سزا پہلے مقدمہ بعد میں

Hadayat Ullah Akhtar
Print Friendly, PDF & Email

اب یہ بات تو صاف ہے کہ ملک کے ایک منتخب وزیر آعظم سابق ہوگئے۔ اور پاکستانی تاریخ کے اس فیصلے کے بارے صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ
وہ منصفوں کی رواتیں وہی فیصلوں کی عبارتیں
میرا جُرم تو کوئی اور تھا پر میری سزا کوئی اور ہے
میں کسی کرپشن کرنے والے کا حمایتی نہیں اور نہ ہی کسی بدتمیز اور گندی زبان استعمال کرنے والے کو پسند کرتا ہوں ۔جو بھی آدمی سچ کہے گا اس کا ساتھ دینا فرض اور اخلاقی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اظہار خیال کرتا ہوں جہاں کہیں کچھ غلط ہو اس کی نشاندہی کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا غلط کام کرنے والے کو کوسنا۔میاں صاحب کو میں فرشتہ نہیں سمجھتا اس کا جُرم ہوگا اور یہ جُرم کیا ہے میں نہیں جانتا۔ ابھی تک کی معلومات کے مطابق ان کے حریف جو الزام لگاتے ہیں یا کہتے ہیں وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی اب تک الزام ہی ہیں۔ان الزامات کو ثابت کرنے کے لئے عدالت عالیہ نے نیب کا سہارا لیا ہے اسی نیب کا جس پہ عدالت عالیہ نے اپنا عدم اعتبار کا پہلے ہی اظہا رکر دیا ہے۔ ما ہرین قانون جے آئی ٹی رپورٹ کے بارے بھی یہی کہتے رہے کہ جے آئی ٹی میں جو مواد درج کیا گیا ہے وہ صرف معلومات کا درجہ رکھتی ہیں ثبوت نہیں۔اس سے بھی بڑی بات کہ جب کیس نیب کو ہی ریفر کرنا تھا تو جب دو ججوں نے نواز شریف کے خلاف نوٹ لکھے تھے تو عدالت عالیہ اسی وقت یہ کیس کسی لوئر کورٹ یا نیب کو ریفر کر سکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور ایک جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جے آئی ٹی کی تشکیل بھی اب ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ اس فیصلے سے یقینا بہت سارے خاص کر تحریک انصاف کو انصاف ملنے کا احساس ہوا یا خوشی ہوئی ہوگی لیکن پاکستان کے اندر اور باہر اکثریت جو پاکستانی سیاست سے دلچسپی رکھتے ہیں ان کے رائے یہی ہے کہ پانامہ کیس کا فیصلہ انصاف پر مبنی نہیں ۔اس کیس میں سزا پہلے سنائی گئی اور مقدمہ بعد میں چلانے کا حکم اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستانی عدالتیں پھر سے ماضی کی طرف لوٹ گئی ہیں ۔اور ماضی میں کیا ہوتا رہا اس سے سبھی واقف ہیں ۔بس صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ اٹھاون ٹو بی کا استعمال اب کوئی اور شکل میں ظہور ہوا ہے۔دکھ اس بات کا نہیں کہ نواز نا اہل ہوگئے یا ان کو آنے والوں وقتوں میں گرفتار یا کچھ اور سزا ہوگی دکھ تو اس بات کا ہے کہ ماضی کی طرح احتساب کے نام پر بہت واویلا کیا گیا ادارے بنے اور کئی لوگ گرفتار ہوئے اور نیب میں کیس چلے اور نتیجہ کیا نکلا۔نواز بے نظیر میثاق جمہورت سامنے آیا۔بے نظیر اور مشرف ڈیل سامنے آئی۔اور اسی طرح اب تک ہو رہا ہے۔کس کا احتساب ہوا کس سے کتنی رقم وصول کی گئی کس کس نے اپنے گوشوارے صحیح بھرے یا کس کس نے قانون کی پاسداری کی اس سے پاکستانی عوام با خبر ہے۔کالم کی طوالت کو کم کرنے کے لئے مختصراً اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ کسی کو اپنی صفائی کا موقع فراہم کرنے سے پہلے سزا دینے کی نظیر پاکستانی سیاست اور معاشرتی نظام کے لئے کوئی نیک شگون ثابت نہیں ہو گی اور ملک میں ایک انتشار کی کیفت جو پہلے سے موجود ہے اس میں مزید اضافے کا موجب بنے گی۔پانامہ کیس کو لوگ ایک تاریخی فیصلہ سمجھتے ہیں اور کہا یہ جا رہا کہ اس کو صدیوں یاد رکھا جائیگا ۔اس فیصلے کو صدیوں یاد رکھا جائیگا یا نہیں اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر اتنا تو سب ہی لوگ جان گئے ہیں کہ اس فیصلے کے بعد جو مسائل اٹھ کھڑے ہونگے ان مسائل کو لوگ کبھی نہیں بھولینگے

Short URL: http://tinyurl.com/yazqah3b
QR Code: