جاوید اختر چودھری کا ٹھوکا ! (حصہ دوم )۔۔۔۔ تحریر: اختر سردار چودھری

Akhtar Sardar Chodhary
Print Friendly, PDF & Email

قارئین جاوید اختر چودھری کے افسانوی مجموعے ٹھوکا پر تبصرے کی دوسرا اور آخری حصہ پیش خدمت ہے ۔\” باشٹر 16\” صفحات پر مشتمل ایک لاجواب افسانہ ہے ۔یہ ایک پاکستانی ماسٹرفضل دین کی کہانی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ اس سے کم پڑھے لکھے یا ان پڑھ بیرون ملک جا کر اس سے کہیں زیادہ امیر ہوچکے ہیں اور وہ گاؤں میں ٹھاٹ سے زندگی گزار رہے ہیں تو وہ امیر بننے کے لیے اپنی زمین بیچ کر برطانیہ جا پہنچتا ہے ۔وہاں جا کر بے کاری کے دن ،پھر ایک فیکٹری میں ذلت آمیز نوکری جس میں ایک سفید فام سپروائزراسے باشٹر(باسٹرڈ) کہ کر بلاتا ہے تو وہ حیران ہوتا ہے کہ اسے کس نے بتایا کہ وہ پاکستان میں ماسٹر تھا ۔ جب اس بات کا علم ہوا تو اس نے نوکری چھوڑ دی ۔اب شدید محنت اور ذلت آمیز زندگی شروع ہوتی ہے۔ قصہ مختصر اچھی نوکری مل جاتی ہے ، ،شادی کرتے ہیں ،پیسے کمانے ،بچانے لگتے ہیں ،پاکستان میں جائیداد بناتے ہیں، ۔جس پر ان کے عزیزقبضہ کر لیتے ہیں ،کہانی اپنے انجام کی طرف بڑھتی ہے،جائیداد سے قبضہ چھڑوانے کے لیے ان کا ایک شاگرد میدان میں آتا ہے ،جو ان کی جائیداد بیچ تمام رقم لے کر رفو چکر ہو جاتا ہے ۔تب وہ خود کو باشٹر کہتے ہیں ۔بیرون ملک رہنے والوں کے ساتھ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے ۔چند دن قبل جب چودھری سرور نے گورنر کے عہدے سے استعفیٰ دیا تو اس بات کا اعتراض کیا کہ تارکین وطن کے ساتھ پاکستان میں فراڈ ہوتا ہے جس پر پاکستان کے مشہور کالم نویس نذیر ناجی نے کالم لکھا اور بتایا کہ ان کی اپنی جائیداد پر قبضہ ہو چکا ہے جسے وہ قبضہ مافیا سے چھڑا نہیں سکا ۔جناب چودھری سرور نے اپنے javid akhtr chخطاب میں یہ بھی کہا کہ پاکستان میں قبضہ مافیا اس کے گورنرسے زیادہ طاقت ور ہے ۔
\”وہ حشر بلا خیز\” 17 صفحات پر مشتمل افسانہ ہے ۔بابر علی کی سرگزشت ،اس کے اندر ایک نفسیاتی گرہ بچپن میں بن جاتی ہے ،مردانہ سفاکیت کی ،وہ جب بیرون ملک جاتا ہے تو تھوڑے عرصے بعد برمنگھم برطانیہ میں نیو گلوبل ٹریول سروس سے اپنے کام کا آغاز کیا ،کام بدلتا رہا ،ترقی کرتا رہا ،جب آمدن وسیع ہوئی تو عیاشی کے لیے وہ ملک ملک پھرتا ہے ،اس دوران بہت سے مناظر ،واقعات ،کہانی کا حصہ بنتے ہیں ۔کہانی کا انجام بچپن میں اس کے ذہین میں بیٹھ جانے والی نفسیاتی گرہ کی وجہ سے اسے جیل ہو جاتی ہے ۔اس کہانی پر تبصرہ یہ ہے کہ کوئی تبصرہ نہ کیا جائے ۔بلکہ اسے پڑھا جائے اردو ادب کے افسانوں میں یہ ایک بہترین افسانہ ہے ۔جس میں جنسی آسودگی کی تلاش جیل تک لے جاتی ہے ۔ان افسانوں میں سے ایک جس کا انجام چونکا دینے والا ہے اور آخری سطر تک قاری کا تجسس برقرار رہتا ہے ۔
\”اندر اور باہر کا موسم\” 18 صفحات پر مشتمل افسانہ ملک نثار کی زندگی کی کہانی ہے اسے افسانہ کہنا چاہیے یا مختصر ناول ،اسے کہانی بھی کہا جا سکتا ہے ۔حیرت انگیز انجام کی حیرت انگیز کہانی ہے شروع کے دو صفحات بور کرتے ہیں۔ملک نثار ایک عاشق مزاج انسان ہوتے ہیں ،پاکستان میں بہت سے معاشقے کیے ،اور بہت سی خواتین سے تعلقات رہے ،برطانیہ جا کر بھی ان کا یہ شغل جاری رہا ان دنوں پاکستان میں ایک رجو نام کی لڑکی سے اس کا معاشقہ چل رہا تھا،رجو سے باتیں کرنے کے دوران اسے پتا چلتا ہے کہ ماضی میں رجو کی ماں اور ساس سے بھی ملک کے تعلقات رہ چکے ہوتے ہیں یہ بات وہ رجو کو بتا بھی دیتا ہے پھر کہانی جب مزید آگے بڑھتی ہے ۔سگریٹ ،شراب نوشی اور عورت سے بہت زیادہ اختلاط آخر کار رنگ لا کر ہی رہتا ہے چنائچہ ان تینوں نے اس کے اعضا پر اثر انداز ہونا شروع کر دیا تھا ،اس کے ہاتھوں میں رعشہ پیدا ہوگیا تھا اور اس کی یادداشت بھی متاثر ہونے لگی تھی ۔ ،رجو کو ملک نے اپنی بیماری کے متعلق بتایا وہ اپنا گردہ دینے برطانیہ آنے کا اظہار کرتی ہے ،جسے ملک شش و پنج میں قبول کر لیتا ہے ۔رجو برطانیہ آ جاتی ہے ۔اس وقت ملک جو خود کو پلے بوائے سمجھتا تھا ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا ہوتا ہے ۔thokaرجو سے مل کرملک پر ایک بھیانک انکشاف ہوتا ہے کہ رجو اس کے پہلے پہلے پیار کی یادگار ہوتی ہے ،رشتے میں اس کی بیٹی،وہ رجو سے کہتا ہے کہ اب اس کو گردے کی ضرورت نہیں ہے اس کی باقی جو زندگی ہے رجو بس اس کے سامنے رہے ،رجو کے دل میں اپنے باپ کے لیے دل میں نفرت تھی ،اور ہمدردی تھی ۔لیکن ایک رات ملک کی طبعیت بہت خراب ہو جاتی ہے ۔رجو سے اس کی بے بسی دیکھی نہیں جاتی ۔اضطراری حالت میں رجو نے تکیہ اٹھایا ،ملک کے منہ پر رکھا ،دبائے رکھاجب تک ملک کا جسم ساکت نہ ہو گیا ۔قانون کے سامنے یہ سوال ہے کہ ملک نثار کی موت قتل رحمی تھا یا کچھ اور ۔ ۔۔\”ہنر مند \”،اور \”تصویر کائنا ت کا ایک رنگ \”،ان میں ہر افسانہ 24 صفحات پر مشتمل ہے ۔ہنر مند کا موضوع لالچ ہے جس میں لوگوں کو لالچ دے کر لوٹتا ہے ۔ہوتا یہ ہے کہ مصنف خود اس کو نصیحت کرتا رہتا ہے کہ بیرون ملک جا کر کوئی ایسا ملک کی بدنامی والا کام نہ کرناچاہیے وغیرہ لیکن کہانی کا انجام یہ ہے کہ مصنف خود بھی لالچ میں آکر لٹ جاتا ہے ۔اس کہانی کا صرف ایک پہرہ گراف لکھ رہا ہوں تا کہ قاری اس کے ذائقے سے لطف اندوز ہو سکیں ۔اس پر بس یہ ہی کہنا ہے کہ باقی کہانی بھی ایسی ہی ہے ۔تو سنیں ۔کہانی کا ہیرو شیرازی مصنف سے سوال کرتا ہے کہ انکل سوچ کر بتائیں کہ جو شخص وعدے کرے اور اپنے وعدے کو ایفا نہ کرے ،جو پرائیویٹ طور پر کام کرے لیکن حکومت سے بیروزگاری الاؤنس لے ،جس ملک میں قانون کی بالا دستی ہو ،وہاں وہ کھلم کھلا قانون کی خلاف ورزی کرے ،جو تندرست و توانا ہو لیکن حیلے بہانوں سے معذوری الاؤنس حاصل کرے ،جو قرضہ لے اور واپسی کا نام نہ لے ،جو انشورنش کا فراڈ کرے اسے آپ کیا نام دیں گے؟صرف ایک لفظ میں جواب دیں ۔یہ کہ کر اس نے مجھے مشکل میں ڈال دیا تھا،میرے ذہین میں کئی لفظ آئے ،منافق ،ریا کار ،دھوکہ باز،فراڈیا وغیرہ وغیرہ ،لہذا میں نے مناسب جانا کہ اپنی معذوری کا اعتراف اور اظہار کروں اور اس سے ہی جواب دریافت کروں چنا نچہ میں نے کہا ۔۔اس وقت میرے ذہین میں کوئی ایک ایسا لفظ ابھر نہیں رہا ہے ۔شیرازی نے مسکراتے ہوئے کہا ،میں بتاتا ہوں انکل اسے پاکستانی کہتے ہیں ۔ تجسس اس افسانے کا اہم ترین خاصہ ہے ۔جو قاری کی توجہ بٹنے نہیں دیتا ۔اور انجام چونکا دینے والا ہے ۔
\”تصور کائنات کا ایک رنگ\” وہ واحد افسانہ ہے ابھی میں نے اس کا مطالعہ نہیں کیا کہ مبادا کتاب ختم نہ ہو جائے۔۔ ۔اس افسانوی مجموعے
میں پردیس میں بسنے والوں کے مسائل ،مثکلات ،مصائب ،جذبات و احساسات ،ان کی اچھائیاں ،برائیاں مثلا اس افسانوی مجموعہ ٹھوکا میں کل پندرہ افسانے ہیں جن میں سے 14 افسانوں کے کردار ایسے ہی ہیں ۔واحد افسانہ ٹھوکا ہے جس کا کردار پاکستانی ہے ۔اور یہ کمال کا افسانہ ہے جو ہر لحاظ سے ،ہر معیار سے ،ایک ناقابل فراموش افسانہ ہے ۔ترکھان جن کو معاشرے میں کمی سمجھا جاتا ہے ۔اسے تضحیک سے ٹھو کا کہا جاتا ہے ۔ایک ترکھان کا بیٹا پڑھ لکھ کر بن جاتا ہے اسے اس کا عملہ پیٹھ پیچھے ٹھوکا کے نام سے پکارتا ہے ایک دن وہ خود سن لیتا ہے تو بجائے احساس کمتری کا شکار ہونے کے وہ اس نام کو اپنے نام کا حصہ بنا لیتا ہے ۔لکھاری خود بھی اپنی تحریر میں چھپا ہوتا ہے ۔ اس افسانے سے تو یہ ہی ظاہر ہوتا ہے ۔کہ لکھاری کا اپنا واقعہ ہے ۔مذکورہ کتاب میں سب افسانے ایسے ہیں جن کو موجودہ عہد کے بہترین افسانے قرار دیا جا سکتا ہے ،ٹھوکا ،باشٹر اور وزیٹنگ کارڈ ۔ تو خاصے کی چیز ہیں ۔اور زلزلے کے بعدایسا افسانہ ہے جسے میں تو مدتوں فراموش نہ کر سکوں گا ۔افسانوں کے اس مجموعہ کا انتساب ۔۔محبت کے نام ہے جس کی تشریح ممکن ہی نہیں ۔علم و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں سے گزارش ہے کہ ایک بار جاویداختر چودھری کے افسانوں کا مطالعہ ضرور کریں ۔
میری طرف سے جناب جاوید اختر چودھری کو اتنی بہترین کتاب لکھنے پر مبارک باد ۔ (ختم شد)۔

Short URL: http://tinyurl.com/hyfbdhb
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *