سپّاٹ۔۔۔۔ مصنفہ: مریم جہانگیر

Print Friendly, PDF & Email

میرے اور تمہارے درمیان ہے ہی کیا؟ ایک بودا سا رشتہ نہ جسے دنیا شادی کا بندھن کہتی ہے جو میرے لئے فقط ایک بوجھ ہے۔ تمہاری اوقات ہی کیا ہے؟ تین لفظ طلاق کہوں تو تمہارا نام تک بدل جائے گا پھر کس کے بل بوتے پر اکڑ دکھاتی ہو۔ شفیق کی آنکھوں میں طنز اور لہجے میں تمسخر تھا۔شمیم جواباً اس کے سر ہی پڑ گئی تھی۔’’ تم کیا تھے؟ تمہاری اوقات کیا تھی؟ تمہیں تو تمہارے والدین نے بھی عاق کر دیا تھا۔تم جیسے وحشی جانور کے ساتھ میں نے گزارا کیا۔کوئی اور ہوتی تو دوسرے دن تمہارے منہ پر تھوک کر چلی جاتی۔‘‘ پھر کیا تھا شفیق کا تشدد شروع ہو چکا تھا اور شمیم کے جوابی حملے بھی عروج پر تھے۔ دور کونے میں ننھا سا لوتھڑا ڈر کے مارے اپنے آپ میں سمٹا تھا۔ انسان تو وہ ہوتا ہے جس کے پاس جسم کے ساتھ روح بھی ہو اور جذبات بھی۔ وہ محسوس کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہواور اسے دوسروں کو احساس دلانا بھی آتا ہو۔ لیکن یہ نازک سا لوتھڑا جس کے رونے میں شدت آ گئی تھی مگر اسکی گریہ و آزاری کا احساس اس کے والدین کو نہیں تھا۔ کمرے میں بے حسی اور سفاکی ناچ رہی تھی۔
’’ کتنے برس گزر گئے لیکن تمہیں عقل نہ آئی ۔ آج بھی راتیں باہر گزارتے ہو۔ پیسہ جوئے پر لُٹا تے ہو۔ کبھی اچھا کھانا اور پہننا مجھے نصیب نہیں ہوا۔ ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھا تم نے۔ تم سے کہیں اچھا نکڑ والا جواد ہے۔ بیوی کو عیش کرواتا ہے۔‘‘ شمیم کی طعنہ زنی عروج پر تھی۔
’’اس کی بیوی سادہ لوح ہے۔جسے عیاشی کروانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ میری بیوی خود سب کی عیاشی کا سامان ہے۔ بس پیسہ ہو اور لٹانے کا موقع ملا۔میں لاکھوں میں کھیلتا تھا تو نے مجھے ککھ کا نہ رہنے دیا۔ تجھ سے شادی سے بہتر تھا اپنے سر میں یونہی خا ک ڈا ل لیتا۔شفیق نے اپنے ہاتھ نچا نچا کر طعنے دئیے اسے دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا ہے کہ بے شکن لباس میں ملبوس یہ شخص ملکی مالیاتی ادار ے کے کسی بڑے عہدے پر تعینات ہے۔ ’’ حرام کماتا ہے ۔ حرام کھلاتا ہے ارے حرام جچتا کہاں ہے؟ کہیں نہ کہیں سے نکل ہی جاتا ہے۔تُو دیکھنا تجھے ایسی مار پڑے گی قسمت کی کہ تیری شکل تک نہیں پہچانی جائے گی۔ حرام کھا کر حرام کی موت ہی مرے گا۔‘‘ شمیم پَر کٹی کبوتری سی کٹنگ کروا کر بالوں کو لہراتے ہوئے اسے تحقیر سے دیکھ رہی تھی۔’’ مرد حرام کی طرف جاتا ہے تو اسے لے جانے والی عورت ہوتی ہے۔ اگر عورت صبر و شکر کرنے والی ہو تو مرد کو تھوڑے پر راضی کر لیتی ہے۔اپنی کسی ادا سے ، کسی ناز سے بُرائی کی طرف اُٹھنے والے قدم روک لیتی ہے۔مرد صرف مرد تب ہوتا ہے جب اسے کسی دوسری عورت کی چاہ لے ڈوبے۔ مجھے تو ایسی کوئی لَت نہیں ۔ تجھے پتا ہے میری جو عیاشی کا سامان ہیں وہ گھر سے باہر تک ہیں۔ تیری شکل غور سے دیکھوں تو انھیں گھر بھی لے آؤں۔ مگر جو تُو نے اپنے جیسی منحوس ماری پیدا کر دی ہے اس کے پاس میرا نام ہے۔ اس کی وجہ سے مجبور ہوں۔ ورنہ تیرے اور اسکے پیسے بازار میں خوب لگوا سکتا ہوں۔‘‘ شفیق نے اپنی ہر حد پار کر دی تھی۔شمیم نے بھی پاس پڑا گلدان سر پر دے مارا ۔رات کے گہرے ہوتے اندھیرے حیوانیت کو ہوا دیتے رہے اور گھر کے کسی کمرے کے دروازے کے ساتھ چھوٹی سی بچی سسکتی رہی۔
ایک عام شادی کے نتیجے میں شمیم شفیق کی شریکِ حیات بنی تھی۔ نجانے وہ ذہن کی کونسی سطح تھی جہاں جا کر دونوں کے آپسی تعلق دراڑ بن کر سامنے آئے اور پھر کبھی سرخ ٹائلوں لگے گھر میں محبت کا کوئی پرندہ نہیں چہکا۔ انسانی جبلت کے تقاضے کی تکمیل کے طور پر گھرکی چار دیواری کو ایک اور وجود کی قلقاریاں سننے کو ملی جو بعد میں صرف چیخوں میں بدل گئی۔ وقت گزرا تو یہ چیخیں آہ و بکا میں اور پھر آہ و بکا صرف گرم سیال مادے جسے ہم آنسو کہتے ہیں ، اس میں ڈھل گئی۔ شفیق اور شمیم دونوں کی ذہنی اور ذاتی صورتحال ایک ایسے کنوئیں کی مانند تھی جو کبھی سیراب نہیں ہوا۔ دونوں ایک دوسرے کے پاس اپنی پیاس لے کر آئے مگر پیاسے ہی رہے۔ انفرادی طور پر کوئی خوبیاں انہیں معاشرے میں بھی ممتاز نہ کر سکی ۔ پیسے کی ریل پیل تھی لیکن رشتے ناپید تھے۔ شفیق کو گھر والوں نے عاق کر دیا تھا تو شمیم کے گھر والوں نے بھی شادی کر کے ایک بوجھ ہی اُتارا تھا۔ دونوں اپنی پیاس پیسے سے بجھاتے تھے اس لئے کردار برائیوں کی دلدل میں ڈوبتا چلا جا رہا تھا۔فرعون کا خزانہ بھی دونوں ہاتھوں سے لٹایا جائے تو خا لی ہو جاتا ہے یہاں تو پھر چار ہاتھ تھے۔ اب انہوں نے پیسے کا متبادل ذریعہ ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ نظر اس پر پڑی جسے تراشا جاتا تو ہیرا بن جاتی چمک اُٹھتی۔پڑھی لکھی خوب ہوتی تو ماں باپ کا سہارا بنتی۔ لیکن فی الحال بوڑھی موٹی آسامی ہی ملی۔ جس کے ذریعہ یہ بساند بھرے جسموں کے تقاضے کچھ عرصہ اور پورا ہو سکتے تھے۔
پلوشہ بن مانگی دعا تھی جب اس پر زور اصرار بڑھتا گیا تو ایک دھند بھری صبح خوبصورت دروازہ دھکیلنے پر وہ چھت کے پنکھے سے لٹکی ہوئی مردہ ملی۔ سائیڈ ٹیبل پر ایک صفحہ پھڑپھڑا رہ تھا۔’’ حرام حرام ہوتا ہے۔ وہ کبھی حلال نہیں بن سکتا ۔ جیسے پانی اور تیزاب کی تاثیر مختلف ہوتی ہے اسی طرح حلال کا لقمہ اور حرام کا گھونٹ یکساں اثر نہیں ڈال سکتے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ میں اس زرنگر کا کوئی مردار لقمہ حلق سے نیچے نہ اُتاروں لیکن میرے پاس جائے پناہ نہ تھی۔پھر میں نے پوری کوشش کی کہ اس کی تاثیر سے بچ کر دکھاؤں ۔تاریخ بدل دوں۔ لیکن تاریخ خود کو دُہراتی ہے۔ہر عمل کا رَد عمل ہوتا ہے۔آپ دونوں کے جھگڑوں نے نجانے کب محبت کی تلاش میں مجھے بھٹکا دیا اور میں ہوس اور محبت میں فرق نہ کر سکی۔ اپنا منہ مارتی رہی اور خود کو نوچتی رہی۔آپ دونوں کو نظر بھی آئی تو تب جب آپ کے پاس عیاشی کا سامان نہ بچا۔ میں حرام آپکو لو ٹانا چاہتی تھی اس بوڑھے عیاش رشید کی بیوی بن کر لیکن وہ بھی گھاگ ہے پہچان جاتا کہ مال کھوٹا ہے۔متزاد یہ کہ جس کی ہوس کو محبت سمجھتی رہی وہ بھی میرے لہو کی آخری رمق خود اکیلا چوسنا چاہتا تھا اگر یہ شادی ہو جاتی تو میری نا زیبا تصویریں چوک میں ٹنگی نظر آتی۔ جو میں نے اس رات بھیجی تھی جب لاؤنج میں بیٹھا میرا باپ میری قیمت بازار میں لگا رہا تھا۔‘‘ مردہ چہرے پر کوئی سفیدی کوئی پیلاہٹ نہ تھی وہ ویسی ہی سپاٹ تھی جیسی تمام عمر رہی۔ بالکل سپاٹ۔

Short URL: http://tinyurl.com/zjrmoy6
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *