صاحب اقتدار اک نظر ادھر بھی

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: محمد اطہر طاہر، ہارون آباد
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں شرح خواندگی کا معیار بہتر ہوا ہے، سکولوں میں سہولیات پہلے سے کہیں زیادہ ہیں، مگر بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو خواندہ ہونے کے باوجود معاشی طور پر بدحال اور سطح غربت سے بھی نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں، جو کہ اپنے حلقہءِ احباب ،خاندان اور مقامی آبادی میں غربت کی مثال بنے ہوئے ہیں، کہ فلاں بن فلاں سولہ جماعت پاس ہے اس نے بیس سال تعلیم حاصل کی اُسے کیا ملا، اس سے تو بہتر تھا کہ وہ کوئی کام سیکھ لیتا تو آج اچھے روزگار کا حامل ہوتا، یہ ایک زندہ حقیقت ہے اور گرد و نواح میں ایسی ان گنت مثالیں موجود ہیں، بہاولنگر جیسے پسماندہ علاقے بارڈر ایریامیں رہنے والا یا مروٹ جیسے پسماندہ ترین علاقوں سے تعلق رکھنے والا خواندہ شخص، جس نے محنت مزدوری کرکے ایم۔اے، بی۔اے ، بی ایڈ کیا ہو، اور جو علم کو صدقہ جاریہ اور درس و تدریس کو خدمت اور عبادت سمجھتاہو اور وہ اچھی تعلیم کے باوجود کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہو، اس کی تعلیم اس کے فخرکی بجائے اس کے لیے طعنہ بنی ہوئی ہو، کس قدر افسوس کی بات ہے۔چند دن پہلے میری ملاقات ایسے ہی ایک شخص سے ہوئی، میں اس قدر حیران ہوا جب اس نے بتایا کہ وہ شہر سے دور دراز ایک گاؤں کا باسی ہے، اس نے بتایا کہ میٹرک تک نئی کتاب لینا بھی ایک خواب ہی رہا، اسے ہمیشہ پرانی کتابوں پر ہی پڑھنا پڑا، مزے کی بات کہ وہ گریجوایشن اور پروفیشنل ڈگری PTC اور بی ایڈ میں بھی فرسٹ ڈویژنر ہے، مزید اس نے بتایا کہ اُس نے پرانے پیپرز لے کر وہاں سے تیاری کی اور ماسٹر ڈگری حاصل کی، اُس نے آج تک نہ خود کسی سے ٹیوشن پڑھی اور نہ ہی پیسے لے کر کسی کو ٹیوشن پڑھائی، اور ایسا پاکیزہ جذبہ کہ علم کو صدقہ جاریہ اور خدمت اور عبادت سمجھتے ہوئے اس نے ہمیشہ مفت بچوں کو ٹیوشن پڑھائی ۔ اور اب تک بچوں کو مفت تعلیم دے رہا ہے، اس نے بتایا کہ ایسے بہت سے طالب علم جو اس سے راہنمائی حاصل کرتے رہے ماشاء اللہ آج وکیل، ٹیچر اور مختلف اداروں میں اچھی اچھی پوسٹس پر متعین ہیں۔ مگر ان سب میں علم وادب بانٹنے والا انتہائی نچلے درجے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے، میں نے سوال کیا کہ تمہیں اب تک ٹیچر کی جاب کیوں نہ ملی جبکہ اتنی اچھی تعلیم ہے تو اس نے اپنی روداد کچھ اس طرح سنائی کہ میرے خاندان میں کوئی میٹرک پاس بھی نہیں تھا جو مجھے گائیڈ کرتا، ایف اے کرنے کے بعد پتا چلا کہ ٹیچر بننے کے لیے PTC کرنا ضروری ہوتا ہے، تو میں نے PTCکرلی، جب تک PTCمکمل ہوگئی تو حکومت پنجاب نے پالیسی بدلی اور تعلیمی معیار کم ازکم B.A کر دیا، میں نے B.A مکمل کیا تو معلوم ہوا کہ اب تو بی ایڈ بھی لازمی قراردیا گیا ہے، میں نے بہت کوشش سے محدود معاشی وسائل میں بی ایڈ بھی کرلیا اور ماسٹر ڈگری بھی حاصل کر لی، مجھے سوفیصد اُمید ہوگئی کہ اب جاب ضرور مل جائیگی مگرتب NTS آگیا اور ساتھ ہی فی میل ٹیچرز کو بوائیز سکولز میں ترجیح دی جانے لگی، ضلعی سطح پر میرٹ لسٹیں تیار ہوتیں اور محدود سیٹیں اناؤنس کی جاتیں، جسکی وجہ سے میرٹ سے باہر ہونا پڑتا، اور اس پر مزید ستم یہ ہوا کہ عمر کی زیادہ سے زیادہ حد میں فی میل کے لیے تین سال اور میل کے لیے پانچ سال کی کمی کردی گئی، اگر پہلے کی طرح 35سال پلس 5سال کی رعایت برقرار رہتی تو وہ اپنی یونین کونسل کا مضبوط ترین امیدوار تھا۔ اسی طرح ہزاروں اعلی تعلیم یافتہ لوگ جو بے روزگار، بے یارومددگار سابقہ حکومتوں اور ان کی پالیسیوں کے ستم کا شکار ہیں، اگر موجودہ حکومت سابقہ پالیسی جس میں 35+5سال کی رعایت تھی کو بحال کردے تو ایسے افراد کی ساری عمر کی محنت ضائع ہونے سے بچ سکتی ہے، ورنہ تو ایسے لوگوں کا تعلیم سے اعتماد ہی اُٹھ جائے گا۔ اس پہلے بھی ایسے ہی ایک نوجوان سے بات ہوئی جوکہ اعلی تعلیم یافتہ تھا اور مزدوری پر مجبور تھا، اس کے ساتھ بھی یہی ستم ہوا اوورایج ، جب تک انڈرایج تھے کبھی نوکریوں پر بین کبھی سیاسی اپروچ پر بھرتیاں یا نوٹوں والوں کی بھرتیاں ، اب اس کی یہ سوچ بن چکی ہے کہ کاش میں کوئی مستری یا مکینک ہوتا تو آج کم ازکم اچھی روزی کما رہا ہوتا، جتنا وقت اس نے تعلیم میں ضائع کیا اتنے وقت میں وہ ایک اچھا مکینک بن سکتا تھا ، یعنی اب اسکی نظر میں تعلیم حاصل کرنا وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں ہے، جبکہ وہ خود ماسٹر ڈگری ہے، اب وہ کہتا ہے کہ میں اپنے بچوں کو میٹرک سے آگے نہیں جانے دوں گا، میٹرک بھی صرف اس لیے کہ ا نکو فون سنناکرنا، عملی زندگی کے حساب کتاب، ٹرانسپورٹ کے روٹس وغیرہ پڑھنے آجائیں بس۔ ورنہ شاید وہ میٹرک تک بھی پڑھانا ضروری نہیں سمجھتا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں اپنے آپ کو اپنی زندگی کو علم کے چکر میں ضائع کرچکا ہوں بچوں کو ضائع نہیں کروں گا۔ حکومت وقت سے التماس ہے کہ ایسے اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کی طرف بھی نظر کرم کی جائے ان بیچلر اور ماسٹر ڈگری کے اور ایج بے روزگاروں کے لیے کوئی ایسے اقدام اٹھائے جائیں کہ ان کو بھی اپنی ساری عمر کی محنت کا صلہ مل سکے، 

Short URL: http://tinyurl.com/y6x4sdn7
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *