شجر ممنوعہ کی چاہ میں۔۔۔۔ تبصرہ نگار: ڈاکٹر فیروزعالم، حیدرآباد

Print Friendly, PDF & Email

کتاب کا نام: شجر ممنوعہ کی چاہ میں ( افسانوی مجموعہ)َ۔
افسانہ نگار: پرویز شہریار
صفحات: 150+xii قیمت : 200 روپئے
ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،کوچہ پنڈت، لال کنواں ، دہلی 110006

تبصرہ نگار: ڈاکٹرفیروز عالم، نظامت فاصلاتی تعلیم، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، گچی باؤلی، حیدرآباد، تلنگانہ
ڈاکٹر پرویز شہریارکاشمار اردو کی نوجوان نسل کے اچھے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔اگرچہ وہ شاعر بھی ہیں اور ان کی نظموں کا مجموعہ بھی ’’بڑا شہر اور تنہا آدمی‘‘کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے لیکن ان کی بنیادی شناخت ایک افسانہ نگار کے طور پر ہی ہے۔ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’بڑے شہر کا خواب‘‘ Shajar JPEGکئی برس پہلے (2006)شائع ہوا تھا اور خاص او ر عام قارئین کی توجہ کا مرکز بنا تھا۔ ’شجر ممنوعہ کی چاہ میں ‘‘ موصوف کے افسانوں کا دوسرامجموعہ ہے جس میں بارہ افسانے شامل ہیں۔
ان افسانوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پرویز شہریار کی نہ صرف اپنے گردو پیش کے معاشرے اور ماحول پرگہری نظر ہے بلکہ وہ قومی اور بین الاقوامی حالات و کوائف سے بھی بخوبی واقف ہیں اور اپنے ماضی کے ورثے سے بھی پوری طرح آگاہ ہیں۔ اعلیٰ انسانی اقدار کا زوال، مفاد پرستی،خود غرضی، مکر وفریب اور اخلاقی پستی وغیرہ برائیاں جس طرح ہمارے سماجی نظام کو کھوکھلا کر رہی ہیں ان سب کا برملا اظہار ان کے افسانوں میں ہوا ہے۔ مصنف نے اس کتاب کے آغازمیں’’ گفتنی ‘‘کے زیر عنوان اپنی افسانہ نگاری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’افسانہ نگار اپنے معاشرے کا نبض شناس ہوتا ہے۔افسانہ نگار جس سماج میں اور جس دور میں جی رہا ہوتا ہے، اس کے فن پارے میں اس دور کے سماج کی دھڑکن سنائی دینی چاہیے۔اس کے فن پارے میں واقعات اور بشری محاکات بعید از امکانات نہیں ہونے چاہیے۔اس کے کردار کے حرکات و سکنات سے اس معاشرے کی تہذیب کی جھلک مترشح ہونی چاہیے۔‘‘(شجر ممنوعہ کی چاہ میں ۔صفحہ۔ xii)
مصنف نے مندرجہ بالا سطور میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے،اس مجموعے کے افسانے ان پر صادق آتے ہیں۔ ان افسانوں میں کہیں اخلاقی زوال کو موضوع بنایا گیا ہے کہیں ازدواجی مسائل کو۔ کہیں نکسل واد کو موضوع بنایا گیا ہے اور کہیں سماج میں آہستہ آہستہ آنے والی بیداری کو ۔کہیں دیہاتوں کی بدلتی صورت حال اور سادہ لوح زندگی کی جگہ سازش اور مکرو فریب پر بات کی گئی ہے اور کہیں بڑے شہروں میں رہنے والے افراد کے کرب کو اجاگر کیا گیا ہے۔
اس مجموعے کاپہلا افسانہ ’’شجر ممنوعہ کی چاہ میں ‘‘ ہے ۔ اس میں شہری سماج میں بڑھتی ہوئی اخلاقی گراوٹ کو موضوع بنایا گیا ہے جس میں انسان اس حد تک گر جاتا ہے کہ کلبوں میں موج مستی کے چکر میں ازدواج کی ادلا بدلی کو بھی درست سمجھتا ہے اور آخر کار عبرت ناک انجام سے دوچار ہوتا ہے۔
افسانہ ’ ’لِو اِن ریلیشن شپ سے پرے ‘‘ بھی شہر کے پس منظر میں لکھا گیا ہے جس میں گاؤں سے آئے ہوئے شمبھو ناتھ سنگھ اور پدمجا جوسیف کو بقول افسانہ نگار ’’بھوک کی جبلت نے ……ایک کروڑ بیس لاکھ کی گنجان آبادی والے بڑے شہر میں ایک چھت کے نیچے ایک ہی کمرے کے اندربلکہ ایک ہی بستر پر سونے کے لیے مجبور کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔جہاں انسانوں کی اتنی بڑی آبادی بستی ہو وہاں کون کس کی پرواہ کرتا ہے۔ ویسے بھی لوک لاج کے لیے اپنے سماج کا ہونا ضروری ہے۔‘‘
’’لِو ان ریلیشن سے پرے‘‘ ایک خوبصورت کہانی ہے جس میں حالات شمبھو ناتھ سنگھ اور پدمجا جوسیف کو ایک بڑے شہر میں ایک چھت کے نیچے ایک ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ دونوں میں ابتدا میں صرف ورکنگ ریلیشن ہے۔دونوں کا کام بٹا ہوا ہے جس کی عدم تکمیل پر دونوں میں جھگڑا بھی ہوتا ہے۔دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور اسی ضرورت کے تحت دونوں میں جسمانی تعلق بھی قائم ہوتا ہے۔دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اوروقت ضرورت مدد بھی کرتے ہیں لیکن ان میں پیار جیسی کوئی بات نہیں ہے۔ آہستہ آہستہ شمبھو پدمجا کی طرف ملتفت ہوتا جاتا ہے مگر اسے بتاتا نہیں۔ پدمجا جوسیف کیرلا کی ہے اور دہلی کے ایک اسپتال میں نرس ہے۔شمبھو بہار کا ہے اور اسی اسپتال میں اسٹنٹ ایڈمنسٹریٹو آفیسر ہے۔دوتین برس گزرنے کے بعد یکایک ان کی زندگی میں انقلاب آتا ہے۔ پدمجا کا نیو یارک سے ویزا آجاتا ہے۔جیسے جیسے اس کے جانے کے دن قریب آتے ہیں ،شمبھو پر پژمردگی طاری ہوتی جاتی ہے۔ نیویارک جانے کے دودن پہلے پدمجاشمبھو پر منکشف کرتی ہے کہ وہ بھی اس سے اتنی ہی محبت کرتی ہے اور اب اس نے نیویارک جانے کا پلان کینسل کردیا ہے کیوں کہ پیسہ تو کہیں بھی کمایا جاسکتاہے، سچا پیار بڑی مشکل سے ملتاہے۔اس افسانے میں انسانی سماج میں رشتوں اور قدروں میں آنے والی تبدیلیوں کی حقیقی عکاسی کی گئی ہے۔مغربی تہذیب کے زیر اثر عصمت اور پاکیزگی کا مشرقی تصور جس طرح پاش پاش ہورہا ہے وہ ایک لمحہۂفکریہ ہے۔ افسانے کے اختتام پر پدمجا کے ذریعے ویزا کو ڈسٹ بین میں ڈالنا اس بات کی علامت ہے کہ مشرقی اقدار ابھی بھی باقی ہیں۔
افسانہ ’’ ہم وحشی ہیں ‘‘ 1984کے سکھ مخالف فسادات کے پس منظر میں لکھا گیا ہے جس میں ایک سکھ نوجوان ایک سردارنی کی عزت بچانے کی خاطر اسے قتل کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔اس افسانے میں مسلمانوں اور سکھوں کے خلاف ہونے والے متواتر فرقہ وارانہ فسادات، سیاسی لیڈروں کی مکاری اور پولیس کے متعصبانہ کردار کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔’’رشتوں کی بے اعتنائی‘‘ بھی ایک اچھا افسانہ ہے جس میں علامتی انداز میں ایک ایسے انسان کی کہانی بیا ن کی گئی ہے جو شادی کے بعد آہستہ آہستہ اپنی بیوی اور بچی سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کی بیوی بچی کی ولادت کے بعد شوہر پر بالکل توجہ نہیں دیتی ۔اس کاکام اب صرف محنت کرنا اور بیوی کے ہاتھ میں اپنی کمائی دینا ہے۔اسی طرح وقت گزرتا ہے اور اس کی بیٹی کی شادی ہو جاتی ہے۔ اس کا داماد بھی اسی کے گھر میں رہنے لگتا ہے۔ اسے اب گھر کے باہر کھلے آسمان کے نیچے سونے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ۔کچھ دنوں کے بعد اس کی ملازمت ختم ہو جاتی ہے۔ اب اس کی حالت اپنے ہی گھرمیں عضو معطل کی سی ہو جاتی ہے۔کوئی اس کا پرسان حال نہیں ہے۔حالات سے تنگ آکر وہ شراب کا سہارا لیتا ہے اور نشے میں اپنی بیوی، بیٹی اور داماد کو گالیاں دیتا ہے۔تینوں مل کر اس کی خوب پٹائی کرتے ہیں۔ ایک نہایت سرد رات میں تینوں کو جی بھر کے گالیاں دینے کے بعدوہ ابدی نیند سوجاتا ہے۔اس افسانے میں دو پلاٹ ایک ساتھ چلتے ہیں۔ ایک اس آدمی کی کہانی ہے اور دوسری ایک کبوتر کی۔ بے وفائی دونوں کا مقدر بنتی ہے اور آخر کاردونوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔اخلاقی قدروں کا زوال، رشتوں کا انتشار اور بے لوث خلوص کی جگہ مفاد پرستی اور حرص و ہوس کا دور دورہ اس ا فسانے میں مرکزیت کے حامل ہیں۔
’’دس سروں والا بجوکا‘‘ بھی ایک علامتی کہانی ہے جس میں پریم چند کے ناول ’’گؤ دان‘‘ کے ہیرو ہوری کو بیسویں صدی کے کسانوں کا نمائندہ بنایا گیا ہے۔ اس میں شہر اور دیہات کی تہذیب کے فرق کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ قدروں کی شکست و ریخت اور رشتوں کی کم مائیگی کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ ہوری اور دھنیا اپنے بیٹے گوبر کو بڑی مشکل سے اپنا پیٹ کاٹ کر اعلیٰ تعلیم دلواتے ہیں۔گوبردھن آئی آئی ٹی، دہلی میں پروفیسر مقرر ہوجاتا ہے۔ لیکن جب کبھی ہوری اور دھنیا اس سے ملنے دہلی جاتے تو گوبر اپنے دوستوں کی آمد پر انھیں اندرونی کمرے میں منتقل کر دیتا تا کہ وہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ اس کے والدین غیر تعلیم یافتہ اور دیہاتی ہیں۔ہوری یہ سب کچھ محسوس کرتا ہے اور اسی لیے وہ دونوں جلد گاؤں وا پس آجاتے ہیں۔ بیٹے کی اس بے اعتنائی کے باوجود دونوں کی خواہش ہے کہ ان کی پوتی نین تا را کی شادی دھوم دھام سے ہو۔ وہ اپنی بیٹیوں سونا اوار روپا کی شادی میں رہ گئی کسر پوتی کی شادی میں پوری کرنا چاہتے ہیں۔ کھیت میں اس سال فصل بھی بہت اچھی ہے۔ دونوں یہی منصوبہ بناتے رہتے ہیں کہ ایک دن نکسلیوں کی طرف سے ایک خط آجاتا ہے جس میں لکھا ہے کہ اب فصل وہ کاٹیں گے اور ہوری کو اس کا چوتھائی حصہ دے دیا جائے گا۔اس افسانے میں قدروں کے زوال ،رشتوں کا عدم احترام،پرانی اور نئی نسل کی سوچ میں فرق، نئی نسل کے ذریعے پرانی نسل کو ignoreکرنے اور نکسلی تحریک کے عروج پر موثر انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ افسانے کے اختتام سے یہ تاثر بھی شدید ہوتا ہے کہ ہندوستان کے کسان کی زندگی گذشتہ صدیوں میں مسائل کا شکار تھی اور حالیہ صدی میں بھی۔ بلکہ آج اس کی حالت زیادہ قابل رحم ہے۔آج کا ہوری باہر کے ساتھ ساتھ گھر میں بھی بے وقعت اور بیچارہ ہے۔
’’سیلوا جڈوم کہاں جائیں‘‘ اس مجموعے کا ایک اور اچھا افسانہ ہے جو نکسلائٹ تحریک کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ اس کا مرکزی کرداراونگا ایک پڑھا لکھا آدی باسی ہے۔اس کے دل میں انسانیت کے تئیں اتھاہ درد ہے۔ انسان تو انسان اسے جانوروں کی تکلیف بھی برداشت نہیں ہوتی۔لیکن غریبی اور بیروزگاری اسے سیلوا جڈوم بننے پر مجبور کردیتی ہے۔سیلوا جڈوم ایک ریاستی سرکار کے ذریعے بنائی گئی پرائیویٹ آرمی کے طور پرنکسلیوں سے لڑتے ہیں۔سرکاری نوکری کے لالچ میں اونگااور اس کی بیوی نکسلیوں کے خلاف لڑائی میں شامل ہو جاتے ہیں۔لیکن اس کے باوجود انھیں نوکری نہیں ملتی۔کچھ دنوں میں عدالت عالیہ کا فیصلہ آجاتا ہے کہ سیلوا جڈوم غیر قانونی ہے۔اب ان کے سامنے کوئی راستا نہیں ہے۔ ایک طرف وہ سرکاری سرپرستی سے محروم ہو چکے ہیں اور دوسری طرف نکسلائٹ ان کی جان کے دشمن ہیں۔اسی صورت حال میں ایک دن نکسلائٹس کے ذریعے انھیں گولی مار دی جاتی ہے۔اس افسانے میں آدی باسیوں کے استحصال،سرکاری نظام کی نااہلی اور حکومت کے ذریعے ان پڑھ آدی باسیوں کو نکسلائٹوں کے ساتھ لڑائی میں جھونکنے کی صورت حال کی حقیقی تصویر ملتی ہے۔اس لڑائی میں دونوں طرف سے آدی باسی ہی مارے جاتے ہیں اور حکومت کو ان سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ ان کے مسائل حل کرنے میں اس کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
’’سونیا بوٹیک‘‘ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو اپنے سوتیلے شرابی باپ کے ذریعے اپنے اور اپنی ماں پر ہونے والے ظلم کے خالاف سینہ سپر ہوتی ہے اور تعلیم حاصل کرکے خود روزگار کے ذریعے اپنا مستقبل سنوارنے کی کوشش کرتی ہے۔
’’بتولن ڈائن کیسے بن گئی ‘‘ میں ایک نڈر اور سیدھی سادی دیہاتی عورت کو موضوع بنایا گیا ہے جو پورے گاؤں میں ارہر بڑھیا کے نام سے مشہور ہے۔گاؤں کے دو سازشی افراد اس کے بیٹے کو جھوٹے کیس میں جیل بھجوا کر اس کی زمین ہڑپنا چاہتے ہیں لیکن راوی کی بروقت مداخلت سے وہ اپنے منصوبے میں کامیاب نہیں ہوپاتے۔ اس افسانے میں گاؤں کی سادہ لوح زندگی، ایک دوسرے کے تئیں لوگوں کا لگاؤ،مصیبت کے وقت کام آنے کا جذبہ اور سماج دشمن عناصر کے ذریعے وہاں کی پرامن فضا میں نفرت اور مکاری کا زہر بھرنے کی کوششوں کی موثر عکاسی کی گئی ہے۔ ارہر بڑھیاافسانے میں ایک زبردست کردار کی صورت میں سامنے آئی ہے۔اس کے کردارو گفتار،حرکت و عمل اورحوصلہ مندی سے ایک ایسی بولڈ لیڈی کا تصور ابھرتا ہے جو برے سے برے حالات میں بھی ہار نہیں مانتی اور اپنی ثابت قدمی سے ہاری ہوئی جنگ بھی جیت جاتی ہے۔
اس مجموعے کا آخری افسانہ ’’شہر نوشیرواں کا ایک یادگار محرم ‘‘ہے جس میں دو تین دہائی پہلے کے محرم کی جیتی جاگتی تصویر پیش کردی گئی ہے۔اس میں گاؤں کی تہذیبی و ثقافتی زندگی ،کھیل کود،آپسی رقابت اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے چکر میں شدید دشمنی وغیرہ صورت حال کی حقیقی تصویر کشی کی گئی ہے۔
اس مجموعے کے مطالعے سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ پرویز شہریار کہانی کہنے کے ڈھنگ سے بخوبی واقف ہیں ۔ان کا اپنا ایک اسلوب ہے جس سے ان کی اپنی ایک الگ پہچان قائم ہوئی ہے۔ یوں توان کے افسانوں میں سبھی فنی خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔لیکن ان کی کہانیوں کا خاصہ یہ ہے کہ شروع سے آخر تک ان میں دلچسپی برقرار رہتی ہے۔ وہ غیر ضروری تفصیل سے حتی الامکان گریز کرتے ہیں۔ ان کے جملے بھی طویل نہیں ہوتے ۔ وہ عام بول چال کی زبان استعمال کرتے ہیں اور اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ مکالمے کردار کی عمر، جنس، علاقے اور نفسیات سے مطابقت رکھتے ہوں۔ مثلاً شہری کرداروں کی زبان میں اردو اور انگریزی الفاظ کا ستعمال ملتا ہے لیکن دیہاتی کرداروں کے مکالموں میں مقامی زبان کے اثرات نمایاں ہیں۔انھوں نے اپنے بعض افسانوں میں علامتی انداز بھی اختیار کیا ہے لیکن یہ علامتیت ایک فنی حسن کی شکل میں سامنے آئی ہے اور افسانے کی تفہیم میں رکاوٹ نہیں ڈالتی۔افسانہ نگار نے اپنی کہانیوں کا موضوع اپنے گردو پیش کے ماحول اور معاشرے سے لیا ہے اور ان کی پیش کش میں اپنے مشاہدات سے بخوبی کام لیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی افسانے پر غیر حقیقی یا خلاف واقعہ ہونے کا گمان نہیں گزرتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کردار ہمارے آس پاس کے رہنے والے لوگ ہیں، صرف ان کا نام بدل دیا گیا ہے۔
امید ہے کہ پرویز شہریار کے زیر نظر مجموعہ ’’شجر ممنوعہ کی چاہ میں ‘‘ کے افسانوں کوقارئین کے سبھی حلقوں میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جائے گا کیونکہ انھوں نے خود کو نظریاتی طور پرکسی بھی ایک ازم تک مقید نہیں کر رکھا ہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/zzv5dbl
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *