عالمگیرمعاشرہ کی ترقی اور آئیڈیل نظام کی ضرورت(حصہ اول) ۔۔۔۔ تحریر: رانا ابرار

Rana Abrar
Print Friendly, PDF & Email

کسی بھی معاشرے میں تہذیب و تمدن کو سب سے اہم مقام حاصل ہے ۔تہذیب زندگی کا راستہ ہے۔معاشرے کے افراد کے ذریعے سے پھیلتی ہے ۔تہذیب اس چیز کی آئینہ کار ہے کہ ہم کس طرح سوچتے ہیں ،کیا محسوس کرتے ہیں اور کیا عمل کرتے ہیں۔(تہذیب )معاشرے میں لوگوں کا اکٹھا رہنا اور وقت کے ساتھ اپنی زندگی کے راستے کو بہتر سے بہتر بناناہے۔سوچ کا راستہ ہماری تہذیب ہے ، ہمارے مختلف عوامل زندگی ، اور وہ مادی اشیاء بھی شامل ہیں جو ہماری زندگی کے راستے کو سہل بناتی ہیں ہماری تہذیب کا حصہ ہیں۔کسی بھی تہذیب کا مطالعہ یا نظر ثانی کرتے ہوئے معاشرتی علوم کے ماہرمادی اشیاء اور سوچ دونوں کا خیال رکھتے ہیں۔یعنی معاشرے میں موجود افراد کے افکار کیا ہیں اور وہ مادی اشیاء پر انکا استعمال کر کے انکو کیا شکل دیتے ہیں۔اس بات کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ کس طرح سے مختلف علاقہ کے لوگوں کے مختلف قسم کے فیشن ہیں طور طریقے ہیں ۔تمام خطوں کی اپنی روایات و اقدار ہیں اور زندگی گزارنے کا طریقہ اپنا ہے ، اور اس سے بڑھ کر اس ایک خطے کے مختلف علاقوں میں بھی اختلاف ہے ۔
سب سے اہم سوال جو موجودہ معاشرے میں کئے جاتے ہیں ۔
۔(1)۔کیا آ پ نے کبھی یہ سوچا کہ ہمارا معاشرہ عورت کے مقابلے میں مرد کو زیادہ آزادی دیتا ہے ؟ کیوں ؟ اور کیوں نہیں؟۔حالانکہ 1920سے پہلے یہ سوال اس قدر اہمیت کا حامل نہیں تھا۔
۔(2)۔جب ہم سب معاشی تنگی میں گھر جاتے ہیں ، آپ نے کبھی سوچا ہے کہ زیادہ تر لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنی زندگیوں پر کنٹرول رکھتے ہیں یا نہیں ؟ اور کیوں؟۔وجہ سودی بنکاری نظام۔
۔(3)۔معاشرے کے طریقِ تبدیل میں کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ یہ آپکے احساس آزادی کو بڑھا دیتا ہے یا کم کر دیتا ہے۔یہ وہ احساس آزادی ہے جو بنیادی انسانی حقوق کے علاوہ ہے۔
جدّت پسندوں کے نزدیک تہذیب کے اجزاء، زبان،رویہ،ان کی ترسیل،رائے اوراعتبار(عقیدہ)وغیرہ ہیں۔یہ سب چیزیں کسی بھی معاشرے کی تہذیب کے بنیادی جُزو ہیں۔ان پر غورو فکر سے ہی کسی بھی تہذیب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔کسی معاشرے میں اسکی تہذیب کی کامیابی کا اندازہ ان عوامل سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں پر ہر فرد کے لئے برابری کی سطح پر بہتریں مواقع ہیں یا نہیں ؟۔ وہاں کے افراد کی انفرادی کارنمائی اور ذاتی حصول مقصد کیا ہے؟۔ مادی تشفی ہے کہ نہیں؟۔ وہاں کی سرگرمیاں کیا ہیں؟۔ عملاً کار کردگی کیا ہے؟۔ ترقی کیا ہے؟۔ سائنس کے میدان میں کیا کردارہے؟۔جمہوریت ، فراخ حوصلگی و آزادی وغیرہ کس قدر ہے۔ یہاں پہ ہمیں ایک اہم فرق جاننا ضروری ہے ۔ حقیقی معاشرے اور آئیڈیل معاشرے میں بہت بڑا فرق ہے ۔اگر یہ سمجھ آجائے تو سب سمجھ میں آ جائے گا۔معاشرے کی ترقی تہذیب کی تبدیلی ہے پرانی چیزوں کی جگہ نئی چیزیں لیتی ہیں ۔معاشرتی علوم کے ماہر حضرات اس کے لئے ایک انگریزی اصطلاح استعمال کرتے ہیں
\”all things shall pass\”
اور اس پر بہت دلائل دیتے ہیں اور بہت سی مثالوں سے اسکو ثابت کرتے ہیں ۔ہاں یہ بات درست ہے لیکن ایسی بھی درست نہیں کہ تمام اشیاء ۔انسان ہمیشہ سے منہ سے ہی کھاتا، پیتا آیاہے کیا انسان نے معاشرے کی ترقی کے ساتھ کھانے ،پینے کی جگہ تبدیل کر لی ؟۔
پھر کلچر کی تبدیلی کی تین وجوہات بیان کرتے ہیں ۔اس میں پہلی چیز ایجاد ہے ، جو کہ کہ کلچر کا رُخ اپنی مرضی سے موڑ دیتی ہیں۔ دوسری وجہ کوئی بھی چیز جو پہلے سے موجود ہواور اس کے بارے میں مزید بہتر معلومات کا حصول ہے، جیسے کہ سائنسی تفتیش کاری۔تیسری وجہ ایک معاشرے کے امتیازی اوصاف کی دوسرے معاشرے میں انتشاری منتقلی ہے ۔ گلوبل دنیا کے معاشرے پر نظر ثانی کی جائے تو اس کے گلوبل کلچرپر اثر انداز ہونے والے چند عوامل ہیں جو دنیا کو جوڑنے کا باعث ہیں۔ان میں عالمگیر معیشت اور چیزوں کا بہاؤ،عالمگیر خبر رسائی اور معلومات کا بہاؤ،عالمگیر ہجرت اور لوگوں کی منتقلی ہے۔ تہذیب معاشرے کا ایک ایسا ڈھانچہ ہے جس کے دائرہ کار کے اندر افراد اپنی ضروریات زندگی کے لئے ملتے ہیں۔جس سے تہذیب کا ڈھانچہ تیار ہوتا ہے ۔ حقیقت پسندی کے فلسفیانہ اصول کے مطابق یہ کہا جا سکتا ہے کہ تہذیب ہماری زندگی کی قیمت کا تعین کرتی ہے اور یہ مطلب اخذ کرتی ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ اورمعاشرے میں افراد کو جوڑتی ہے۔اس کے ساتھ اہم بات ! تہذیب ہمارے انتخاب کو محدود کر سکتی ہے جو ہم کرنا چاہتے ہیں یا سوچتے ہیں ۔
یہاں پر ایک اہم بات یہ بھی کرنا چاہوں گا کہ جس کسی تہذیب کو مذہب کے نام پر قبول کیا جائے تو خواہ اس تہذیب کا تعلق کسی مخصوص خطے کے ساتھ ہو لیکن دوسرے خطوں کے لوگ اس کو مذہب کی وجہ سے اپنا رہے ہیں تو یہ مذہب کی تہذیب کہلائے گی نہ کہ اس مخصوص خطے کی۔ معاشرتی علوم کے ماہرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں، جیسے ہم کسی بھی فرد کے حلیہ سے اندازہ لگا لیتے ہیں یہ فلاں مذہب کا ہے۔ کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں شریعت محمدﷺ پر کہ یہ عرب تہذیب جب کہ صرف ابہام کو ہوا دینے کے مترادف ہے اور کچھ نہیں سوشیالوجسٹس کے نزدیک ایسا کچھ نہیں۔مذہب تہذیب پر اپنی چھاپ رکھتا ہے تہذیب مذہب سے اوپر نہیں ۔
کسی بھی معاشرے میں افراد کا رُتبہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ رُتبہ ایک معاشرتی مقام ہے جس پر فرد قابض ہوتا ہے ۔ اس کی ایک قسم\” منسوب رُتبہ\” ہے، ایک معاشرتی مقام جسکو فرد یا تو پیدائش کے وقت سے پا لیتا ہے یا غیر ارادی طور پرزندگی کے کسی موڑپر حاصل کرتا ہے ۔دوسری قسم \”کامرانی رُتبہ\” ہے ، ایک ایسا معاشرتی مقام جسے کوئی شخص اپنی مرضی سے حاصل کرتا ہے یہ اس فرد کی قابلیت اور کوشش ظاہر کرتا ہے ۔
کسی بھی معاشرے کی بنیادی اکائی ایک خاندان ہے ۔خاندان کی اکائی ایک جوڑا (مردوعورت)ہے بوجہ معاشرتی اقرارنامہ ۔اسکے بعد معاشرے میں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روز مرہ کی انسانی زندگی میں جوڑے شادی کیوں کرتے ہیں؟ ہم اپنے معاشرے میں اس بات کا تجزیہ کرنے کے لئے ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہیں کہ کس طرح کے حالات اور معاملات ہیں جن کے زیرِ اثر ہم زندگی گزار رہے ہیں ابھی ہر خطہ ،علاقہ ، میں کچھ رسم و رواج ہیں کئی طرح کا رہن سہن طور طریقہ ہے ،کہیں تو ہم دیکھیں گے کہ ایک جوان مرد ایک جوان ، عورت کے ساتھ شادی کرتا ہے اور کہیں ہم دیکھیں گے کہ ایک جوان مرد ایک ادھیڑ عمر عورت سے شادی کرتا ہے ۔ کہیں پہ ایک بوڑھی عورت ایک جوان مرد سے شادی کرتی ہے اور کہیں پہ دیکھیں تو عورت اپنی ہم جنس سے شادی کرتی ہے ، اسی طرح ایک مرد اپنے ہم جنس سے بھی شادی کرتا ہے لفظ \”محبت \”کے نام پر۔ یہ باتیں مختلف ماحول میں مختلف طرح سے وقوع پزیر ہوتی ہیں اورہر معاشرے میں علاقہ رسم و رواج رہن سہن ، آداب اخلاق وغیرہ بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔یہ بحث صرف شادی کے سوشل کنٹریکٹ پر ہے اس کے علاوہ محض جنسی تعلقات پر نہیں۔بلکہ جنسی تعلقات شادی کاایک چھوٹا سا حصہ ہیں شادی کسی بھی خاندان کی بنیادی اکائی ہے ۔جس میں مخالف جنس (مردو عورت) باہم اپنے فطری ازدواجی تعلقات کی حفاظت کے لئے یہ کنٹریکٹ کرتے ہیں۔معاشرے میں شادی کی دو اقسام ہیں اس میں ایک قسم پرائمری سیکس دوسری قسم سیکنڈری سیکس اولزکر کا تعلق قدرتی پیدائش سے ہے اور دوسری کاتعلق جنس پرستی یاہم جنس پرستی سے ہے ۔
\”sex is far from a simple biological process linked to reproduction\”
بمطابق بیان! حیاتیاتی اصول کہتا ہے جنسی جوڑے کے ملاپ کا مقصد صرف نسلی تسلسل کو قائم رکھنا ہے سادہ لفظوں میں کہہ لیں کہ پیدائش ہے۔جوڑے کا اصل مقصد تو یہ ہے ۔اس لئے شادی کی جاتی ہے تاکہ افزائش نسل ہو سکے لیکن مرد کی مرد کے ساتھ شادی اور عورت کی عورت کے ساتھ شادی اسکا کیا مقصدہے؟ معاشرے میں بگاڑ کے علاوہ اس میں کوئی منطق نہیں ۔اس سے بنیادی انسانی حقوق پر کیاکوئی اثر نہیں پڑتا؟جنس پرستی اور ہم جنس پرستی عجیب قسم کااحساس آزادی ہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/gpdkv75
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *