سفرِ حج( ہفتم)۔۔۔۔ میر افسر امان

Mir Afsar Aman
Print Friendly, PDF & Email

پاکستانی مکاتب کے درمیان؍پیٹے میں تین پل ہیں ۔ جمرات کی طرف سے پل ملک خالد آتا ہے جو مکتب نمبر۱۴ کے اوپر سے گزرتا ہے یہ پل ریلوے اسٹین نمبر ۳ ؍اور نمبر ۲ کے درمیان ہے ،پل ملک عبد العزیز ریلوے اسٹیشن نمبر ۲ کے قریب سے پاکستانی مکتب نمبر۱۶ سے گزرتا ہے۔ یہ پل ریلوے اسٹیشن نمبر ۲ کے قریب ہے۔پل ملک فیصل قربان گاہ کے راستے ہوتا ہوامزدلفہ کے قریب سے گزرتا ہوا مکتب نمبر ۷۴ کے اوپر گزرتا ہے۔مکتب کے درمیان میں پل ملک فیصل سے پیدل چلنے کا راستہ جمرات تک ہے۔پیدل چلنے والوں کے لیے بہت سی سڑکیں ہیں۔سڑک نمبر۷۱۴،۷۱۸،۲۰۵،جوہرہ ۵۶،فہد ۶۸،۵۶۳ اور بہت سے نمبر کی سڑکیں مختلف سمتوں سے جمروت کی طرف جاتیں ہیں اور جو عازمین حج کی آسانی کے لیے بنائی گئی ہیں یہ تفصیل ہم نے نقشے سے لی ہے۔ہمارے مکاتب کی جگہ میں میں دوسرے ممالک کے بھی مکاتب بھی ہیں۔ پل ملک فیصل کے قریب میں قربان گاہ ہے۔مخالف سمت میں تینوں جمرات ہیں۔مکاتب کے اندر پاکستان حج آفس،ہسپتال،ڈسپنسری،ایمبولنس،پولیس اسٹیشن اور سول ڈیفنس موجود ہیں۔ ۹ ؍ذی الحجہ کومنیٰ سے نماز فجر پڑھ کر سورج کے روشن ہونے تک عرفات کے روانہ ہوئے وہاں ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کرنی ہے۔ پھر کھڑے ہو کر مغرب تک اللہ سے گڑ گڑا کر؍ رو رو کر دعائیں مانگنی ہیں۔ گناہوں کی معافی مانگنی ہے آیندہ گناہ نہ کرنے کا اللہ سے عہد کرنا ہے ۔اب ہمارا گروپ عرفات کے لیے روانہ ہوا۔باہر سڑک پرمعلم کا نمایندہ مکتب نمبر ۷۵کا بورڈ لیے کھڑا ہے۔ ہمارا گروپ منیٰ کے خیمے سے نکل کر دو سڑکیں عبور کر کے ٹرین اسٹیشن نمبر۱پر پہنچا۔ معلم کا نمایندہ غلطی سے ہمیں سیدھی سمت کی بجائے اولٹی سمت لیا گیا کافی دور جانے کے بعد پھر واپس سیدھی طرف پلٹا۔ واپسی پر وہاں مکتب نمبر ۸۳ وغیرہ کے لوگ کھڑے تھے۔ہمارے گروپ نمبر ۷۵ان میں مکس ہو گیا۔ جب ۷۵ نمبر مکتب کو آگے آنے کا اعلان ہوا تو بھیڑ کی وجہ سے ہم پھنس گئے اور اپنے گروپ سے بچھڑ گئے۔ بحر حال تقریباً ایک گھنٹہ ریلوے اسٹیشن پہنچنے میں لگا اور ۱۰ منٹ میں ٹرین نے عرفات پہنچا دیا۔ویل چیئر والوں کے لیے الیکٹرونک لفٹیں ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ سیڑیوں سے لوگ آگے کو جا رہے ہیں۔ ریلوے پلیٹ فارم پر لوگوں کو روک لیا گیا۔ہم سے پہلے والے گروپ کوٹرین پر سوار کیا گیا۔جب ٹرین چل پڑی تو ہمیں پلیٹ فارم پر جانے کی اجازت دے دی گئی۔اس ترتیب سے قافلے عرفات پہنچنے لگے۔عرفات پہنچ کر کیمپ نمبر ۷۵ کی تلاش شروع ہوئی جبکہ کیمپ ہمارے سامنے ہی موجود تھا۔ہم نے گائیڈ سے کیمپ کا معلوم کیاتو اس نے نقشہ دیکھ کر ہمیں ٹرین اسٹیشن کی دوسری سمت جانے کا کہا۔مشکل یہ ہے کہ تمام گائیڈ سوائے عربی کے کچھ نہیں جانتے جس کی وجہ سے لوگوں کو بہت دشواری ہوتی ہے یہی معاملہ ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ہم اس کے کہنے پر اسٹیشن کی دوسری سمت پہنچ گئے۔وہاں جاکر دیکھاتو سامنے پاکستان کاجھنڈا لگا ہوا تھا ساتھ ہی کیمپ نمبر ۷۰ اور ۷۹ لکھے ہوئے ملے۔ ہمیں کچھ دیر کے لیے تسلی ہوئی۔ جب ہم نے ۷۵ نمبر کیمپ کا معلوم کیا تو بتایا گیا کہ کیمپ نمبر ۷۵ دوسری سمت پر ہے جدھر سے ہم آئے تھے۔عرفات کا نقشہ ہمارے پاس موجود تھا ہمارے ایک ساتھی نے اس کا غور سے مطالعہ کیا تو معلوم ہوا ہمارا کیمپ واقعی وہیں پر تھا یہاں سے ہمیں گائیڈ نے اس سمت بھیج دیا تھا۔جس راستے سے ہم آئے تھے انتظامیہ نے اس راستے سے واپس جانے سے ہمیں رو ک دیا کیونکہ وہ آنے کا راستہ ہے جانے کا راستہ دوسری طرف ہے۔ہمیں بہت دشواری ہوئی ہم ویل چیئر پر تھے ا ور ہمارا بیٹا ویل چیئر چلا رہا تھا۔ہمیں کہا گیا کہ آپ جنگلے کے ساتھ ساتھ جائیں اور آخر میں پہنچ کر دوسرے روڈ پر جا کر جنگلہ کراس کر کے اپنے کیمپ میں پہنچیں۔ہم بڑی مشکل سے اس جنگلے کے پاس پہنچے۔ گارڈ نے ہمیں جنگلہ کراس نہیں کرنے دیا۔ اور کہا کہ آگے جائیں۔ ہم آگے گئے اور جنگلے پر کھڑے گائیڈ سے دوسری سمت کیمپ نمبر ۷۵ جانے کی درخواست کی مگر اس نے ہماری بات نہ مانی اور کہا کہ پیچھے والے جنگلے کے پاس جاؤ۔ہمیں وہیں کھڑا کر کے ہمارا ایک ساتھی عرفات کا نقشہ لیے پھر پہلے جنگلے کے پاس پہنچا اور جد وجہد کے بعد جنگلہ کراس کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے ہمیں فون پر اطلاع دی۔ اس دوران ایک اور شخص ہمارے پاس آ گیا اور اپنی کہانی بیان کرنے لگا کہ میں کیمپ نمبر ۷۵ میں تھا ہم نے دو دن سے کھانا نہیں کھایا اور میں کھانے کی تلاش میں سامنے ۷۵ نمبر کیمپ سے اس طرف آ گیا ۔ایک تو مجھے کھانانہیں ملا دوسرا اب مجھے انتظامیہ واپس جنگلہ کراس کرنے کی اجازت نہیں دے رہی جبکہ مجھے سامنے کیمپ نمبر ۷۵ نظر آ رہا ہے۔ ہم نے اس شخص سے کہا آؤ آپ بھی ہمارے ساتھ چلو۔ ہم واپس پہلے گیٹ پر پہنچ گئے۔گیٹ پر کھڑے دونوں گائیڈ نے عربی میں کچھ بات کی اور ہمیں گیٹ کراس کرنے کی اجازت مل گئی۔کیونکہ ساتھ آنے والا شخص کیمپ نمبر ۷۵ کوجانتا تھا اس نے ہمیں منزل پر پہنچا دیا اور خود بھی اپنے گروپ میں جا ملا۔ اس شخص کو بھی گروپ سے اکیلے کی بجائے دو ساتھیوں کے ساتھ نکلنا تھا تاکہ راستے سے نہ بھٹکتا اور ہمیں بھی اپنا گروپ ہر حال میں نہیں چھوڑنا تھا تو دشواری نہ ہوتی۔ گائیڈ صاحبان کو بھی عربی کے علاوہ کوئی اور زبان نہ آنے کی وجہ سے یہ دشواری ہوئی۔ ایک تو ہم ویل چیئر پر تھے دوسرا میرا بیٹا سفری سامان بھی اُٹھایا ہوا تھا خیر اللہ اللہ کر کے عرفات پہنچ گئے۔ ہمارا گروپ جو تتر بتتر ہو گیا تھا کسی اور جگہ پڑاؤ ڈالے بیٹھا تھا ہم کسی اور سمت عرفات میں بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد جب وضو کرنے گئے تو دوسرے ساتھیوں سے ملاقات ہوئی۔یہ دشواری اس لیے ہوئی کہ ہم گروپ سے بچھڑ گئے تھے۔ریل کی پٹڑی زمین سے کافی اونچائی پر ہے۔ جب جمرات کو کنکریاں مار دی جاتیں ہیں تو جمرات سے ریلوے اسٹیشن تک جانے کے لیے ۸سے ۱۰ سیٹ کی گاڑیاں چلتی ہیں۔جو حجاج کو ریلوے اسٹیشن تک پہنچاتیں ہیں۔ جمرات سے عرفات تک ریلیں بجلی سے چلتی ہیں۔ ریلیں صاف ستھری اور ماڈرن ہیں۔تمام جدید سہولتوں سے آراستہ ہیں۔عرفات بھی پہاڑوں کے درمیان واقع ہے۔ جنرل ضیا صاحب کے دور میں، عرفات میں پاکستان سے لائے گئے نیم کے سرسبز درخت لگائے گئے تھے جواب بھی موجود ہیں۔ درختوں سے موسم میں تبدیلی ہوتی ہے اور گرمی کی عدت کم ہوتی ہے۔رہائشوں کے قریب ہی لٹرین اور وضو خانے بنائے گئے ہیں۔یہاں پر صرف ظہر اور عصر کی دو نمازیں ادا کرنی ہوتیں ہیں اس لیے منیٰ کی طرح کا انتظام نہیں۔ نسبتاً پرانے قالیں بچھائے گئے ہیں۔ شامیانوں کے درمیان بانس لگائے گئے ہیں۔ مین ٹینٹوں؍ شامیانوں کے درمیان لوگوں کے چلنے کے لیے راستے پکے بنائے گئے ہیں۔ٹینٹوں کے باہر گذر گاہوں پر کافی تعداد میں ٹھنڈے پانی کے کولرز رکھے ہوئے ہیں۔لیٹرین اور وضو کے لیے اچھا انتظام ہے۔ہم چار ساتھی ایک جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے۔گروپ کے دوسرے حضرات ایک دوسری جگہ بیٹھے تھے۔ گفت و شنید کے بعد طے ہوا کہ مزدلفہ جانے کے وقت ہم ایک بار پھر اکٹھے ہو جائیں گے۔ ایسا ہی ہوا مغرب سے تھوڑا پہلے ہم چاروں ساتھی چل کر اپنے گروپ کے پاس پہنچ گئے۔ اگر بیت اللہ کی سمت سے دیکھا جائے تو ہمارا گروپ عرفات کے آخری حصے میں بیٹھا ہوا تھا۔معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ باہر مین روڈ پر لوگ مشروبات جس میں لسی ،جوئس شامل تھا بانٹ رہے ہیں لوگوں نے کھانا بھی حاجیوں کے درمیان بانٹا۔ لوگ کریٹ کے کریٹ لا رہے ہیں۔ہم باہر تو نہیں گئے برابر کے دوستوں نے ہمیں بھی لسی اور مشروبات پیش کیں۔یہاں بھی حاجیوں کی خوب خدمت کی گئی۔منیٰ کی طرح یہاں عرفات میں بھی سارے وقت ہیلی کاپٹروں کے غول کے غول فضائی جائزہ لیتے رہے۔مغرب کی آذان کے قریب یہاں سے مزدلفہ روانہ ہونا ہے۔آج جمعہ ہے لوگ کہہ رہے ہیں جمعہ کی وجہ سے حج اکبر ہے۔مسجد نمرہ سے خطبے کی آواز سنائی دے رہی ہے جو ٹینٹوں میں ہی بیٹھ کر سنی گئی۔نقشہ پاکستانی مکاتب عرفات کے مطابق عرفات کے کناروں پردائرے کی شکل کی ایک سڑک نمبر ۹۱ عرفات کے شمال سے جنوب تک پھیلی ہوئی ہے۔ عرفات کے درمیان میں دائرے کی شکل کی ایک اور سڑک نمبر ۸۳ بھی موجود ہے۔اس پر ٹریفک رواں دواں ہو گی۔ عرفات کے درمیان میں سڑک ملک فہد،سڑک سوتی غرب،سڑک جوہر ۵۶،سڑک ۵۴، سڑک ملک فیصل اور سڑک ملک عبدا لعزیز ہیں۔ریلوے لین بھی عرفات کے سامنے سے گزرتی ہے۔ عرفات میں بھی ہسپتال، ترین اسٹیشن،ڈسپنسری،ایمبولینس موجود ہیں۔پاکستانی مکاتب میں دوسرے ملک کے حاجی بھی ہیں۔ مکتب نمبر ۷۵ عرفات کے آخر میں ریلوے اسٹیشن نمبر ۱ کے سامنے ہے۔ عرفات میں مغرب کی آذان سے چند منٹ پہلے ہمارا گروپ مزدلفہ کے لیے روانہ ہوا۔ٹرین پر پہنچنے کے لیے بہت رش ہو گیا۔ہمارا قافلہ ٹرین کے اسٹیشن کے لیے آگے بڑھ رہا تھا کہ رش بہت زیادہ ہو گیا۔اس دوران سیکورٹی کی گاڑی سارن زور سے بجاتی ہوئی رش میں گھس گئی۔ سیکورٹی کی گاڑی۱۵ منٹ رینگتے ہوئے رش کے آدھے حصے تک پہنچی۔ادھر انتظامیہ اسٹیشن جانے کے لیے راستہ نہیں کھول رہی تھی۔ایک وقت میں دو پریشانیوں نے لوگوں کو مبتلا کر دیا۔رش میں سے ایک صحت مند شخص گاڑی کے سامنے کھڑا ہو گیا اور چلا کر کہنے لگا اس گاڑی کو میں آگے نہیں جانے دوں گا۔ آپ کو ہمارا احساس نہیں ہے۔سیکورٹی والوں کو مجبوراً گاڑی پیچھے کرنی پڑی اور لوگوں کو سکون ہوا۔اسی دوران ہمارا گروپ رش سے بچنے کے لیے ایک طرف ہو گیا۔ عورتوں کو ایک طرف بیٹھا دیا گیا۔ایک گھنٹہ بعد رش ختم ہوا تو ہمارا گروپ اسٹیشن جانے کے لیے اندر داخل ہوا۔یعنی دو گھنٹے کے انتظار اور جد و جہد کے بعد ریلوے پلیٹ فارم پر پہنچے ۔ریل کا ۵ منٹ انتظار کیا ریل میں سوار ہوئے اور۱۰ منٹ میں منزل یعنی مزدلفہ پر پہنچ گئے۔ویسے وہاں سے ایک گھنٹے میں پیدل لوگ آرام سے منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔ٹرین سے اترتے ہی لوگوں نے آگے جانے کی بجائے اسٹیشن پر ہی ڈھیرے ڈال دیے۔ہمارا گروپ بھی آگے بڑھتا گیا اور کچھ دیر چلنے کے بعد سڑک کی دائیں جانب ہی ڈھیرے ڈال دیے۔
قارئین! حاجیوں کو جتنی بھی پریشانی ہوتی ہے وہ حاجیوں کی اپنی بے صبری اور قوانین کی پابندی نہ کرنے سے ہوتی ہے سعودی حکومت نے حاجیوں کی سہولت کے لیے بہت بہترین انتظامات کیے ہوئے ہیں حاجی ان کی پابندی نہیں کرتے جس وجہ سے پریشان ہوتے ہیں۔ (باقی آیندہ)

Short URL: http://tinyurl.com/jjhl9s4
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *