حکومت کی ڈوبتی ہو ئی نا ؤ۔۔۔۔ ایس ایم عرفان طاہر

SM. Irfan Tahir
Print Friendly, PDF & Email

اب میر ا ہنر ہے مر ے جمہو ر کی دولت اب میرا جنون خا ئف تعزیر نہیں ہے 
اب دل پہ جو گزرے گی بے ٹوک کہو ں گا اب میرے قلم میں کوئی زنجیر نہیں ہے 
معروف مذہبی علمی و عملی سکا لر اور درویش زمانہ حضرت واصف علی واصف فرما تے ہیں ’’اگر انسان اپنے حاصل اور محرومی دونو ں کو برابر سمجھے تو خو ف سے بچ سکتا ہے ‘‘ہما رے اسلاف نے یہ وطن عزیز ایک نظریہ اور ایک فکر کے اتحا د کی خا طر بے مثا ل اور با وقا ر قربانیو ں سے حاصل کیا قا ئد اعظم محمد علی جنا ح ؒ کی وفا ت سے ایک سال قبل ہی تو اسلامی جمہو ریہ پاکستان وجو د میں آیا وہ دن اور آج کا دن اس پاک دھرتی اور پاک مسکن کو نہ تو مخلص محب وطن ایماندار دیا نتدار وفا شعار اور با کردار قیا دت میسر ہو ئی اور نہ ہی خالص حکمرانی جو بھی اس ملک پر قائد کے نظریا ت، فرمودات ،افکا ر اور تصورات کو آگے لے کر بڑھا تو دیمک کی طرح اس کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے اور اسے اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا نے کے لیے مصروف عمل ہو گیا ہر ایک نے معرض وجو د میں آنے کے بعد اس وطن عزیز کو شیطانو ں اور حیوانو ں کی طرح کھایا لیکن پھر بھی اس کی بنیا دیں با قی ہیں بے شک ’’رب کی دھرتی رب کا نظام ‘‘ ملک کے اندر خو شحالی وہ چا ہے کا روبا ری ہو یا معا شی لا نے کے لیے قبل از عام انتخابا ت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے قوم سے جو وعدے کیے اور انتخابی مہمات کے دوران جو دعوے کیے گیے ان کی یا د ہا نی کی ضرورت محسوس ہو نے لگی ہے نہ تو کالا باغ ڈیم کو پا ئیہ تکمیل تک پہنچا نے کے لیے کوئی قدم بڑھا یا گیا ، نہ ہی ملک سے دہشتگردی اور انتہا پسندی اور افرا تفری کا نا سور ختم ہو تا ہو ا دکھائی دیتا ہے ، نہ تو مہنگائی بے روز گا ری اور بے راہ روی نے عوام کو تنہا چھوڑا اور نہ ہی بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ میں خا طر خواہ کمی واقع ہوسکی ملک میں کہیں بھی تو امن و سکون اور خو شحالی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا ہے ہر طرف گہما گہمی سیاسی دنگل اور ہنگا مہ آرائی دکھائی دیتی ہے کوئی طالبان کی صورت میں دہشتگردی پھیلا کر عوام کا قتل عام کرتا ہے تو کوئی جمہو ریت کالبا دہ اوڑھے عوام کو نفسیا تی اور معاشی دبا ؤ کے باعث جا ں بحق کرنے پہ تلا ہوا ہے دہشتگرد تو دونو ں ہی اطراف میں دکھائی دیتے ہیں حکمران ہو ں یا طالبان ؟ پاک فوج کا یہ عزم قابل تحسین ہے کہ آخری دہشتگرد کے خا تمہ تک آپریشن ضرب عضب جا ری رہے گا لیکن اقتدار کے ایوانو ں میں حکومت کے کا شانو ں میں جو بد کردار بد حواس اور غدار دہشتگرد حاکم براجمان ہیں انکا قلعہ قمعہ کون کرے گا؟ کو ن غریب عوام کی فریا د سنے گا؟کون انصا ف کا بول بالا کرے گا؟ یہا ں دنیا بھر میں ظلم و بربریت کی داستاں بنے مسلمانو ں کا تو اللہ ہی حافظ ہے لیکن ایک خود کو مسلمان کہلوانے والی اسلامی نظریا ت کا پرچا ر کرنے والی ریا ست کو کون سی طا غوتی اور صیہو نی قوتو ں نے اپنے شکنجے میں لے لیا ہے کیو ں آج کا منا فق اور فاسق و فاجر حکمران فلسطین میں اٹھنے والے فتنے کے خلا ف ہر زہ سرائی کرنے کی جسا رت نہیں کرتا ہے؟ خلیفہ مسلمین حضرت علیؓ کا قول ہے کہ حکومت کفر کے زیر سائیہ تو چل سکتی ہے لیکن ظلم اور ناانصافی سے نہیں۔کون سی قوتیں ہیں جو ملک کو اندرونی و بیرونی سطح پر نقصا ن پہنچا نے پر تلی ہو ئی ہیں ؟ 
ہم بچا تے رہ گئے دیمک سے اپنا گھر مگر ! کرسیو ں کے چند کیڑے ملک سارا کھا گئے !
مسلح افواج پاکستان کو ایک آپریشن ان غدار وطن حیوان صفت حکمرانو ں کے خلا ف بھی شروع کرنا پڑے گا ۔ میا ں برادران محض بیر ون ملک دوروں پر زیا دہ زور رکھے ہو ئے ہیں ملک کے اندر کیا فضا ء چل رہی ہے انہیں اس سے کوئی سرو کا ر نہیں ہے ۔ جا تی امراؤ کے قریب دہشتگردوں کی موجود گی ، سانحہ لا ہو ر میں بے قصور اور بے گناہ تیرہ جانو ں کا ضیا ع اور تمام اضلا ع میں بڑھتی ہو ئی کرائم کی شرح نے یہ با ت تو خا صی حد تک ثا بت کر دی ہے کہ عوام کی جان و مال اور اہل و عیال کو تحفظ فراہم کرنے والا محکمہ پولیس میا ں برادران کے گھر کی لونڈی بنا ہوا ہے تمام تر سیکیورٹی فورسز اور اداروں کو محض وفا قی اور صوبا ئی حکومتو ں سے وابستہ افراد کے لیے مختص کردیا گیا ہے ۔ رمضان المبارک کے مقدس اور با برکت رحمتو ں بھرے مہینے میں اشیا ء خوردو نو ش کی قیمتو ں میں بے جا اضا فہ ، سحری اور افطا ر کے اوقات میں بجلی و گیس کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ، منا فع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کو حکومت کی طرف سے پشت پناہی بے حد مسائل اور مصائب میں ڈو بی ہوئی عوام کو ذرہ برابر بھی ریلیف پہنچا نے کی بجا ئے ازیت کے انبا ر نے افسردہ غمزدہ اور نا امید کردیا ہے مقامی حکومت کا یہ کہنا کس حد تک بجا ہے کہ حکومت نے غربت افلاس اور کمتری کا کشکول توڑ کے رکھ دیا ہے ؟ وطن عزیز میں نچلی سطح پر اقتدا ر کی منتقلی سے قبل یہ سارا ڈرامہ رکنا نا ممکن ہے ۔ حکومت کا ہر حصہ دار اپنی ذمہ داریو ں اور معاملا ت سے بر ی الذمہ دکھائی دیتا ہے وزارت داخلہ ایک نا اہل اور فا تر العقل و مبحوس الحواس انسان کے ذمے سونپ دی گئی ہے جو زیادہ تر نئی نویلی دلہن کی طرح نا راض ہی دکھائی دیتا ہے ۔ وزیر اطلا عات ہو دفا ع یا خزانہ ہر کوئی اپنے اپنے تحفظا ت کا رونا روتا ہوا دکھائی دیتا ہے غیر ت و حمیت کا جنا زہ نکا لنے والے ان نا اہل اور ناکام حکمرانو ں کا احتساب کرنے والا کوئی ملک کے اندر کم از کم دکھائی نہیں دیتا ہے حکومت برا ئے نام ہے ۔ دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا شیر آیا کا نعرہ لگا نے والے آج خود اپنے ہی کیے پہ نادم و پشیماں دکھائی دیتے ہیں ہر کوئی ڈر اورخوف میں مبتلا ء ہے ۔ چا رو ں صوبو ں میں وفاقی حکومت کی کا ر کردگی زیرو ہی نظر آرہی ہے ۔ ملک کے اندر قرضوں کی بھرما ر نے سابقہ تمام تر ریکارڈ توڑ کر رکھ دیے ہیں۔ ۴ ملین سے زیا دہ بچے پاکستان میںیتیمی ، لا وارثی اور بے سہاراوالی زندگی بسر کرنے پر مجبو ر ہیں عام آدمی غریب سے غریب تر جبکہ دولت و اما رت رکھنے والا امیر سے امیر تر ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔انقلا ب سونامی اور حکومت کی کشمکش میں عوام النا س سب سے زیادہ نقصا ن اٹھا رہے ہیں دین و دنیا کے طلبگا ر مولانا فضل الرحمن ہو ں یا تبدیلی لیکر آنے وا لے عمران خان ، داعی انقلا ب ڈاکٹر طا ہر القا دری ہو ں یا ایم کیو ایم کے الطاف بھائی ، چو ہدری شجا عت حسین ہو ں یا شیخ رشید احمد سبھی تو عوامی توقعات اور مفادات کے بر عکس اقداما ت اٹھا تے ہو ئے دکھائی دیتے ہیں جو قوم اپنے آزادی کے دن کو بربادی سے تعبیر کرے گی تو پھر اس کو خدا کی طرف سے کوئی بھی اچھی امید رکھنا محض خام خیالی ہی ہے جو حکمرانو ں نے بویا ہے وہ انہیں تو کاٹنا ہی پڑے گا یہ محض پیشن گوئی یا کوئی غیب کی خبر مت سمجھ لجیئے گا بلکہ یہ تو منظر ظا ہر و باطن میں کسی بھی وقت اتر جا نے والا ہے بدیا نتی ، کرپشن ، لا قانونیت ، انتہا پسندی غلا ظت اور گندگی سے جنم لینے والی یہ حکومت اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچنے والی ہے عوامی بد عائیں کبھی بھی رائیگا ں نہیں جاتیں ۔محب وطن با شعور اور با عمل عوام کو اپنے دیرپا خوش آئند اور روشن مستقبل کیلیے اب اٹھ کھڑے ہونا پڑے گا 
تمہی نے چشم پو شی کی جہا ں کی پیش بینی سے جو ہونا تھا وہ دیواروں پہ لکھا ہم نے دیکھا تھا 

Short URL: http://tinyurl.com/gl5h3wn
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *