حجۃ الاسلام امام محمد غزالی معالج امراض باطنیہ

Print Friendly, PDF & Email

تحریر:استاذالعلماء شیخ الحدیث مفتی محمدجنیدرضاخان قادری 
(ناظم اعلیٰ جامعہ انوارالحدیث حنفیہ غوثیہ نزدشیل پمپ داؤدخیل)

امام غزالی کا نام محمد اور کنیت ابو حامد تھی جبکہ لقب زین العابدین تھا۔ان کی ولادت ۴۵۸ھ بمطابق۱۰۵۸ء شہر طوس میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم طوس اور نیشاپور میں حاصل کی ۔ان کو حجۃ الاسلام بھی کہا جاتا ہے۔حجۃ الاسلام امام محمد غزالی کے والد محترم کے والد محترم دھاگے کی تجارت کیا کرتے تھے اس مناسبت کی وجہ سے حجۃ الاسلام کے خاندان کو غزالی کہا جاتا تھا۔حجۃ الاسلام امام محمد غزالی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ان ہستیوں میں سے تھے جو اپنے مذہب کے زبردست عالم اور دیگر مذاہب سلف سے واقف اور بعد میں آنے والوں کے طریقے سے خوب واقف تھے۔آپ نیشاپور سے وزیر سلاجقہ نظام الملک طوسی کے دربار میں پہنچے۔اور ۴۸۴ھ میں مدرسہ بغداد میں مدرس مقر ہو گئے۔آپ ابتداء میں منطق و فلسفہ کے مطالعہ میں مستغرق رہے۔لیکن جب رو حانیت کا سفر شروع کیا اور علوم باطنیہ پر توجہ دی تو آپ نے منطق و فلسفہ سے مکمل طور پر برأت اختیار کر لی یہاں تک کے ان علوم کی اور انکے طلباء کی خوب مذمت فرمایا کرتے تھے یہاں تک آپؒ فرمایا کرتے تھے منطقی اور فلسفی حقائق اشیاء کی بحث کرتے ہیں اور ہر وقت انسان ،گھوڑا ،گائے وغیرہ اشیاء کی حقائق بطور امثلۃ پیش کرتے رہتے ہیں آپ نے تنکا اٹھا کر کہا فلسفی اور منطقی مجھے اس تنکے کی حقیقت بتائیں ۔لیکن وہ کبھی بھی اس تنکے کی حقیقت نہیں بتا پائیں گے۔الغرض آپ علوم باطنیہ میں اتنے مشغول ہوئے کہ اپنی آخرت تو سنواری ہی لیکن قیامت تک کے لئے ایسا مواد و نصاب علوم باطنیہ میں عطا فرما گئے جس کو پڑھ کر لوگ اپنی دنیا و آخرت بہتر کر سکتے ہیں ۔آپ نے پہلے کیمیائے سعادت نامی کتاب لکھی ۔پھر اسکو تفصیلا احیاء العلوم کے نام سے لکھا ۔اور علمائے کرام اس کتاب کے بارے میں فرماتے ہیں احیاء العلوم ان کتب میں سے ہے جنکی حفاظت و اشاعت مسلمانوں پر فرض و لازم ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ مخلوق اس سے فیض یافتہ ہوسکے جو بھی اس کتاب میں غور کرتا ہے خواب غفلت سے بیدار ہو جاتا ہے۔اس کتاب کی افادیت و اہمیت پر علیحدۃ مضمون میں روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔جس کو پڑھ کر ان شاء اللہ آپ اس کتاب کا مطالعہ کیئے بغیر نہیں رہیں گے۔
امام غزالی مشہور مجتھد امام ،فنا فی الرسول ﷺ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد تھے۔اور آپ نے باطنی علوم کا استفادہ امام ابو طالب مکی ،سید الطائفہ امام جنید بغدادی،مستغرق فی بحر التوحید با یزید بسطامی جیسے اولو العزم اولیاء کرام سے کیا۔امام گزالی کی تعلیمات کو سمجھنے کیلیئے ان مشائخ و بزرگان دین کا نام ہی کافی ہے۔آپ نے امراض باطنیہ یعنی جھوٹ ،غیبت ،چغلی ،حسد،بغض،کینہ ،حب جاہ،ریاء پر خود بھی بہت توجہ دی اور دوسروں کو بھی ان باطنی بیماریوں پر توجہ دینے کی ترغیب دلائی۔یاد رہے ظاہری بیماری بدن کو کھا جاتی ہے جبکہ باطنی بیماریاں ایمان کو ختم کر دیتی ہیں۔جسم کے ختم ہو جانے سے موت واقع ہو جاتی ہے جبکہ ایمان کے لٹ جانے سے دنیا و آخرت تباہ ہو جاتی ہے۔ہم طاہری بیماریوں کے علاج معالجہ کیلیئے دنیا کے اچھے سے اچھے معالج کو تلاش کرتے ہیں کہ کہیں زندگی ختم نہ ہو جائے،کہیں بیماری کے سبب محتاجی کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے ظاہری بیماری کے علاج کیلے اس محاورے کے مطابق جان ہے تو جہان ہے دنیا کے تمام وسائل استعمال کرتے ہیں لیکن افسوس باطنی بیماریاں،جھوٹ،غیبت،چغلی،حسد،کینہ ،ریاکاری،حب جاہ جیسی بیماریاں ہمارے ایمان اور اعمال کو دیمک کی طرح چاٹتی جارہی ہیں لیکن ہمیں فکر ہی نہیں۔ہم خاموش تماشائی بن کر اپنے نفسانی خواہشات کو روز بروز بڑھاتے جارہے ہیں۔ہم ان بیماریوں کے معالج کو کبھی ڈھوندنے کی کوشش ہی نہیں کرتے یا کرتے ہیں تو صرف رسمی طور پر علماء سے تعلق قائم کرتے ہیں۔یا لوگ کہتے ہیں ہمیں ایسے معالج اس دور میں کہاں سے ملیں گے،کسی حد تک بات درست بھی ہے ایسے للہ فی اللہ،اور باطنی امراض کے معالج ملنے مشکل بھی ہیں لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ اسکا معالج ہی نہیں ہے ،اگر ظاہری طور پر کوئی معالج امراض باطنیہ نظر نہیں آتا تو ہمارے پاس اسلاف کرام کی کتب موجود ہیں،ان سے استفادہ کریں اور اپنی بیماریوں کا علاج ڈھونڈیں ۔انہی معالجوں میں سے عظیم معالج امراض باطنیہ حجۃ الاسلام امام محمد غزالی علیہ الرحمۃ الوالی کی ذات بھی ہے۔میں تمام قارئیں سے دست بستہ عرض کرتا ہوں آپ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد امام غزالی کا مطالعہ کریں اپنی اعمال و ایمان کو ضائع ہونے سے بچانے کیلے ان بیماریوں کی پہنچان اور علاج ضرور پڑھیں اسکے بعد آپ نماز پرھیں گے تو نماز آپکو برائی و بے حیائی سے روکے گی،قران مجید پرھیں گے تو آنکھوں سے آنسو جاری ہونگے،نعت نبیﷺ سن کر رقت طاری ہو گی،الغرض کیفیات روحانیہ طاری کرنے کیلئے ہمیں معالج امراض باطنیہ سے ضرور رجوع کرنا پڑے گا۔امام غزالی کا وصال رواں ماہ جمادی الثانی کی ۱۴ تاریخ ۵۰۵ ھ بمطابق۱۸ دسمبر۱۱۱۱ ء میں شہر طوس میں ہوا آپکا مزار پر انوار طوس میں عمارت ہارونیہ کے قریب واقع ہے۔اللہ آپکے درجات کو بلند فرمائے اورانکے سدقے ہمیں علوم باطنیہ و ظاہریہ سے مالا مال فرمائے۔آمین بجاہ طحہ ویٰس

Short URL: http://tinyurl.com/ydgf88fg
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *