سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ صدق و وفا کے پیکر

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: محمد کفیل 
رحمت دو عالم سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ و وسلم نے جب فاران کی چوٹی پر نبوت کا اعلان فرمایا تو صادق و امین کہنے والے نعوذباللہ ساحر و کاذب کہنے لگے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار بھی جانی دشمن ہوگئے ۔
اس مشکل دور میں اگر کسی نے اس موقعہ پر جان ومال اور اولاد کو قربان کر کے بلادلیل کے تصدیق و اعانت کی دنیا انہیں سیدناصدیق اکبر ؓ کے نام سے جانتی ہے۔ 
آپ رضی اللہ عنہ کے بارے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا !
“وہ جو سچائی لے کر آیا (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اور جس نے تصدیق کی” (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ) ( القرآن )۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ انبیاء کے بعد تمام انسانوں سے افضل ترین شخصیت ہیں ،آپ رضی اللہ عنہ نے پیغمبر اسلام اور دین اسلام کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں۔
آپ رضی اللہ عنہ کی زندگی حقیقی صدق وفا کا پیکر تھی۔ 
آپ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا حقیقی مصداق تھے ۔
فرمایا : ” تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک وہ مجھے اپنے والدین ، اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبت نہ کرلے”
آپ رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ اپنی جان و مال اور اولاد پر ترجیح دی آپ رضی اللہ عنہ کی سیرت سے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے کا حقیقی درس ملتا ہے۔ 
سیرت مصطفی میں علامہ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب فتح الباری کے حوالے سے لکھا ہے کہ 
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ دوران خطبہ ارشاد فرمایا : 
“لوگو ! بتاؤ سب سے زیادہ شجاع و بہادر کون ہے ؟” 
لوگوں نے کہا !” آپ “
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ! “میرا حال تو یہ ہے کہ جب کسی نے میرا مقابلہ کیا ہے میں نے اس سے انتقام لیا ۔
سب سے زیادہ شجاع و بہادر تو ابو بکر تھے میں نے ایک بار دیکھا کہ قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مارتے تھے اور کہتے تھے 
’’انت جعلت الالھۃ الھا واحدا‘‘ترجمہ : ‘تو ہی ہے جس نے تمام خداؤں کو ایک بنادیا ۔
ہم میں سے کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ آپ کے قریب جائے اور آپ کو چھڑائے ۔
حسن اتفاق سے ابوبکر رضی اللہ عنہ آگئے اور دشمنوں کے درمیان گھس پڑے ایک مکا اِس کے مارا ایک مکا اْس کے رسید کیا اور جس طرح اْس مرد مؤمن نے ( جو حضرت موسی علیہ السلامپر ایمان رکھتا تھا ) فرعون اور ہامان کو کہا :
ترجمہ : ‘‘ کیا تم ایسے شخص کو قتل کرتے ہو جو کہتا ہے میرا رب اللہ ہے ‘‘ (القرآن )
اسی طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس وقت کفار سے مخاطب ہوکر کہا :
ترجمہ : ‘‘تمہارا ناس ہو تم ایک ایسے شخص کو قتل کرتے ہو جو کہتا ہے میرا رب اللہ ہے ‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ کہہ کر رو پڑے اور فرمایا تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں آل فرعون کا رجل مؤمن افضل تھا یا ابوبکر ؟”
لوگ خاموش رہے ، پھر فرمایا” خدا کی قسم ابوبکر کی ایک گھڑی فرعون کے مرد مؤمن کی تمام زندگی سے بدرجہا بہتر ہے اس نے اپنے ایمان کو چھپایا تھا اور ابوبکر نے اپنے ایمان کا اظہار فرمایا اور اس شخص نے فقط زبان سے نصیحت پر اکتفاء کیا اور ابوبکر نے زبانی نصیحت کے علاوہ ہاتھ سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت و حمائت کی۔”
عیش وعشرت ، نشاط وفرحت اور سلامتی و عافیت کے وقت میں دعوی محبت آسان ہے لیکن اصل عشق و محبت یہی ہے جس کا اظہار حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کیا۔ 
آپ رضی اللہ عنہ نے اس وقت اپنا مال خرچ کیا ،جب کوئی بھی مدد کرنے والا نہ تھا، ہجرت سے قبل چالیس ہزار درھم کا سرمایہ خرچ کیا ، ہجرت نبوی کے بعد مسجد نبوی کی زمین کا معاملہ ہو یا تعمیر کا یا غزوہ تبوک کا موقعہ ،کبھی بھی مال خرچ کرنے سے ہچکچائے نہیں ۔
غزوہ تبوک کے موقعہ پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چندہ کا اعلان کیا تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اپنے گھر کا کل سامان لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلیاللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا : 
ابوبکر گھر کیا چھوڑ کر آئے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ‘‘خدا اور اس کا رسول میرے لیے کافی ہے‘‘
جواب سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے عرش سے آپ کے لیے سلام آیا۔
آپ کی زندگی ہر عاشق رسول کے لیے مشعل راہ ہے کہ محض دعوؤں سے عشق نہیں ہوتا بلکہ عشق کے لیے قربانی چاہیے ۔

Short URL: http://tinyurl.com/y3dba2l5
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *