عورت اور اسلام

Rimsha Tubasam Toqeer
Print Friendly, PDF & Email

تحریر:رمشا تبسم توقیر، لاہور
دینِ اسلام عورت کو جو تحفظ اور حقوق دیتا ہے وہ اس گلوبل ویلیج کہلانے والی دنیا میں کوئی اور مذہب،قانون یا سوسائٹی نہیں دیتی۔اسلام نے عورتوں کے حقوق کی حق تلفی کو روکا،ان کے ساتھ نا انصافی کو روکنے کے لئے واضح قوانین پیش کئے،عورت کو منحوس، ذلیل،فساد اور شرکی علامت سمجھنے والوں پر واضح کیاکہ عورت ایک رحمت ہے نا کہ زحمت۔نغمہ پروین، ریسرچ اسکالر(شعبہ دینیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) علی گڑھ) بیان کرتی ہیں کہ ’’اسلام نے عورت پر سب سے پہلا احسان یہ کیا کہ عورت کی شخصیت کے بارے میں مرد وعورت دونوں کی سوچ اور ذہنیت کو بدلا انسان کے دل ودماغ میں عورت کا جو مقام ومرتبہ اور وقار ہے اس کو متعین کیا‘‘ اس کی سماجی، تمدنی، اور معاشی حقوق کا فرض ادا کیا۔ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے(القرآن۔النساء: ۱ ) خلقکم من نفسٍ واحدٍ وخَلَقَ منہا زوجَہا(ترجمہ) ’’اللہ نے تمہیں ایک انسان (حضرت آدم) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو بنایا‘‘۔اس بنا پر انسان ہونے میں مرد وعورت سب برابر ہیں۔ یہاں پر مرد کے لیے اس کی مردانگی قابلِ فخر نہیں ہے اور نہ عورت کے لیے اس کی نسوانیت باعثِ عار۔ یہاں مرد اور عورت دونوں انسان پر منحصر ہیں اور انسان کی حیثیت سے اپنی خلقت اور صفات کے لحاظ سے فطرت کا عظیم شاہکار ہے۔ جو اپنی خوبیوں اور خصوصیات کے اعتبار سے ساری کائنات کی محترم بزرگ ترین ہستی ہے۔ مگر آج کی عورت کو معاشرے کا مظلوم ترین طبقہ سمجھا جاتا ہے جوو ظلم و ستم اور حق تلفی کا شکار ہے۔یہاں قابل غور اور قابل فکر بات یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟اس میں مرد ذمہ دار ہے یا عورت؟ اس زوال کی وجہ عورت اور مرد کے نزدیک کیا ہے؟ مرد کیا کردار ادا کر سکتے ہیں ؟عورتوں کو زوال سے نکالنے کے لئے؟کیا یہ زوال اسلامی تعلیمات سے دوری اور مغربی تہذیب سے الفت ہے؟اسی معاملے کو سمجھنے کے لئے ہم نے اپنے معاشرے کے کچھ مرد اور خواتین سے سروے کیا اور کچھ سوالات کے جوابات حاصل کئے جنکو ہم بیان کرنے جا رہے ہیں۔خواتین سے سوالات کچھ اسطرح تھے۔ بحثیتِ عورت آپ معاشرے میں کیسا محسوس کرتی ہیں؟آپ کی نظر میں کیا عورتیں اپنے زوال کی خود ذمہ دار ہیں؟کیا آج کی عورت اسلام کی وہ تعلیمات جو اسے معاشرہ میں باعزت باوقار بنا سکتے ہیں مکمل طور پر اپناتی ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟
ہماری خواتین کے جوابات کچھ یہ تھے۔عالیہ محمود (لاہور) سے جواب دیتی ہیں کہ معاشرہ میں عورت کا مقام وہ نہیں جو اسلام نے اسے دیا۔لوگوں کی تنگ نظر غلط نظریے عورت کا کردار مشکوک کرتے ہیں جسکی وجہ سے معاشرہ میں گھٹن محسوس ہوتی ہے۔عالیہ کے مطابق 70تا 80 فیصدعورتیں اپنے زوال کی وجہ خود ہیں کیونکہ وہ اسلام کے عطا کردہ حقوق و فرائض اور احکامات سے غافل ہیں۔اور جب وہ ہیں ہی غافل تو وہ اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا بھی کیسے ہو سکتیں ہیں۔صبا ایمان (لاہور) سے کہتی ہیں کہ معاشرے میں عورت کو عزت اور وقار سب حاصل ہے مگر عورت کو خود اپنی عزت کا احساس ہوناچاہئے۔صبا کے مطابق عورت اپنے زوال کی وجہ خود ہے کیونکہ وہ اسلام کی تعلیمات کو اپنانے کا دکھاوا کرتی ہیں اور حقیقت میں مغرب کی تہذیب کوزیادہ اہمیت دیتی ہیں۔۔ماریہ عباسی (اسلام آباد) سے بیان کرتی ہیں کہ عورت کے زوال کی وجہ عورت اور مرد دونوں ہیں۔مردوں کی بلا وجہ سختی اور اسلامی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے عورتیں اسلام کہ اصولوں کو نہیں اپناتی۔اور اگر عورتیں اپنانا چاہے تو مرد اپنانے نہیں دیتی۔ماریہ کہ مطابق اگر عورت سچے دل سے حجاب اور پردہ بھی کر لے تو مرد اور معاشرہ اسکو بھی سوالیہ نشان بنا دیتا ہے۔
. صوفیہ بانو رفیق (لاہور) سے کہتی ہیں کہ جیسے عورت چار لفظوں پر مشتمل لفظ ہے اسی طرح زندگی کی چار پہیوں والی گاڑی بھی عورت کے بنا چلانا دشوار ہے، یعنی بحیثیت اک عورت میں سمجھتی ہوں عورت معاشرے کا اک اہم حصہ ہے، اک خوشی ہے، دل کا سکون ہے جس کو مرد کی پسلی کے پاس سے پیدا کیا گیالیکن کبھی کچھ حالات عورت کو بے بس کر دیتے ہیں اور زوال کہ وجہ بن جاتے ہیں اور کچھ حالات عروج پر لے جاتے ہیں۔صوفیہ کے مطابق عورت اپنے زوال کی خود ذمہ دار ہے کیونکہ جو عورت اسلام کو چھوڑ کر مغرب کو اپنا لیتی ہے تو سمجھو اسکا زوال شروع جو اک ڈھیل کی شکل میں ہوتا ہے جو اک دن کھینچ لی جائے گی۔انثی نفیس(لاہور) سے کہتی ہیں کے معاشرے میں در حقیقت عورت کا کوئی مقام نہیں۔مگر اسلام نے بہت رتبہ اور عزت دی ہے جسکو عورت نے خود گنوا دیا ہے عورت خود اپنی تباہی کی ذمہ دار ہے۔انثی کے مطابق دکھاوا اپنانے کی جدو جہد میں اسلامی تعلیمات کو فراموش کردیا گیا ہے۔اسلام کے قوانین قید نہیں ہیں۔مگر کچھ حدود ہیں اور عورت اپنی دشمن خود ہی ہے۔
۔حلیمہ رضوان (لاہور) سے کہتی ہیں کہ بحثیتِ عورت وہ معاشرہ میں بہت اچھا محسوس کرتیں ہیں اور کسی حد تک عورت اپنے زوال کی وجہ خودہے کیونکہ وہ اسلامی تعلیمات سے دور ہے اور دوری کی سب سے بڑی وجہ میڈیا اور مغربی تہذیب کی پرکشش آزادی ہے۔ثنا شہباز (لاہور) سے کہتی ہیں کے وہ معاشرے میں غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔80 فیصد عورتیں اپنے زوال کی وجہ خود ہیں۔ثنا مزید کہتی ہیں کہ عورتیں اسلامی تعلیمات سے دور ہیں دنیا انکی اولین ترجیح ہے اور دنیا کی پرکشش رنگینیوں کے پیچھے بھاگتی ہوئی خواتین دین سے بہت دور جا رہی ہیں۔باسمہ یعقوب(لاہور)سے کہتی ہیں کہ وہ گھر میں محفوظ محسوس کرتی ہیں اور باہر اتنا تحفظ نہیں ملتا۔باسمہ کے مطابق کچھ عورتیں زوال کی وجہ خود ہیں اور کچھ کو معاشرہ زوال پذیر بنا دیتا ہے۔عورتیں اسلامی تعلیمات سے دور ہیں کیونکہ وہ سماجی اور معاشرتی طور پرزیادہ پرکشش اور با اعتماد نظر آنا چاہتی ہیں۔۔سحر عثمان (لاہور) سے کہتی ہیں کے ایک مسلم عورت ہونے کی حیثیت سے وہ خود کو محفوظ سمجھتی ہیں عورتوں کو ہی اپنے زوال کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کے خواتین خود کو لبرل سمجھ کراسلامی قوانین اور اصولوں پر عمل نہیں کرتیں اور اگر انہیں مجبور کیا جائے تو اسے تنگ نظری کہتی ہیں۔ 
مرد حضرات کے لئے سوال کچھ یوں تھے۔۔آپ ایک لفظ میں عورت کو کیسے بیان کریں گے ۔آج کے دور میں عورت کے زوال کی وجہ کیا ہے؟عورت کو اسکا کھویا ہوا مقا م لانے میں بحثیتِ مرد آپ کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟مرد حضرات کے جوابات کچھ یوں تھے
۔حسنین عتیق اعوان (لاہور) سے مختصراً بیان کرتے ہیں کہ عورت کو سوچ کر پہلا لفظ ماں ذہن میں آتا ہے حسنین کے مطابق عورتوں کو حضرت بی بی فاطمہ ذہراؓ کا کردار اپنانا چاہے۔ جنکی چادر تک نا غیر محرم دیکھ سکتے تھے۔واجد علی (سیالکوٹ) سے کہتے ہیں کہ ایک لفظ میں عورت کومحبت ہی سے بیان کیا جا سکتا ہے ماں بہن بیوی یا عورت کا کوئی بھی روپ محبت ہے عورت کے زوال کی وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری اور غلط مرد بھی عورت کے زوال کی وجہ ہیں عورت کو اسکا کھویا ہوا مقام حاصل کروانے میں بحثیتِ مرد ہمیں عورتوں کی عزت کرنا ہوگی۔۔ذیشان اسلم (اسلام آباد) نٹ کھٹ جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ عورت کو بیان کرنا آسان نہیں عورت ماں ہے تو جنت اسکے قدموں میں اور اگر بیوی ہے تو شوہر اسکے قدموں میں،مذاق کے علاوہ ذیشان نے کہا کے عورت پیار کا دوسرا نام ہے۔معاشرتی بے حیائی عورت کے زوال کی وجہ ہیں۔ذیشان کے مطابق مختلف طریقے سے لوگوں میں عورتوں کی عزت کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔سرفراز خان (لاہور) سے کہتے ہیں کہ عورت کو ایک لفظ میں بیان کریں گے تو وہ ”Mentor” ہے۔سرفراز کے مطابق عورت کے زوال کی وجہ ”Feminism” ہے۔ عورتوں کو مرد کے برابر کرنے کے اس نظریے نے عورت کوآزاد خیال کردیا ہے۔اور اگر مرد عورت کو عزت دے تو عورت کے لئے زندگی گزارنا آسان اور محفوظ ہو جائے گا۔ فیاض خان (لاہور)سے کہتے ہیں کہ عورت کے زوال کی وجہ اسلام اور دین سے دوری اور مرد کو مجازی خدا نہ سمجھنا ہے۔دین سب سے پہلی شرط ہے دین نہیں تو کچھ نہیں۔دوسرا سوسائٹی نے اچھے برے کی تمیز کو ختم کر کے پیسے کو اہمیت دے دی جس کی وجہ سے عورت سوسائٹی میں پیچھے رہ گئے۔
۔سمیر قریشی (کراچی) سے کہتے ہیں۔ عورت ایک نعمت ہے۔عورت کے زوال کی وجہ آزادی کو سمجھتے ہوئے کہتے ہیں حقوق نسواں کے ذریعے عورتوں کو بے جا آزادی دی گئی ہے۔ اور مرد کبھی کسی عورت کو کھویا مقام نہیں دلا سکتا حبکہ عورت خود اپنا مقام کھو رہی ہوں۔ سمیر کے مطابق یہاں عورت کو حق کی بات بھی کہہ دی جا ئے تو اسے پابندی سمجھتے ہوئے خود کو مظلوم ظاہر کرنے لگ جاتی ہیں۔۔رضوان خان (لاہور) سے کہتے ہیں کہ ہر عورت اپنے کام اور کردار کی وجہ سے مختلف ہے۔ماں ہے تو راہنما ہے بیوی ہے تو محبت کرنے حیا ء کا پیکرخیال رکھنے والی عظیم ہستی اور بیٹی ہے تو الگ رحمت کا احساس ہے۔رضوان کے مطابق عورت کے زوال کی وجہ عورتوں کی مردوں سے برابری ہے اور عورت کی کامیابی کے پیچھے مرد باپ بھائی شوہر اور بیٹے کی صورت میں موجود رہتا ہے۔ان مختصر سوالات جوابات سے جو بات واضح ہوتی ہے۔وہ یہی ہے کہ آج کے دور میں اسلامی تعلیمات سے دوری اور مغربی تہذیب کی کشش ہمارے معاشرے کی تباہی ہے۔اور اسکا زیادہ اثر ہماری خواتین پر ہو رہا ہے۔ خوبصورت لگنے کی خواہش میں بے ہودہ لباس زیب تن کرنا،چاہے جانے کی حوس میں غیر محرم سے میل جول،مردوں کے برابرکھڑے ہونے کی جدوجہد میں اسلام کی حدود سے باہر نکل جانا۔مغربی تہذیب اپنا کر نقصان اٹھانا اور بعد میں معاشرے کے لوگوں کو الزام دینا ہی عورت کے زوال کی وجہ ہے۔
کہیں نہ کہیں یہ سوچ بھی موجود ہے کہ اسلام میں بہت سی پابندیاں ہیں،مگر پابندی اور حدود میں فرق ہوتا ہے،پابندی بے وجہ ہو سکتی ہیں مگر حدود بے وجہ نہیں ہوتیں اور جب بات اسلامی حدود کی آ جائے تو اس میں بے وجہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔میں یہاں ہمارے مرد و خواتین کو مخاطب کر کے کہنا چاہتی ہوں کہ مغربی تہذیب کی کشش اور مغربی کلچر جہاں مرد و عورت کو سماجی و معاشی کامیابی سے جانچا جاتا ہے کو پسند کرنے اور اپنانے کی جدو جہد نہ کریں۔ایک طرف مغرب ہے جہاں بیٹی جوان ہوتے آزاد چھوڑ دی جاتی ہے،وہ خود کمائے اپنا رہن سہن خود دیکھے بوائے فرینڈ دیکھے اور جیسی زندگی چاہئے گزار لے۔اور ایک طرف اسلام اور مسلم معاشرہ اور قوانین ہیں۔جہاں بیٹی کو رحمت کہا جاتا ہے۔جہاں اسکومعاشرہ میں آزاد نہیں چھوڑا جاتا۔جہاں بوائے فرینڈ جیسی شیطانی چیز سے اپنی عورتوں کو محفوظ کرنے کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں کچھ حدود لگائی جاتی ہیں۔ اسلام عورت کو کانٹوں سے بھری دلدل سے نکال کر پھولوں کی سیج پر لاتا ہے۔ اب کوئی خود کانٹوں میں رہنا چاہے یا خود ہی کانٹا بن جائے توکائنات کی کو ئی ہستی اسے زوال سے نہیں نکال سکتی۔ عورت رحمت ہی ہے،باپ،بھائی،شوہربیٹا تمام مرد اسکے محافظ ہیں۔انکی حفاظت کو قید سمجھنے والی یا ان کامقابلہ کرنے والی خواتین زوال پذیر ہوتی ہیں۔عورت کا نان ونفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمہ ہے۔ اگر بیٹی ہے تو باپ کے ذمہ۔ بہن ہے تو بھائی کے ذمہ، بیوی ہے تو شوہر پر اس کانان و نفقہ واجب کردیا گیا اور اگر ماں ہے تو اس کے اخراجات اس کے بیٹے کے ذمہ ہے، ارشاد باری تعالی ہے ’’ عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہ?(البقرہ: ۶۳۲)‘‘
خوشحال آدمی اپنی استطاعت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی توفیق کے مطابق معروف طریقے سے نفقہ دے۔ مجھے فخر ہے میں ایک مسلم عورت ہوں۔ مجھے فخر ہے میرے محافظ محرم مرد ہیں۔مجھے فخر ہے کے میں مغرب کی عورت کی طرح در بدر نہیں ہو۔مجھے فخر ہے کہ میں مغرب کی عورت کی طرح غیر محفوظ نہیں۔اور یہ فخر یہ عزت صرف دینِ اسلام کی وجہ سے ہے۔مجھے فخر ہے میں خاک انسان مگر مومن لڑکی ہوں۔ہمیں اسلام کی حدود میں رہ کر اپنا مقام بنانا چاہئے نہ کہ مردوں کے مقابلے میں خود کو کھڑا کردینا چاہئے۔
اب جس کے جی میں آئے وہی روشنی پائے
بقول قتیل شفائی ’’ہم نے تو دل جلا کے سرِ عام رکھ دیا‘‘

Short URL: http://tinyurl.com/y4w8kagn
QR Code:


One Response to عورت اور اسلام

  1. noor says:

    bhot achi post ha . or ak alag hi andaz ma post likhi gaiha .ak bahtren message b dia gya ha. …aurat ko apni izat khud bnani ha. is post ma islamic point of view k sath sath koc admioo or aurto ka point b shhamil ha . jo k parh k waqai khushi hoi ku k ak ak lafz hakeke ha. … acha mazmoon .

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *