حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے۔۔۔۔ تحریر: امجد ملک

Amjad Malik
Print Friendly, PDF & Email

حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز ہی اقراء سے ہوا تھا

تعلیم کی اہمیت سے انکار تو کوئی زی شعور انسان نہیں کر سکتا. ہمارے ملک , خاص طور پر پنجاب میں شعبہ تعلیم میں اصلاحات پر بہت زور ہے. حکومت نے کچھ بہت اچھے کام کئے جن میں اساتزہ کی میرٹ پر بھرتی , جسکی وجہ سے قبل , پر جوش اور محنتی نوجوان ,
NTS
کے ذریعے اس ڈیپارٹمنٹ میں آئے.
پرائمری اسکول میں خواتین اساتزہ کی بھرتی بھی ایک احسن قدم ہے. وہ اپنی لیاقت و قابلیت سے پرائمری سطح پر بچوں پر بہت محنت کر رہی ہیں.
مانیٹرنگ کا نظام بھی , اساتزہ کی اسکول میں حاضری اور موجودگی کو ضروری بنانے میں بہت کار آمد ثابت ہوا. کیونکہ اکثر دیکھنے میں آتا تھا کہ اسکول کے اوقات میں ہی شادیاں , جنازے اور مصروفیت بھگتاء جاتی تھیں.
لیکن ان اچھے اقدامات کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے اقدامات بھی ہیں جو اساتزہ , والدین اور طلباء4 کو سرکاری سکولوں سے بد دل کر رہے ہیں. اگر ہم بہت زیادہ پیچھے نہ جائیں , پچیس سال پہلے کے طلبا اور آج کے طلبا کا موازنہ کریں تو معیار تعلیم بہت گر رہا ہے. اسے بڑھانے کے لئے جو اقدامات کے جا رہے ہیں , وہ اسکی مزید بربادی کا سبب بن رہا ہے.
پرائمری تعلیم بچے کے کیرئر کی بنیاد ہوتی ہے. اسکا انتہائی مضبوط ہونا بہت ضروری ہے. ہم حسب عادت , اور غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے غیر قوموں کی نقالی کو فخر سمجھتے ہیں , کبھی کبھی شاید ” پرایا پیسہ ” ہمیں انکو جائز , نہ جائز ہر بات پہ سر جھکانے پر مجبور کر دیتا ہے.
محکمہ تعلیم کی طرف سے سکولز پر یہ پابندی ہے کہ نرسری سے چہارم تک کسی بچے کو فیل نہ کیا جائے , یہنی ایک درجے میں وہ ایک ہی سال لگائے گا , چاہے وہ اگلی کلاس کے قابل ہو نہ ہو , اسے روکنا نہیں , آگے لے کے جانا ہے. ماہرین تعلیم , پالیسی میکرز , نفسیات سے کچھ سدھ بدھ رکھنے والے , لوگوں کو اتنا علم تو ہوگا کہ ہر فرد کا آء قیو لیول مختلف ہوتا ہے. کچھ بچے فطین , کچھ ذہین , کچھ متوسط اور کچھ فاطر العقل ہوتے ہیں. ہر فرد کو اللّہ نے کچھ خاص خصوصیات سے پیدا کیا ہوتا ہے جو دوسروں سے مختلف ہوتی ہیں. یہ انفرادی اختلافات کہلاتے ہیں.
استاد جو بھی پڑھائے گا , ہر بچہ اسے اپنی ذہنی استھداد کے مطابق سیکھے گا. کچھ بچے تو ایک سال میں دو کلاس بھی پڑھ لیتے ہیں. کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو موجودہ کلاس کا کورس بھی نہیں سمجھ پائیں گے. ایک ایسا بچہ جو ابھی حروف تہجی کی پہچان بھی نہ کر پا رہا ہو , اسے اگلی کلاس میں بھیج دینا , جہاں اس سے اس کی قابلیت سے کہیں بڑھ کر کورس پڑھنے کی توقع کی جا رہی ہو. ظلم نہیں ہے ???
جب وہ اپنے ہم جماعتوں جیسا پڑھ نہیں پائے گا , اسکے دوست مذاق اڑاء گے , استاد ڈانٹے گا , نکما نالائق کہلائے گا. تو کیا اسکی ذہنی حالت تباہ نہیں ہوگی ? کیا وہ تعلیم , مدرسے اور استاد سے متنفر نہیں ہو جائے گا ???
تعلیمی میدان میں , خاص طور پر سرکاری سکولوں میں رائج کچھ ” جہالتوں ” کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے. یہ غریبوں کے ساتھ ایک ظلم عظیم ہے. غربت اور جہالت کو پروان چڑھانے کی طرف کوشش ہے.
ایسے بچوں کو اگلی کلاس میں دھکیل دینا , اسکے ساتھ مہربانی نہیں بلکہ ظلم ہے , اسطرح اس سے صرف روایتی کام کروایا جائے گا. سیکھنے کی صلاحیت ختم ہو جائے گی. جسمانی طور پر تو وہ اگلی کلاس میں ہوگا لیکن ذہنی طور پر کہاں ہوگا ?
حیرت ہے کہ کوئی غور کرنے کی تکلیف نہیں کرتا , سرکاری سکولوں میں بہت سے بچے ایسے ہیں جو انھیں حروف تہجی , گنتی , پر عبور تو دور کی بات , اپنا نام تک ٹھیک سے لکھنا نہیں آتا , اردو , انگلش کی ریڈنگ تک نہیں کر پاتے , جمع تفریق کے آسان ترین سوال سمجھ ہی نہیں پاتے.
بات یہیں پہ ختم نہیں ہو جاتی , اصل بات تو اب شروح ہوئی ہے.
جی ہاں ! پنجم میں یہ بچے جائیں گے تو انکا واسطہ”
PEC
” امتحانات سے پڑے گا
تعلیم کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگ زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ
PEC
کا امتحان بہت اعلیٰ معیار کا ہے , طلبا کی ذہنی صلاحیتوں سے کہیں بلند , 10 % آوٹ آف کورس میٹریل , انتہائی کمزور بنیاد کے لئے اعلیٰ امتحان , جسکا نتیجہ صفر , جی ہاں بہت سے سکولوں کے پانچویں کے شرمناک نتائج دیکھے جا سکتے ہیں. 16 سے 18 سال کی عمر کے طالب علم پانچویں میں نظر آئیں گے جو “پیک “میں پھنسے ہیں. حالانکہ انکی عمریں میٹرک کے معیار کی ہیں.
ان بچوں کا مستقبل کیا ہے ? کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں ? کوئی سوچے گا ? کوئی ادھر بھی توجہ دے گا ?
اب ذرا پچیس سال پیچھے چلے جائیں ! پنجم میں بھی ایسا کوئی طالب علم نہیں ملتا تھا جو پڑھنا لکھنا نہ جانتا ہو. یا بنیادی حساب کتاب نہ جانتا ہو. حالانکہ وہ اساتزہ آج کے استاد سے کم پڑھے لکھے تھے.
DTE
اور
PEC
جیسی اصطلاح سے ناواقف تھے. لیکن ان استادوں کو استاد کا اصل مقام حاصل تھا. شاگرد کی کارکردگی اور ترقی کے فیصلے کا اختیار تھا. طلبا کی سرزنش کا حق تھا , وہ بہترین معلم تھے , کتابوں کا بوجھ نہیں تھا , آج کے استاد کو کاغذی کاروائیوں , میٹنگز , انسپکشن , ٹریننگ , میں اتنا الجھا دیا گیا ہے کہ وہ بوکھلایا پھرتا ہے. سرکاری سکولوں میں ابھی بھی سو سو کی پرائمری کی تعداد کو صرف ایک استاد دیکھ رہا ہے.
ظلم یہ ہے کہ پیسے والے لوگ تو اچھے پرائیویٹ سکولوں کا رخ کرتے ہیں. سرکاری اسکول اسی کا نصیب رہ گیا ہے جو غریب ہے , جسکے وسائل نہیں. اور حکومتیں جیسے ” تعلیم مکاؤ , غریب مکاؤ ” جیسی مہم پہ لگی ہیں. بدقسمتی سے بلدیات سے لے کر قومی نمائندوں تک کے دماغ , سڑکوں , گلیوں , نالیوں میں اٹکے ہیں. غریب سیاست کی چمک دمک سے متاثر , میڈیا کے غوغا سے متاثر , غریب دشمن سیاست کے چنگل میں پھنستا چلا جا رہا ہے. اسے اپنے حقوق کا ادراک تک نہیں. نعرے لگاتے نہیں تھکتا لیکن تعلیمی ظلم پر اسکا گلہ بیٹھ جاتا ہے. اور غریب کو وہ تعلیمی مار پڑ رہی ہے کہ اسکی نسلیں بھی غربت کے کنویں سے باہر نہیں آ پائیں گی.

Short URL: http://tinyurl.com/gucbk7l
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *