غصہ بھی اللہ کے لئے ۔۔۔۔ تحریر: مولانا احمد مدنی، فیصل آباد

Molana Ahmad Madni
Print Friendly, PDF & Email

ترمذی شریف کی ایک حدیث میں نبی اکرمؐنے فرمایا’’وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ‘‘بغض اور غصہ بھی اللہ کے لئے ہو،یعنی جس کسی پرغصّہ ہے یاجس کسی سے بغض ہے وہ اس کی ذات سے نہیں بلکہ اس کے کسی بُرے فعل سے ہے یا اس کی کسی ایسی بات سے ہے جو رب العالمین کی ناراضگی کا سبب ہے تو یہ غصّہ اور ناراضگی اللہ تعالٰی کے لئے ہے،اسی حدیث کی روشنی میں یہ کہاجاتاہے کہ نفرت گناہگارسے نہیں بلکہ گناہ سے ہے، نفرت کافرسے نہیں بلکہ کفرسے ہے اورنفرت فاسق سے نہیں بلکہ فسق سے ہے،لہذانفرت فسق و فجورسے ہو گی نہ کہ ذات سے اگر وہ ذات فسق و فجور سے باز آجائے تو وہ گلے لگانے کے قابل ہے،نبی اکرم ؐکاعمل،وہ ذات جس نے آپ کے محبوب چچاحضرت حمزہؓ کاکلیجہ نکال کرکچاچبایا تھایعنی حضرت ہندہؓ نے اورجواس کے سبب بنے تھے حضرت وحشیؓ جب یہ دونوں اسلام کے دائرے میں داخل ہو گئے اوراسلا م قبول کرلیا تو وہ آپ ؐکے اسلامی بہن اور بھائی بن گئے تھے آج ان کے ناموں کے ساتھ رضی اللہ لکھاجاتا ہے ،بات دراصل یہ تھی کہ ان کی ذات سے نفرت نہیں تھی بلکہ ان کے فعل سے نفرت تھی اور ان پر غصہ صرف اللہ کے لئے تھا
،حضرت علیؓ کا عمل،ایک یہودی نے حضرت علی کے سامنے حضور اقدس ؐکی شان میں گستاخی کا کلمہ کہہ دیا،العیاذباللہ،حضرت علیؓنے اس کو فوراًپکڑااورزمین پر پٹخ دیااور اس کے سینہ پر چڑھ گئے اس یہودی نے جب دیکھا کہ میر ا قابو تو ان کے اوپرچل نہیں رہا تواس نے لیٹے لیٹے حضرت علیؓ کے منہ پر تھوک دیااس پر حضرت علیؓ نے اس کو چھوڑ دیااورالگ ہوگئے لوگوں نے کہاکہ حضرت اس نے تو اور گستاخی کا کا م کیا کہ آپ کے منہ پر تھوک دیااورآپ اس کو چھوڑ کر الگ ہوگئے،حضرت علیؓنے فرمایا کہ بات اصل میںیہ ہے کہ پہلے جو میں نے اس پر حملہ کہ تھاوہ حضور اقدس ؐکی محبت میں کیا تھاآپؐ کی گستاخی کرنے پر مجھے غصہ آیا اور اب جب اس نے میرے منہ پر تھوکا تو مجھے اورزیادہ غصہ آگیااب اگرمیں اپنے غصے پر عمل کرتے ہوئے اس سے بدلہ لیتاتویہ بدلہ لینا اللہ اور اللہ کے رسول کے لئے نہ ہوتابلکہ اپنی ذات کے لئے ہوتا،دیکھئے حضر ت علی کا غصہ بھی اللہ کے لئے ہے،
حضرت عمرفاروقؓکا عمل،حضرت عمرؓایک دفعہ مسجد نبوی میں داخل ہوئے تودیکھاکہ حضوراقدسؐکے چچاحضرت عباسؓ کاپرنالہ مسجد نبوی کی طرف لگاہوا ہے ،بارش وغیرہ کا پانی مسجد نبوی کے اندر گرتاتھاحضرت عمرؓنے سوچاکہ مسجد تو اللہ کا گھر ہے اور کسی کے ذاتی گھر کا پرنالہ مسجد کے اندر ت خلاف شریعت ہے چنانچہ پرنالہ توڑدیا گیا،حضرت عباسؓ کو پتاچلاکہ میرے گھر کا پرنالہ توڑدیا گیاتو وہ آئے اور حضرت فاروق اعظمؓ سے پوچھا انہوں نے فرمایا کہ مسجد اللہ کا گھرہے کسی کاذاتی پرنالہ شریعت کے حکم کے خلاف تھا اس لئے توڑدیا گیااسپر حضر ت عباسؓ نے فرمایا یہ پرنالہ حضور اکرم ؐکے زمانہ میں آپ کی اجازت سے لگایاگیا تھا،حضرت فاروق اعظمؓ نے جب یہ سناتوحضرت عباسؓ کو پرنالہ کی جگہ پر لیجاکر خود رکوع حالت میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ اب میری کمر پر کھڑے ہوکریہ پرنالہ دوبارہ لگاؤاور فرمایاکہ عمرؓکی یہ مجال کہ وہ حضور اکرم ؐکے لگائے ہوئے پرنالے کوتوڑے چنانچہ حضرت عباس نےؓ ان کی کمرپرکھڑے ہو کر وہ پرنالہ اسی جگہ پرواپس لگایا،الحاصل حضرت عمرؓ کا پہلے غصہ صرف اللہ کے لئے تھا،خواجہ نظام الدین اولیاء کا واقعہ ،خواجہ نظام الدین اولیاء کے زمانے میں ایک بہت بڑے عالم تھے مفتی حکیم ضیاء الدین صاحب وہ سماع (یعنی ترنم سے کلام کو پڑھنابغیرآلات موسیقی کے)کوبدعت قرار دیتے تھے اور خواجہ نظام الدین اولیاء سماع کو جائزقرار دیتے تھے اور سنتے بھی تھے جب حضرت حکیم ضیاء الدین کی وفات کا وقت قریب آیا توخواجہ نظام الدین اولیاء مزاج پرسی کے لئے تشریف لے گئے اور اندر پیغام بجھوایا کہ نظام الدین مزاج پرسی کے لئے حاضر ہوا ہے حکیم صاحب نے اندر سے جواب بجھوایا کہ ان کو باہر ہی روک دیں میں کسی بدعتی کی صورت دیکھنا نہیں چاہتا ،خواجہ نظام الدین اولیاء نے کہاکہ ان سے کہیں کہ بدعتی توبہ کے لئے حاضرہوا ہے اسپر حکیم صاحب جو صورت نہیں دیکھنا چاہتے تھے انہوں نے اپنی پگڑی اندر سے بجھوائی اور کہا کہ ان سے کہیں کہ جوتوں کے سمیت اس پر چل کر آئیں خواجہ صاحب نے پگڑی اٹھا کر سر پر رکھ لی اور اندر تشریف لے گئے،اس واقعہ سے یہی سمجھ آرہا ہے کہ انکا غصہ بھی صرف اللہ کے لئے تھا،لہذا ہمیں بھی اپنے غصہ کو لگام ڈال کررکھنی چاہیے جہاں اللہ کے لئے غصہ کرنا ہوکریں ورنہ اپنے غصہ کو لگام ڈال کر رکھیں۔

Short URL: http://tinyurl.com/jyxqu63
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *