جنت نظیر وادی میں خون کی ہولی

Print Friendly, PDF & Email

اسماء طارق، گجرات
قصہ کچھ یوں ہے کہ جنت نظیر وادی ریاست جموں و کشمیر ڈوگرہ راج کے سائے میں پروان چڑھتی ہے جہاں مہاراجہ رنجیت سنگھ ڈوگراوں کے خلاف جنگ کرکے جموں کو فتح کرتا ہے اور اس کی مدد ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کرتا ہے جو شوں کو پیٹھ دکھ کر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج میں ملازمت اختیار کرتا ہے اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کا ایجنٹ بن کر کئی ڈوگرہ جیالوں کو قتل کرتا ہے جس کے عوض راجہ گلاب سنگھ کو جموں کی باج گزار ریاست بطور انعام عطا ہوتی ہے ۔ جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد جب سکھ سلطنت کا زوال شروع ہوتا ہے تو انگریز پنجاب پر چڑھائی کر کہ قبضہ کر لیتے ہیں تو اس وقت راجہ گلاب سنگھ اور اس کے پیروکار لاہورکے دربار سے غداری کرکے انگریزوں سے مل جاتے ہیں گویا کہ پیٹھ دکھانا اور غداری شروع سے ہی راجہ کی فطرت میں شامل تھا ۔ اب اس خاص خدمت اور 75 لاکھ روپے کی رقم کے عوض ”بیع نامہ امرتسر‘‘ کے ذریعے کشمیر کا صوبہ راجہ گلاب سنگھ حاصل کر لیتا ہے ۔ 1846ء سے 1947ء تک ظلم و ستم کی داستان رقم کی جاتی ہے ۔ 1947 میں جب ہندوستان کی تقسیم کا وقت قریب آن پہنچا ہے اور تمام ریاستوں کو اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک سے الحاق کریں یا اپنی الگ آزاد حیثیت برقرار رکھیں تو جیسا کہ کشمیر مسلم اکثریتی ریاست تھی،مگر ہندو مہاراجا پاکستان سے الحاق نہیں چاہتا تھا اور عوام ہندوستان سے الحاق پر تیار نہ تھی اس لیے عوام اس فیصلے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئی مگر جیسا کہ گلاب سنگھ نے پہلے جموں کے عوام اور لاہورکے سکھ دربار سے بے وفائی کرکے جبر وتشدد کے ذریعے جموں و کشمیر کی ریاست میں اقتدار حاصل کیا تھا اور اس کے لواحقین جانشین بن کر جاگیر دارانہ لوٹ کھسوٹ کر رہے تھے اور جاگیردارانہ نظام چل رہا تھا جو کشمیر کی تباہی و بربادی کا ایک بڑا سبب بھی ہے ۔ اس ظلم و ستم کے خلاف پونچھ کے مسلمانوں کی بغاوت آٹھ کھڑی ہوتی ہے جسےڈوگرہ فوج سختی سے کچل دیتی مگر اب مسلمانوں کے خلاف فسادات کا سلسلہ بڑھ رہا تھا چونکہ پونچھ اور جموں کے مسلمانوں کی رشتہ داریاں سرحد اور پنجاب کے دیگر علاقوں تک پھیلی ہوتی ہیں جسکے نتیجے میں قبائلی سرحد عبور کر کہ کشمیریوں کی مدد کے لیے آتے ہیں اور راجہ مدد کے واسطے ہندوستان کو پکارتا ہے اور جیسا کہ اب تک راجہ کے ساتھ الحاق کی بساط بچھ چکی تھی جسے جواز بنا کر بھارت ریاست میں اپنی فوجیں داخل کر دیتا ہے اور یہ جنگ جاری رہتی ہے ایک طرف بھارتی فوج بربریت کی حد پار کر رہا تھا تو دوسری جانب مجاہدین، کشمیر کے بہت سے علاقوں پر سے مہاراجا کا قبضہ ختم کرکے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے علاقے پاکستان کے زیر انتظام دے دیتے ہیں ، 1948 میں یہ جنگ لڑی جاتی ہے ۔ اب جب بھارتی فوج کی بات بنتی نہیں دکھائی دے رہی تھی تو اسی دوران بھارت کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ میں لے جاتا ہے ، جہاں ایک کمیشن کے ذریعے کشمیر میں استصواب رائے کا فیصلہ کیا جاتا ہے جسے اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو تسلیم کرتے ہیں اور رائے شماری کے فیصلے کی تائید بھی کی جس کے مطابق کشمیر کے عوام رائے شماری کے ذریعے پاکستان یا بھارت سے الحاق کا فیصلہ کرینگے پاکستان نے بھی یہ فیصلہ تسلیم کیا۔ لیکن بعد میں بھارت اپنے اس وعدے سے انحراف کر لیتا ہے اور نتیجتا اب تک ریاست کشمیر غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے اور اب تک کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ بھارت کا رویہ جارحانہ ہے اور جو ظلم و ستم کا علم رقم کر رہا ہے کشمیر پر غاصبانہ قبضے کو کشمیری عوام نے کبھی تسلیم نہیں کیا اسی لئے آزادی کے حصول کے لئے اب تک لاکھوں کشمیری شہید ہوچکے ہیں اور مسلسل قابض بھارتی افواج کی بربریت کا شکار ہیں ۔ہندو مہاراجہ کی ایک غلطی کی سزا کشمیری عوام پچھلے ستر سال سے بھگت رہی اور قربان ہو رہی ہے ۔ ماضی کی غلطیوں سے ملنے والے نقصانات سے بچنا بہت مشکل ہوتا ہے پاکستان کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہیئے اور تمام ریاستوں کو برابر حقوق دینے ہونگے تاکہ مستقبل میں آنے والی نسلوں کو ہماری غلطیوں کی سزا نہ بھگتنی پڑے ۔۔ ہر سال 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے اور یہ عہد کیا جاتا ہے کہ اس تحریک آزادی میں ہم کشمیریوں کے ساتھ ہیں ۔ نئی نسلوں کو بھی اس کا مقصد اور اہمیت معلوم ہونا بہت ضروری ہے ۔کشمیری عوام پچھلے ستر سالوں سے آزادی کی تحریک لڑ رہے ہیں اور اب تک ہزاروں جانے قربان کر چکے ہیں ۔ 2016 میں یہ تحریک شدید زور پکڑتی ہے جب حریت پسند رانما مظفر وانی کو شہید کیا جاتا ہے تب سے لے کر اب تک تحریک بڑھتی جا رہی ہے ۔ ماں بہنیں، بھائی باپ سب آزادی کی خاطر قربان ہو رہے ہیں ،کئی گھر اور خاندان نظر آتش ہو چکے ہیں ، جنت نظیر وادی میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے ۔صرف 2018 میں پانج سو سے زائد کشمیریوں کو موت کی نیند سلایا جاتا ہے یہ ظلم ستم کی انتہائی تصویر ہے جتنی فوجیں کشمیر میں تعینات ہیں اتنی شاید ہی کسی اور خطے میں ہو مگر یہاں فوج حفاظت کے لیے نہیں ظلم و ستم کی داستانیں رقم کرنے کیلئے ہے ۔ جناب والا یہ مسئلہ صرف کشمیر کے لیے نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے نقصان دہ ہے ۔پاکستان اور ہندوستان نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے اور اس کی سزا کشمیری عوام بھگت رہی ہے دونوں ممالک آپس میں الجھ رہے ہیں مگر کوئی کشمیری عوام سے پوچھ ہی نہیں رہا وہ کیا چاہتے ہیں ۔دونوں اسے اپنہ حصہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں کوئی کشمیر سے تو پوچھے اسے کسی کا حصہ بننا بھی ہے کہ نہیں ۔ بھارت اور پاکستان سے اپنی ریاستیں سنبھل نہیں رہی ہیں ، آزاد کشمیر کی عوام کوئی اتنی خوش نہیں حکومت سے اور دوسری طرف بھارت میں سکھ برادری بھی انتہائی مایوس دکھائی دیتی ہے ۔۔ یہ مسئلہ تب تک نہیں حل ہو سکتا جب تک دونوں حکومتیں سنجیدگی کے ساتھ اسے طے کرنے کا فیصلہ نہیں کر لیتی ہیں اس کے لیے دونوں ممالک کو اپنے مفادات کو پیچھے چھوڑ کر ریاست کشمیر کے مفاد کو دیکھنا ہوگا کیونکہ کشمیر میں امن و امان سے ہی خطے میں امن قائم ہو سکتا ہے وگرنہ یہ نسور کی طرح دونوں ممالک کو تنگ کرتا رہے گا اور کشمیر کی حسین وادی آزادی کے حصول کے لئے جلتی رہے گی۔
بھارت کا ریاست میں ظلم و بربریت کی تصویر کھینچی ہوئی ہے جو انتہائی گری ہوئی حرکت اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ ظلم و ستم بڑھ رہے ہیں جو خود کو سیکولر ملک کہلوانے والے بھارت کی دوکھلے اور مکار چہرے کی وضاحت کرتا ہے ۔ خود کو امن و امان کا محافظ کہنے والا امریکہ اور اقوام متحدہ نجانے کیوں اس معاملے میں منہ میں انگلی دیئے بیٹھی ہے حالانکہ انہیں ساری دنیا کے امن فکر رہتی ہے مگر جب مسئلہ مسلمانوں کا آتا ہے تب انسانی حقوق نجانے کہاں چلے جاتے ہیں ۔ مگر ایک بات تو طے ہے کہ آزادی کی تحریک اب روکنے والی نہیں ہے اور اس کے لیے پاکستانی عوام بھی کشمیریوں کے ساتھ ہے مگر دیکھنا تو یہ ہے کہ بھارت کب تک بربریت کی تصویر بنا پھرتا ہے اور عالمی طاقتیں کب تک خاموش رہتی رہتی ہیں ۔پاکستان کو بھی کشمیر کے متعلق اپنے موقف کو واضح کرنا ہوگا اور اسے دنیا کے سامنے لانا ہوگا اور
دہشت کی تصویر بنی جنت نظیر وادی میں خون کی ہولی بند کروانا ہو گی وگرنہ حالات کی سنگینی کو کوئی نہیں روک سکتا ہے اور یہ بات کشمیر کے لیے نہیں پورے خطے کے لیے تباہ کن ثابت ہو گی ۔

Short URL: http://tinyurl.com/y6u3hy8w
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *