تحریک آزادی کے جہد مسلسل میں تبدیلی

Hafeez Khatak
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: حفیظ خٹک
برصغیر کی تاریخ میں 1857کا سال مسلمانوں کے دور حکومت کا آخری اور انگریز دور کا پہلا سال تھا ۔ اس سال کے بعد برصغیر میں آنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی اپنی مخصوص حکمت عملی اور ہندؤوں کی چالبازیوں کے سبب حکمران بن گئے۔ مسلمانوں پرظلم کے پہاڑ آگرئے جن کا اس سے قبل کبھی سوچا بھی نہ گیا تھا ۔ انگریزوں کے اس نئے دور کے بعد مسلمان تین عدد مختلف دوراہوں سے گذرے ۔ پہلا دور مظلومیت سے شروع ہوتا ہے جس میں انگریزوں ،ہندؤوں اور سکھوں نے مل کر مسلمانوں پر ظلم کی انتہا کردی تھی ، دوسرا دور پہلے دور کی کیفیت کی کیفیت ،اسباب و وجوہات کو سمجھ لینے کے بعد اسی کیفیت کو برقرا ر رکھنے اور کہیں کہیں اس کیفیت سے نکلنے کے دور پر مشتمل ہے ۔ اس دور میں حقیقی تبدیلی کی جانب مسلمانوں کے اندر جذبات اس وقت کے اکابرین نے اٹھانے اور انہیں جلا پہنچانے کیلئے اپنے کرداروں سے سے کئے۔ دوسرے دور میں مسلمانوں کے رہنماؤں نے کلیدی کردار ادا کی جسے تاریخ سنہرے الفاظ میں یا د رکھے گی۔ تیسرا دور وہ دور تھا کہ جب مسلمانوں کے رہنماؤں نے اپنی جہد مسلسل کے ذریعے مسلمانوں میں ان کے اندر کی مسلمانیت کو بیدار کیا اور اس کے ساتھ زندگیوں کو اسلام کے مطابق گذرنے کیلئے اک الگ وطن کے حصول کا جذبہ بیدار کیا ۔ یہ تیسرا دور اک طویل سوچ بچار کے بعد کئے گئے فیصلے کے حصول کی جانب آگے بڑھنے کا دور تھا ۔ اس دور میں جب برصغیر مسلمان یہ طے کر چکے تھے کہ انہیں اک ایسا وطن چاہئے جہاں وہ اسلام کے مطابق اپنی زندگیوں کو گذاریں بس یہ مقصد کیلئے وطن عزیز پاکستان کا حصول ممکن ہوا اور یہ پاکستان نظریاتی طور پر معرض وجود میں آیا ۔ واحد ملک ہے کہ جس کی تعمیر میں کسی نوعیت کی جنگ رونما نہیں ہوئی تاہم بھارت کے ہندؤوں اور سکھوں نے اپنی برسوں کی محکومیت کا بدلہ جس انداز میں لیا وہ قابل مذمت ہے تاہم اس کے باوجود قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں آزادی کی تحریک آزادی اک طویل لیکن مکمل جہد مسلسل کے بعد کامیاب ہوئی اور دنیا کے نقشے پر پاکستان کی صورت میں اک نئے دیس کااضافہ ہوا ۔ 
حافظ سعید وہ مرد مجاہد ہیں جنہوں نے ہمیشہ اسلام کی خدمت کرنے کے ساتھ دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم ہوا ہے اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ کشمیر کی آزادی کی تحریکوں کی ہر طرح سے حمایت کی جس مجاہدین کے مناصب رہنمائی سمیت مکمل خوصلہ افزائی بھی سامن آئی ہے ۔انہی حافظ سعید نے 2017کے سال کو کشمیر کیلئے اہمیت کا حامل سال قرار دیا اس کے بعد سے یا اس سے قبل کشمیر کی تحریک آزادی جس انداز میں آگے کی جانب بڑھ رہی تھی اس میں مثبت انداز میں تبدیلی آئی ، مجادہدین کی مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں تک آزادی کی اس تحریک میں شامل ہوگئیں ۔ جس کے جذبات و احساسات دیکھ کر بھارتیوں کی سات لاکھ فوج بھی مایوں ہوچکی ہے ۔ تحریک آزادی جاری ہے اور یہ اس وقت تک جاری رہگی جب تک اس کے مقاصد حاصل نہیں ہوپاتے۔جہاں تک حافظ سعید کی نظر بندی کا تعلق ہے تو ان کی نظر قابل مذمت ہے تاہم ان کی نظر بندی سے بھی آزادی کی تحریک پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے ۔ بلکہ یہ تحریک پہلے کی نسبت سے اور تیزی سے آگے بڑھی ہے۔ 
جہد مسلسل کی اس تحریک آزادی میں اک اور مثبت پہلو یہ ہے کہ وطن عزیز میں تبدیلی کی بات کرنے والے ، ظالمانہ نظام کی تبدیلی کیلئے کاوشیں کرنی والی پاکستان تحریک انصاف نے بھی اپنے سیاسی سفر میں تدبیلی برپا کی ہے ۔ ان کے قائد سابق پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان اور معروف سماجی و سیاسی رہنما عمران خان ہیں جنہوں نے ان دنوں اپنی تقریوں میں کشمیر میں ظلم کو ، مجاہدین کے کردار کو وہاں کی بہنوں اور ماؤں کی بہادری کو لازمی جگہ مہیا کی ہے۔ ایبٹ آباد میں جلسہ ہو یا ملک کے کسی بھی اور مقام پر عمران خان کشمیر کے معاملے پر لازمی بات کرتے ہیں اور اپنی تحریک میں رونما اس تبدیلی کا ذکر کرتے ہیں ۔ چند روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹریمپ کے دورہ سعودی عرب میں اسلامی ممالک کی کانفرنس بھی منعقد ہوئی جس میں امریکی صدر نے خطاب کیا اس تقریب میں وطن عزیز کے نواز شریف بھی شریک ہوئے تاہم انہیں نہ اظہار خیال کا موقع دیا گیا اور نہ ہی سعودی بادشاہ اور امریکی صدر نے کشمیر کا ذکر کیا ۔ اس حوالے عمران خان کا یہ کہنا تھا کہ امریکی صدر نے اپنی تقریر میں نہ تو کشمیر کا ذکر کیا اور نہ فلسطین کا ،مخصوص منصوبہ بندی کو پورا کرنے کیلئے اس نے بھارت کا ذکر ضرور کیا ۔ عمران خان تبدیلی کی سیاست کے ذریعے صوبہ خیبر پختونخواہ کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں اسی طرح وہ مثبت انداز میں پور ے ملک بھی تبدیلی چاہتے ہیں ۔ انہوں نے ماضی میں کشمیر کا ذکر اپنی تقریروں میں اس قدر نہیں کیا ہوگا جس قدر وہ اب مظلوم کشمیریوں کا ذکر کرتے ہیں ۔ 
بھارت اپنے جاسوس کو چھڑانے کیلئے عالمی عدالت جاسکتا ہے ، پاکستان کی سرحدوں پر بمباری کر سکتا ہے اور اسی طرح کی بے شمار کاروائیاں کرتا ہے لیکن اس نے آج تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہونے دیا اور نہ ہی امریکہ نے اس معاملے میں کوئی خاص معاونت کی ہے ۔ برسوں سے امریکہ میں مظلوم قیدی کی حیثیت سے زندگی گذارنے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے عافیہ موومنٹ اگر حکومت یہ عالمی عدالت میں جانے درخواست کرسکتی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے عالمی عدالت کا رخ کیونکر نہیں کرتا ؟
پوری پاکستانی قوم کو اس بات کا یقین ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اور پوری قوم یہ چاہتی ہے کہ کشمیر کو جلد آزادی ملے اور وہ پاکستان کا حصہ بن کی زندگی کو گذاریں لیکن دوسری جانب بھارت کی عوام ایسا نہیں چاہتی ، مودی کو اس بات علم ہے کہ ان کے ملک میں کتنی علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں باوجود کاوشوں کے وہ ان تحریکوں کو دبا نہیں پائے ہیں اور ان شاء اللہ نہ ہی کشمیر کی تحریک کو دبا سکیں گے ۔ وہ وقت جلد آنے والا ہے کہ جب کشمیر کی آزادی کیلئے جاری جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوگی اور مقبوضہ کشمیر آزاد کشمیر کا حصہ بن کر اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ ان شا ء اللہ 

Short URL: http://tinyurl.com/y9tq7cw8
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *