خواہش

Print Friendly, PDF & Email

افسانہ نگار: سخاوت حسین
تھوڑی دیر میں ٹرین آنے والی تھی۔ نہ ہی وقت بدلا تھا نہ اس کے حالات۔ گھر پر دو بچے بھوک سے بے تاب ہو کر اس کا انتظار کر رہے تھے۔غربت کے ہاتھوں تنگ آکر وہ شہر چھوڑ کر قریبی بستی میں آگیا تھا۔ جہاں ہر طرف غربت ہی غربت نظر آتی تھی۔ اس کے دو بچے ، صبح سے سڑکوں پر اور خدا کی زمیں پر روتے ہوئے کھانے کی تلاش کر رہے تھے۔ غریبوں کی بستی کے کوڑے دان بھی ان کے گھروں کی طرح خالی ہی ہوتے ہیں۔ ان کوڑوں میں انسانوں کی لاشیں تو مل سکتی ہیں مگر روٹی نہیں۔مسلسل دو دنوں سے بھوکے بچے اس کی راہ میں نگاہیں بچھائے بے تابی سے انتظار کر رہے تھے۔ ننھا شان کچھ زیادہ تنگ کرتا تو چھوٹی سی صبا اسے ڈانٹ دیتی۔ کہا ہے نا ابو جی آئیں گے تو ڈھیر سارا کھانا لائیں گے۔ شان کی آنکھوں میں ایک دم رونق سی آجاتی۔ شچی آپا۔ ابو لائین دے۔ ہاں شان۔ وہ اس کے آنسو پونچھتے ہوئیکہتی۔وہ محلے کی دوکان پر گیا۔ گھروں میں صدائیں دیں۔ مگر سب نے منگتا، چرسیا اور نشئی جیسے القابات سے ہی نوازا۔ خالی ہاتھ جیسے ہی وہ گھر پہنچا ننھے بچے اس کی گود کی طرف لپکے۔ پیٹ بھوک سے باہر نکلے تھے اور آنکھوں میں روٹی کے آنے کی خوشی۔لیکن اس کے خالی ہاتھ دیکھے تو صبا ایک دم اداس ہوگئی، ابو آج بھی آپ کھانے کو کچھ نہیں لائے۔ ان سب باتوں کا جواب اس کی آنکھوں سے بہتے آنسوتھے۔ نہیں میرے بچو ، اس سسٹم نے مجھے بس دھکے دئے اور کچھ گالیاں دیں۔ میرے بچو ، اس نے جیسے ہی بچوں کے پیٹ کو ہاتھ لگا یا تو ششدر رہ گیا۔خوف کی ایک لہر اس کے بدن میں دوڑ گئی۔ بچوں کے موت کا خوف۔کئی دن کے بھوکے اور دو دن سے مسلسل روٹی سے محروم بچوں کے پیٹ ہی نظر نہیں آرہے تھے۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ ابو لوئیں مت۔ نھنے شان نے آگے بڑھ کر ننھے ہاتھوں سے اس کے آنسو صاف کئے۔ ابو مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ ننھی صبا نے تڑپتے ہوئے کہا۔ تو چھوٹے سے شان کو بھی نجانے کیا سوجھی کہ وہ بھی صبا کا ہم نوا ہو کر رونے لگا۔ ابو مدے بھی تھانا دو۔۔۔چھوٹا سا بچہ جو بول بھی نہیں پاتا تھا مسلسل روئے جا رہا تھا۔ اس رات بھی وہ بغیر کھانا سوئے۔ ساری رات دونوں بچے خواب میں کبھی روٹی کا نام لے کر ہنستے اور کبھی روتے۔ جانے کتنی دیر بعد بچے سوئے وہ نہیں جانتا تھا لیکن وہ انسان پتھر کا ہو چکا تھا۔ اب وہاں انسان کی صورت میں ایک لاش نظر آرہی تھی۔آج بھی روز کی طرح صبح ہوئی تھی۔ سورج اسی آب وتاب کے ساتھ چمک رہاتھا۔ دونوں بچے انتہا درجے تک لاغر ہو چکے تھے۔ اسی کے ساتھ ہی ان کو تیز بخار اور پیٹ درد نے گھیر لیا تھا۔روتے روتے اس کی آنکھوں کے آنسو خشک ہوگئے اس نے دونوں بچوں کو کندھے پر اٹھایا اور قریبی ہسپتال لے گیا۔ لیکن ڈاکٹرز کی عدم دستیابی کی وجہ سے کسی نے معصوم پھولوں کی طرف رخ تک نہیں کیا۔ یہ قصبے کا ایک چھوٹا سا ہسپتا ل تھا۔جہاں صرف چند ٹوٹی کرسیاں اور ایک دو انسان نما حیوان نظر آرہے تھے۔ ووٹ لیتے وقت کونسلر اور چئیرمین نے وعدہ کیا تھا کہ وہ علاقے میں ایک بڑا ہسپتال اور سکول بنوا دیں گے مگر جب سے جیتے دونوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ غریب لوگوں کی بستی تھی۔ اکثر لوگ کہتے تھے۔ یہ غریب آٹے کے ایک تھیلے پر بک جاتے ہیں۔ جس کے گھر میں موت رقص کر رہی ہو اس کے لئے آٹے کا ایک تھیلہ ہی زندگی کی نوید بن کر آتا ہے۔جب غریب کے بچے بھوک سے مر رہے ہوں،بیمار ہوں اور علاقے میں ایک ہسپتال تک نہ ہو تو وہ ایک پیراسیٹامول کے لئے اپنے آپ کو بیچنے کے لئے تیا رہوجاتا ہے۔ وہ زندہ لاشوں کو کندھے پر ڈالے وہیں بیٹھ گیا۔ سامنے ہی مین رود تھا۔یہ روڈ حال ہی میں بنا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا اس روڈ کی جگہ ہسپتال بنتا تو آج اس کے بچے شاید بچ جاتے۔ بچوں کی حالت ابتر ہوتی جارہی تھی۔ وہ مسلسل الٹیاں کرتے جا رہے تھے۔ہسپتا ل میں نمکول تک ختمہو چکا تھا۔بلکہ شاید سرے سے تھا ہی نہیں۔آسمان پر اڑنے والے کوے اسے گدھ جیسے لگ رہے تھے۔وہ خیالوں میں کہیں کھو گیا۔ کل کی ہی بات ہے کہ اس نے قریبی شہر کے ہر دروازے پر دستک دی تھی اور ہر دروازے سے اسے ہڈحرام کوئی کام کیوں نہیں کرتا۔ہمارے پاس کام نہیں ہے جیسے جوابات ملے تھے۔ مزدوری کرکے ہاتھ ٹوٹ گئے لیکن سیٹھ نے عمارت تو بنا دی لیکن مزدوروں کے واجبات دیتے وقت ٹال مٹول سے کام لیتا رہا۔ یہاں تک کہ ایک دن وہ دبئی بھاگ گیا۔ آدھے مزدوروں کے چولھے ٹھنڈے ہوگئے۔ جس میں اس کا بھی چولہا شامل تھا۔ بیوی غربت سے پہلے ہی مر چکی تھی۔ جتنی رقم تھی وہ اس کے علاج پر خرچ ہو چکی تھی۔ یہاں تک کہ اب وہ مکمل طور پر قرض میں ڈوب گیا ۔ بھکاری بننے کی کوشش کی تو لوگوں نے صحت کا طعنہ دے کر بھیک دینے سے انکار کیا۔ گھرجاتاتو دومعصوم جانیں بلکتے روتے اس سے بس ایک التجا کرتیں کہ ابو پیٹ دکھ رہا ہے۔ کھانا دے دو۔ ابو کھانا،ابوکھانا۔ صبا کی آواز نے اس کے خیالات کا سلسلہ توڑا اور مرتے ہوئے بچوں کو سامنے دیکھ کراس نے ایک فیصلہ کیا بہت بھیانک فیصلہ۔ میرے بچو تم تو ویسے بھی مر جاو گے میں جی کر کیا کروں گا۔ میرے اس اقدام سے شاید بہت سے دوسرے لوگوں کی جان بچ جائے۔شاید بے شعوروں کا شعور بیدار ہوجائے۔ پیارے بچو یہاں روٹی زندگی سے زیادہ مہنگی ہے۔ یہاں دوائی انسان سے زیادہ قیمتی ہے۔ یہاں کا نظام غریب کے لئے صرف موت کی نوید لاتا ہے۔ ابو کیا ہمیں کھانا ملے گا۔ ہمارے پیٹ میں بھی بہت درد ہو رہا ہے۔ دوائی بھی ملے گی نا ٹرین کی پٹری پر دونوں لاغر مریض بچوں کے ساتھ لیٹے اس سفاک مظلوم سے بچوں نے پوچھا تو وہ بلک بلک کر رودیا۔ ہاں جب ٹرین آئے گی نا تب ملے گا میری صبا کو بھی اور میلے پالے شان کو بھی۔بچو تھوڑا درد ہوگا پھر بہت سا کھانا اور دوائی ملے گی۔ پھر ہمیں کبھی بھی بھوک نہیں لگے گی۔سچ !!صبا کی آنکھوں میں جیسے زندگی کی چمک آگئی۔لیکن کمزوری کی وجہ سے مسکرا بھی نہ سکی۔ ابو مدے بھی تھانا ملے دا۔ ننھے شان نے توتلی زبان میں التجا کی تو اس کا دل چاہا کہ وہ اپنا سر پٹری سے پھوڑ لے۔
میرے بچو مجھے معاف کرنا۔ ہمارا فیصلہ اللہ کرے گا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ٹرین کی آواز قریب آتی جا رہی تھی ساتھ ہی بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھرتی جارہی تھی۔ ان کو لگ رہا تھا ٹرین سے کوئی ان کے لئے روٹی اور دوائی لا رہا ہے۔ شان چلا رہا تھا۔ ابو تھانا آیا۔ تھانا آیا۔ آسماں کا رنگ گد لا ہو چکا تھا۔شائد وہ بھی بچوں کی مظلومیت پر شرمندہ تھا۔ بادل زور زور سے گرج رہے تھے۔تبھی ایک جھماکا ہوا۔
کچھ بھی نہیں بدلا۔ بس ٹی وی پر ایک خبر چلی۔ ایک شخص نے اپنے دوبچوں کے ساتھ ٹرین کی پٹری پر جان دے دی۔ ننھے پھول سے بکھر ے چہروں پر خون کی چھینٹوں کے ساتھ مسکراہٹ اسی طرح تازہ تھی اور خون آلود ہاتھوں میں روٹی اور دوائی کو پکڑ نے کی خواہش۔

Short URL: http://tinyurl.com/yd45bc3b
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *