستان کے خیبرپختونخواہ صوبے اور افغانستان کے درمیان بفر زون ہے ۔جسے انگریزوں نے انیسوی صدی میں افغانستان کے راستے سرخ انقلاب کو روکنے اور سرحدی قبائل کو کنٹرول کرنے کے لیے بنایا تھا۔ فاٹا میں اُس وقت سے انگریزوں کا بنایا ہوا کالا قانون ایف سی آر(فرنٹیئر کرائم ریگولیشن) لاگو ہے۔فاٹا کا یہ علاقہ سات( ۷) ایجنسیز، خیبر ایجنسی،باجوڑ ایجنسی،مہمند ایجنسی،اورکزئی ایجنسی،کرم ایجنسی، جنوبی اورشمالی وزیرستان ایجنسی اورچھ (۶)سرحدی علاقے( فرنٹیئر ریجن)، پشاور، کوہاٹ،بنوں،لکی مروت،ٹانک،ڈیرہ اسماعیل خان پر مشتمل ہے۔فاٹا کی آبادی تقریباً ایک کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔فاٹا کا علاقہ ۶۰۰ کلومیٹر لمبا اور ۱۳۰؍ کلومیٹر چورا ہے۔ اس علاقے کے قبائل نے پاک فوج اور پونچھ کے ریٹائرڈ کشمیری فوجیوں کے ساتھ مل کر موجودہ آزاد کشمیر کا تین سو میل لمبا اور تیس میل چوڑا علاقہ بھارت سے لڑ کر آزاد کرایا تھا۔کشمیری مجائدین سری نگر تک پہنچنے والے تھے کہ بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اقوام متحدہ گیا۔ کشمیر میں رائے شماری کے وعدے پر جنگ بندی کرائی۔ پھر اپنی جد امجد چانکیہ کوٹلیہ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے رائے شماری کرانے سے صاف مکر گیا۔ فاٹا جس کے پاکستان اورافغانستان دونوں طرف پشتوں قوم آباد ہے ۔جن کی آپس میں رشتہ داریں ہیں۔کہیں گاؤں کی آدھی آبادی پاکستان کی طرف اور آدھی آبادی افغانستان کے طرف ہے۔تاریخی طور پر یہ علاقہ بہادر جنگ جوؤں کے لیے مشہور ہے۔آئین اس موقعہ پرفاٹا کے لوگوں کے متعلق کچھ تاریخی دلچسپ حقائق پر بات کریں۔کچھ عرصہ قبل اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں خیبر مرگلہ کلب نے ایک تقریب کا انتظام کیا۔جس میں تین تازہ کتب کی رونمائی کی گئی۔ جس میں کی ایک انگلش میں لکھی گئی کتاب (خیبرپختونخواہ ۔اے پولیٹیکل ہسٹری۔ ۱۹۰۱ ء سے ۱۹۵۵ء) کے مصنف ڈاکٹر ٖفخرالاسلام ،ڈاریکٹر ،پاکستان اسٹڈیز سینٹر،یونیورسٹی آف پشاور نے اپنے تقریر میں اس علاقے سے متعلق چنددلچسپ باتیں بتائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ میں اس کتاب کے لیے مواد تلاش کرنے برطانیہ، انڈیا آف لائبیری گیا۔ تلاش کے دوران، معلوم کر کے حیرن ہوا کہ وہاں پر موجود، برٹش برصغیر پر لکھی گئی تمام کتب میں دو تہائی کتب خیبرپختونخواہ پر لکھی گئیں۔جس میں فاٹا کایہ اہم علاقہ بھی شامل ہے۔ جبکہ خبیرپختونخواہ کے علاقے کا رقبہ اور آبادی انگریزوں کے برصغیر کے مقبوضہ علاقوں سے رقبے اور آبادی سے بہت کم تھا۔ یعنی خیبرپختونخواہ کے نسبتاً کم علاقے پر زیادہ کتابیں لکھی گئیں۔ جس سے ثابت ہوتا کہ یہ علاقہ انگریزوں کے لیے وبال جان بنا رہا۔ ایک اور بات ڈاکٹر صاحب نے بتائی کہ مغل بادشاہ بابرنے تزک بابری میں لکھتا ہے کہ میں نے اس علاقے سے گزرنے کے لیے انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنائے تھے۔یعنی قتل و غارت کے بعد اس علاقے سے گزر سکا۔۔۔ اب بھی تقریباً ساری مسلح انتہا پسند تنظیمیں جن پر پاکستان نے پابندی لگائی ہوئی ہے اسی علاقے کی پیداوار ہیں۔ جس میں پاکستان دشمن ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) بھی شامل ہے۔جب افغانستان پر سویٹ یونین نے قبضہ کیا تھا تو اس علاقے کے قبائل نے سویٹ یونین کو افغانستان سے نکانے میں اپنے افغان مسلمان بھائیوں کی جہاد میں 
مدد کی تھی۔ اُس وقت یہ مجائدین کہلاتے تھے۔سویٹ یونین کے ٹوٹنے کے بعد افغانستان میں طالبان نے اسلامی حکومت بنائی۔ طالبان کی اسلامی حکومت افغانستان کی تاریخ کی پہلی پاکستان دوست حکومت تھی۔ پاکستان کے مغربی سرحد محفوظ ہو گئی تھی۔ افغانستان کی قوم پرست حکومت اور سرحدی گاندھی کے پختونستان کا مسئلہ بھی طالبان نے حل کر دیا تھا۔امریکا نے ۲۰۰۱ ء میں اُسامہ کا بہانے بنا کر افغانستان پر قبضہ کر کے طالبان کی اسلامی حکومت ختم کر دی۔ افغان طالبان اور اسلام پسند لوگوں نے امریکا کو اپنے ملک سے نکالنے کے لیے پھر جدو جہد شروع کر دی۔ ایک بار پھر یہ قبائل افغان طالبان کی مدد کے لیے افغانستان میں داخل ہوئے۔ ڈکٹیٹر مشرف نے امریکا کی دھمکی میں آکر ناٹو فوجیوں کو پاکستان کے بحری ،بری اور فضائی راستے استعمال کرنے کی اجازت دی۔ اسلام آباد میں مدرسہ حفصہ میں زیر تعلیم پٹھان بچیوں پر فوج کے ذریعے فارسفورس بم مار کر سیکڑوں کو زندہ جلا دیا۔ اس زیادتی پر پشتوں ناراض ہوئے۔ سابق سفارت کاراکرام ذکی مرحوم کے ایک تھنک ٹینک کی تحقیقات کے مطابق پشتونوں نے اسی وجہ سے حفصہ بریگیڈ بنایا اور پاکستانی فوج کے خلاف لڑائی شروع کر دی۔ ڈکٹیٹر مشرف نے فاٹا پر ڈرون حملوں کی امریکا کو اجازت دی۔ جس پر سیکڑوں قبائلی اور ان کے محصوم بچے اور خواتین شہید ہوئیں۔ اس وجہ سے کود کش بمبار پیدا ہوئے۔باجوڑ میں ایک دینی مدرسہ ڈمہ ڈولا پر امریکا نے میزائل حملہ کر کے اسی(۸۰) طلبہ کو بغیر کسی وجہ کے شہید کر دیا۔جس سے قبائل میں نفرت نے جنم لیا۔ امریکہ کو لاجسٹک سپورٹ دیکر ڈکٹیٹر مشرف نے افغانستان کو تورا بورا بنانے میں امریکا کی مدد کی۔ اس سے طالبان پاکستانی فوج کے خلاف ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ختم 
کرنے میں امریکا کے ساتھ پاکستان کی فوج بھی شامل ہے ۔لہٰذا وہ بھی ہماری ایسا ہی دشمن ہے جیسے امریکا۔ طالبان نے پاکستان میں اپنے حمائیتوں کے ساتھ مل کر پاکستان میں 
فوجی انسالیشنز پر حملے کیے۔ اس میں بھارت اور امریکا کے فاٹا میں دہشت گردی کے ٹرینیڈ شدہ دہشت گرد بھی شامل ہو گئے۔ امریکی کنٹریکٹز بلیک واٹر بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئی۔امریکا کے وزیر دفاع کا بیان پریس میں شائع ہوا تھا کہ کہ جس طرح بلیک واٹر نے عراق میں امریکا کی مدد کی تھی ایسے ہی پاکستان میں بھی ہماری مدد کر رہی ہے۔ ڈکٹیٹر مشرف نے بین الاقوامی قانون کی خلاف درزی کرتے ہوئے پاکستان میں افغان کے سفیر ملا ضعیف صاحب کو امریکا کے حوالے کیا۔ جسے امریکا مشہور زمانہ بدنام جیل گروانتا موبے لیے گیا۔ اس نے ایک عرصہ تک ظلم و ستم برداشت کرنے کے بعد رہائی پائی اور ڈکٹیٹر مشرف کی زیادتی کو اپنی لکھی گئی کتاب میں بھی ذکر کیا۔ ڈکٹیٹر مشرف نے ۶۰۰ جہادیوں کو پاکستان میں پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا۔اس کا ذکر خود اپنے کتاب( کتاب سب سے پہلے پاکستان) میں کیا۔ ان سب واقعات کی وجہ سے خطے کے عام مسلمان ،افغان طالبان اور پاکستانی طالبان پاکستان کے خلاف ہو گئے۔ امریکا نے ڈکٹیٹر مشرف پر زور ڈال کر پاکستان میں قبائل پر فوجی آپریشن شروع کروائے۔ کئی دفعہ فوج اور ان جنگ جو طالبان کے میں جنگ بندی کے لیے معاہدے ہوئے مگر امریکا نے ان پر عمل درآمند نہیں کرنے دیا۔ قبائل نے بھی واپس پاک فوج سے لڑنا شروع کیا۔ پھر بھارت اور امریکا نے اپنے ٹرینیڈ گئے ہوئے دہشت گرد اور بلیک واٹر پاکستانی طالبان میں داخل کیے۔جنہوں نے پاکستان میں تبائی پھیلا دی۔ فوجیوں کے گلے کاٹ کر ان سے فٹ بال کھیلا۔ اللہ کا شکر ہے، کہ بلا آخر پاک فوج نے آپریش کے ذریعے ان علاقوں پر قابو پا لیا۔ بھارت اور امریکا کے ٹرینیڈ کیے ہوئے دہشت گرد افغانستان بھاگ گئے۔ اب وہاں سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کر رہے ہیں۔ اس سے ان علاقوں پر فوج کی بمباری سے سارے گھر تباہ ہو گئے۔ یہ لوگ در بدر ہوئے۔ اب ان علاقوں میں ریلیف دینے کی ضرورت ہے۔ نوازشریف نے سپریم کورٹ سے نا اہل ہونے سے پہلے فاٹا کو پاکستان کے شہریوں کے برابر آئینی حقوق دینے کے لیے سینیٹر سرتاج عزیز کی سربرائی میں فاٹا اصلاحات کمیٹی بنائی۔ اس کمیٹی نے محنت کر کے فاٹا کو خیبر پختوخواہ میں شامل کرنے کی سفارشات تیار کی۔ پاکستان کی فوج اور ساری سیاسی پارٹیاں فاٹا کو خیبرپختوخواہ میں شامل کرنے کی حامی ہیں۔ اللہ کرے جلد از جلد حکومت ان اصلاحات کو منظور کے فاٹا کے لوگوں کو پاکستان کے شہریوں کے ساتھ برابر کے حقوق دے۔ اس سے فاٹا میں بے چینی ختم ہو گئی اور پاکستان مضبوط ہو گا۔۔۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے ،تو سترویں صدی میں جب برطانیہ نے ہندوستان میں اپنے پنجے جمانے شروع کئے اوراپنی حکومت مستحکم کر لی تواس کے بعداس نے افغانستان پراقتدار قائم کرنے کی کوشش شروع کی۔ انگریزوں نے سرخ انقلاب کو دریائے آمو تک محدود رکھنے کی غرض سے افغانستان پر 1838 ء میں اپنے جنوبی پنجاب اور بمبئی کے مرکزوں سے حملہ کیا اور اپنے ہمنوا ،شاہ شجاع کو افغانستان کے تخت پر بٹھا دیا۔ اِس قبضے کے بعد افغان قبائل نے انگریزوں پر حملے شروع کیے۔ کابل میں انگریز ایجنٹ سر الیک زنڈر برنیس کو قتل کر کے ٹکرے ٹکرے کر دیا ۔ اسی دوران دوست محمد خاں کا فرزند ، اکبر خاں اپنی جمعیت کے ساتھ حملہ آور افغان قبائل کے ساتھ آ ملا ۔ اس نے انگر یزوں سے کہا کہ شاہ شجاع کود ست بردار کریں۔ انگریز سپاہ ہمارا ملک خالی کریں۔ اس وقت سیاسی اقتدار انگریز سفیر میک ناٹن کے ہاتھ میں تھا۔ اکبر خان نے اسے طلب کیا تواُس نے اکبر خان سے بدتہذیبی سے بات کی۔ اس پر اُسے فوراً گولی سے اُڑا دیا گیا۔ انگریز فوج کی تمام توپیں اور گولہ بارود اکبر خان نے قبضے میں لے لیں۔ باقائدہ فوج پانچ ہزار تھی۔ گیارا ہزار لشکری تھے۔ جو 1842 ء کو پشاور کی طرف روانہ ہوئے۔ ان فوجیوں کو کابل کے تنگ درے میں غلزئی قبائل نے گھیر لیا اور ختم کر دیا۔ کیوں کہ اس قبیلے پر انگریزوں نے بہت ظلم کیا تھا۔ مشہور ہے کہ پورے لشکر میں سے صرف ایک فرنگی ڈاکڑ کو چھوڑا گیا ،کہ واپس جا کر انگریزوں کوحالات بتائے۔ اس کے بعد 1893 ء میں افغانستا ن سے برطانیہ نے بین الاقوامی سرحد کا معاہدہ کیا جو سر مورٹیمرڈیورنڈ اور امیر عبدلرحمان کے درمیان ہوا۔ جواس کے نام ڈیورنڈ لین سے مشہور ہوا۔ مختلف وقتوں میں اس معاہدے کی تجدید ہوتی رہی۔ آخر میں 1930 ء میں بادشاہ نادر شاہ سے ہوئی ۔جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک تاریخی اور متفقہ بین الالقوامی سرحد ہے۔اسی ڈیورنڈ لین کا قصہ افغانستان کی حکومت نے پاکستان بننے کے بعد سرحدی گاندھی مرحوم غفار خان کی آشیراباد سے پاکستانی حکومت کے ساتھ چھیڑے رکھا۔۔۔ اسی ڈیورنڈ لین کے اِس پار فاٹا کا علاقہ ہے۔جو ہمارا آج کا موضوع ہے۔ اور اُس پار یعنی دوسری طرف افغانستان کا علاقہ ہے ۔ دونوں طرف پٹھان آباد ہیں۔ان ہی علاقوں کے غریب فاقہ مست قبائل اور افغانستان نے دنیا کی تین بڑی طاقتوں،برطانیہ جس کی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔سویٹ یونین جسے دنیا سفید ریچھ کہتی تھی ۔جو جس ملک میں گھستا واپس نہیں جاتا تھااور اب نیو ورلڈ آڈر والے امریکا کو شکست سے دوچار کیا ہوا ہے۔ شاعر اسلام علامہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے:۔ 
فطرت کے مقاصد کی کرتاے نگہبانی
یا بندہِ صحرائی یا مرد کوہستانی۔ 
اصل میں اس علاقے کوانگریزوں نے برٹش انڈیا کی حفاظت کے پیش نظر افغانستان اور برٹش انڈیا کے درمیان بفر زون بنایا تھا۔ کیو نکہ کہ سویٹ یونین مسلمان ریاستوں پر قبضہ 
کرتے کرتے آگے بڑھتا ہوا ،افغانستان کے دریائے آمو تک پہنچ چکا تھا۔ سویٹ یونین اپنے لیڈر بانی ایڈورڈ کے قول پر عمل کرتے ہوئے افغانستان اور پاکستان کے راستے خلیج 
تک جانا چاہتا تھا۔ اسی لیے اُس نے افغانستان پر قبضہ کیا تھا۔سویٹ یونین قوم کے بانی ایڈورڈنے کہا تھا کہ دنیا پر وہ قوم غلبہ پائے گی جس کاخلیج پر کنٹرول ہوگا۔ در اصل انگریزوں نے فاٹا کے جنگو قبائل کو کنٹرول کرنے کے لیے۱۹۰۱ء میں ایف سی آر قانون بنایا تھا جسے عرف عام میں دنیا کا کالا قانون کہتی ہیں۔ جب پاکستان بنا تو فاٹا کے لوگوں کو امید بنی تھی کہ ان کو بھی پاکستان کے آئین کے مطا بق شہری حقوق ملیں گے۔ قائد ؒ نے بھی کہا تھا کہ قبائلیوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے گا۔مگر انگریز کا بنایا ہوا کالا قانون اب تک لاگو ہے۔فاٹا کو پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔خان اور ملک فاٹا کے عوام پر مظالم کرتے ہیں۔فاٹا میں رسم رواج کے تحت جرگہ کے تحت فیصلے ہوتے ہیں مگر اس میں بھی انصاف ملنا مشکل ہے۔چھوٹی سے غلطی سے لوگوں کے گھر جلا دیے جاتے ہیں۔ ایف سی آر کی وجہ سے فاٹا کے عوام کے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوتے رہے ہیں۔ فاٹا میں نہ کوئی یونیورسٹی ہے۔ نہ کوئی کالج ہے۔نہ پاکستان کے دوسرے لوگوں کی طرح برابر کے حقوق ہیں۔ نہ پختہ سڑکیں ہیں۔۱۹۷۳ء کے آئین میں بھی فاٹا کے لیے کوئی بھی قانون نہیں بنایا گیا۔البتہ ۲۰۰۸ء میں پیپلز پارٹی کے دور میں اُس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اسمبلی میں وعدہ کیا تھا کہ ایف سی آر کالا قانون ختم کر دیا جائے گا۔ پھر سابق صدر زردار ی نے ۱۴ ؍اگست ۲۰۰۹ء کو سفارشات کے لیے کمیٹی بنائی تھی۔پیپلز پارٹی نے فاٹا کے عوام کو ووٹ کا حق دیا۔اس سے قبل ملک سسٹم کے تحت انتخابات ہوتے تھے۔ فاٹا کے ملک اور خان حضرات لاکھوں عوام کے نمائندے خود منتخب کرتے تھے۔ اب جب فاٹا کو خیبرپختونخواہ میں ضم کرنے، پاکستان کے آئین کے مطابق حقوق دینے ا ور ایف سی آر کالے قانون کو ختم کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں تو ان ملکوں نے مخالفت کی ہے۔ ووٹ کاحق دینے کا یہ طریقہ کامیاب رہا۔ فاٹا کے نمائندے عوام کے ووٹ سے منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں آتے ہیں۔فاٹا کے عوام کا مطالبہ ہے کہ فاٹا کو خبیرپختونخواہ میں شامل کیا جائے۔ فاٹا کے منتخب نمائندے کہتے ہیں ہم سے سو بار پوچھا گیا ہم نے سو بار بتایا کہ ہم خیبرپختوخواہ میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ فاٹا کے منتخب ممبروں نے پارلیمنٹ کے سامنے اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کیا دھرنا بھی دیا تھا۔ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں، جس میں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی،جماعت اسلامی،(ق) مسلم لیگ،اسفنڈ یار ولی خان کی پارٹی، شیر پاؤ کی پارٹی اور خود (ن)لیگ نے بھی فاٹا کو خیبرپختونخواہ میں شامل کرنے کا کہا ہے۔بلکہ نواز شریف نے فاٹا اصلاحات کے لیے اپنے مشیر سرتاج عزیز کی سربرائی میں کمیٹی بنائی تھی۔ جس نے ڈیڑھ سال محنت کر کے فاٹا اصلاحات تیار کیں۔ اس کمیٹی نے فاٹا کے عوام،جرگا،وکلاء، طلبہ،تاجروں،سیاستدانوں یعنی فاٹا کے تمام حلقوں مشورے کیے، تمام حلقوں نے ایف سی آر کا خاتمہ اور فاٹا کی خیبر پختونخواہ میں شمولیت شامل ہے۔ وفاقی وزیر،عبدالقادر بلوچ نے اعلان کیا تھاکہ ۱۸؍ دسمبر کو فاٹا اصلاحات بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جائیے گا۔ پھرپارلیمنٹ کے گزشتہ جاری رہنے والی لسٹ میں فاٹا اصلاحات کا بل شامل بھی کیا گیا تھا۔پارلیمنٹ کے ممبران میں یہ کاز لسٹ تقسیم بھی کی گئی۔ جس میں بحث کے بعد اسے قانون کے مطابق پاس ہونا تھا۔اسی دوران ن لیگ حکومت کے اتحادی ،جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان صاحب نے نواز شریف کو فون کیا اور بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ جس پر حکومت نے یہ کہہ کر کہ مذید مشاورت درکار ہے، بل کو کاز لسٹ سے نکال دیا گیا۔اس پر اپوزیش کے ممبران پارلیمنٹ نے بھر پور احتجاج کیا۔ کاز لسٹ کی کاپیاں پھاڑ ڈالیں۔ اس سے قبل جماعت اسلامی کے امیر، سینیٹر سراج الحق نے ۱۰؍ دسمبر تا ۱۲ دسمبرفاٹا انضمام لانگ مارچ کیا۔ فاٹاخیبر سے چلا ہوا، یہ فاٹا انضمام لانگ مارچ اسلام آباد پہنچا، تو ایک جلسے کی صورت اختیار کر گیا۔ پارلیمنٹ کے سامنے اسلام آباد میں لانگ مارچ کے اس جلسے میں خطاب کرتے ہوئے سراج الحق نے حکومت کو ۳۱؍ دسمبر تک وقت دیا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ سے بل پاس کروا کر فاٹا کو خبیر پختونخواہ میں شامل کرے۔ ورنہ پورے پاکستان سے لوگوں کو اسلام آباد جمع کیا جائے گا اور حکومت اس احتجاج کے سامنے ٹہر نہیں سکے گی۔اس موقعہ پر پارلیمنٹ میں لیڈر آف حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ صاحب نے بھی اپنے خطاب میں بل کو کاز لسٹ سے نکالنے پر سخت احتجاج کیا اور جب تک بل دوبارہ پیش نہیں کیا جاتا، پارلیمنٹ کے اجلاس سے واک آوٹ کر نے کا اعلان کیا۔ نجی ٹی کے مشہور اینکر پرسن، فاٹا کے رہائشی اور سینئر صحافی، سیلم صافی صاحب نے بھی حکومت کو خبردار کیا اور کہا کہ فاٹا کے عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے اسے خیبرپختونخواہ میں شامل کرے۔ اس جلسے میں جماعت اسلامی خیبرپختونخواہ کے امیر ،فاٹا کے امیر اورولپنڈی اسلام آبادمیں فاٹا سے متعلق تاجر تنظیموں کے نمائندوں نے بھی اپنے خطاب میں فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں شامل ہونے کا مطالبہ کیا۔ پارلیمنٹ میں اپوزیش کے شور کے بعد اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ مجھے حکومت اور اپوزیش کو فاٹا انضمام پر ایک میز پر لانا پڑے گا جبکہ پارلیمنٹ کے جاری اجلاس میں فاٹا اصلاحات بل کو اپوزیشن کی کو ششوں کے باوجود حکومت نے منظوری کے لیے پیش نہیں کیا۔ وزیر اعظم کی سربرائی میں، فضل الرحمان اور آرمی چیف نے فاٹاصلاحات کا حل ڈھونڈنے کے لیے ملاقات کی۔ فضل الرحمان نے مشروط طور پر بل کی
حمایت پر آمادگی ظاہر کی۔ دوسری طرف ایک صحافی کے تجزیہ کے مطابق، فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کہتے ہیں کہ فاٹا کو علیحدہ صوبہ بنایا جائے۔ کبھی کہتے ہیں کہ جرگے کے ذریعے فاٹا کے عوام کی رائے معلوم کی جائے۔جبکہ سرتاج عزیز صاحب کی کمیٹی نے پورے فاٹا سے رائے لے کر فاٹا اصلاحات بل پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا۔تجزیہ کے مطابق فاٹا 
میں محمود خان اچکزئی کی کوئی بھی حمایت نہیں ۔ فاٹا کے کسی ایک گھر پر اس کی پارٹی پشونخواہ ملی پارٹی کا جھنڈا نہیں لگایا جاتا۔ نہ یہ صاحب فاٹا کی کسی خمی خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔ تو 
پھر فاٹا کے وکیل کیسے بنے پھرتے ہیں۔ یہ صاحب تو کہتے ہیں کہ فاٹا سے دریائے سندھ تک کے علاقے کو افغانستان میں شامل ہونا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں فاٹا سے معلوم کرو کہ وہ کس ملک کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں؟ فضل الرحمان کے اپنے مفادات ہیں وہ کچھ لو کچھ دو کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے مان چائیں گے۔ اس دوران فاٹا سے (ن) لیگ کے ممبر قومی اسمبلی شہاب الدین خان صاحب نے اعلان کیا کی جمعہ تک بل پیش نہ کیا گیا تو میں پارلیمٹ کی ممبر شپ سے استعفیٰ دے دوں گا۔حکومت فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کو فاٹا اصلاحات پر راضی نہ کر سکی۔ اپوزیشن کا مسلسل نویں روز بھی احتجاج اور واک آوٹ کیا۔ حکومت نے بلاآخر قومی اسمبلی کے اجلاس کو غیر معینہ مدتک ملتوی کر دیا۔( ن) لیگ حکومت نے اپنے اتحادیوں کو خوش کرنے کے لیے، اپنی ہی بنائی ہوئی ،سرتاج عزیز فاٹا اصلاحات کمیٹی کے بل کو اپوزیش کے سخت احتجاج اور واک آوٹ کے باجود اسمبلی میں پیش نہیں کیا ۔ کہا جا رہا ہے کہ اتفاق رائے پیدا کر کے اس بل کو آئندہ آنے والے اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیا جائے۔ وزیر اعظم نے جمرود میں فاٹا یوتھ فیسٹیول کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایف سی آر ظالمانہ قانون ہے۔فاٹا کو بہت جلد قومی دھارے میں شامل کیا جائے گا۔ قبائلیوں کے ساتھ کئے گئے وعدوں کی تکمیل ضروری ہے۔فاٹا کی ہر ایجنسی میں یونیورسٹی قائم کی جائے گی۔ 
صاحبو! پاکستان کے قبائل پاکستان کے دوست تھے اور دوست ہیں۔ گریٹ گیم کے تحت دشمنوں نے اور کچھ خود ہماری حکمرانوں کی بے بسیرتیوں نے انہیں پاکستان کا دشمن بنا دیا ہے۔ گریٹ گیم کے تحت ،پہلے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت اور امریکا نے مہاجروں میں ایک غدرار وطن الطاف حسین کو استعمال کیا۔ جس نے پاکستان کے معاشی حب کراچی ،جو پاکستان کوستر(۷۰) فی صد ریوینو کما کر دیتا ہے، کو تیس(۳۰) سال تک ڈسٹرب رکھاہے۔ جب پاکستان کی معاشی خراب ہو گئی۔ تو کیری لوگر بل کے تحت امداد کرکے پاکستانی فوج کو پاکستان کے قبائل کے خلاف آپریش پر مجبور کیا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دشمن کبھی بھی ایٹمی اور اسلامی پاکستان کو ہر گز برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔امریکا نے ڈالروں کی بارش کر کے پاکستان کے میڈیا کے کچھ لوگوں کو خریدا۔ عالمی اور پاکستان زرخرید میڈیا کو استعمال کر کے پاکستان کرودنیا بھر میں دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اسلام کو انتہا پسند مذہب کے طور پر مشہور کیا۔اب فوج نے پاکستانی عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے امریکا سے جان چھڑانے کی پالیسی اختیار کی ہے۔ جس پرسول حکومت نے بھی عمل کرنا شروع کیا ہے۔۔۔فاٹا کی موجودہ پوزیشن انگریز نے اپنے مفادات کے لیے بنائی تھی۔ اسے ہر حالت میں ختم ہونا چاہیے۔ فاٹا کو صوبہ پختونخواہ میں ضم کر کے پاکستان کے آئین کے مطابق حقوق دینا پاکستان کے لیے ضروری ہیں ۔پاکستان کے دشمن امریکا بھارت اور افغانستان نے سرحدوں پر جنگ چھیڑی ہوئی ہے۔ بھارت اور امریکا نے فاٹا میں اپنے حمایتوں کو دہشت گردی کی ٹرینیگ دے کر پاکستان کے خلاف استعمال کیا تھا۔پاک فوج نے آپریش کر کے اس علاقے کو دہشت گردوں سے صاف کیا ہے۔ آپریشن کے دوران فاٹا کے لوگ دربدر ہوئے۔ اس وقت ان کو ریلیف ملنا چاہیے ۔ اس سے ان کی پاکستان کے ساتھ وفاداری بڑے گی۔ فاٹا کے قبائل پاکستان کی دست بازو تھے اور ہیں۔پاکستان کی مسلح افواج اور ساری سیاسی پارٹیاں فاٹا کو خیبرپختونخواہ میں شامل کرنے پر ایک پیج پر ہیں۔صرف افغانستان کی قوم پرست حکومت کے حامی قوم پرست محمود خان اچکزئی اس کے خلاف ہیں۔ مولانا فضل الرحمان بھی کچھ لے دے کر حسب عادت جلد مان جائیں گے۔فاٹاکو پاکستان کے برابر کے حقوق دینے سے پاکستان مستحکم ہو گا۔یہ ہے فاٹا کی تاریخ کے آئینے میں کی کہانی۔ اللہ مثل مدینہ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کو مستحکم کرے اور اس کی حفاظت کرے آمین۔ 

Short URL: http://tinyurl.com/y5yb76pq
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *