“اے” اور “بی” گریڈ

Hadayat Ullah Akhtar
Print Friendly, PDF & Email


کہانی بنتی ہے یا کہانیاں بنائی جاتی ہیں لیکن میں آج جو کہانی آپ کو سنا رہا ہوں وہ ایسی کہانی ہے جو میری چشم دید ہے ۔ہوا یہ کہ اتوار کے دن کسی بزرگ اور جاننے والے کی موت پر تعزیت کرنے اپنے بیٹے اور بھائی کے ہمراہ تعزیت والے گھر پہنچا اور پھر اس کے بعد ایک دم سے پروگرام بنا کہ چند عزیز وں کی خریت بھی دریافت کی جائے اسی نیت سے چل پڑے اور اپنی ایک بہن کے گھر کے پاس گاڑی روک دی اور جونہی ہم دروازے کو دستک دینے ہی والے تھے شینا الفاظ کانوں سے ٹکرائے ۔ایت توم شش کھیگا۔نے ہنو بو شوا۔روک کھا ۔نے جالو بو شوا تو۔ ان الفاظ کا سننا ہی تھا کہ میرے دروازے کو دستک دینے والے ہاتھ خود بخود رک گئے سوچ میں پڑگیا کہ معاملہ کیا ہے پہلے تو سوچا کہ یہاں توگھن گرج اور موسلا دھار بارش ہے واپس چلا جائے پھر خیال آیا دیکھیں ہمارے اس پیاری بہن کے ساتھ کونسا ایسا واقعہ پیش آیا ہے جو اس کی طبعیت پر گراں گزرا ہے اور وہ یہ جلی کٹی سنانے پر مجبور ہوئی ہے ۔۔جی ہاں شینا کے جو الفاظ مذکور ہوئے ہیں انہیں جلی کٹی ہی کہا جاتا ہے ۔اندر جاکر جو حال معلوم ہوا اس کا ذکر چھیڑنے بیٹھ جائوں تو میرا یہ کالم کالم نہیں ایک کتابچہ بن جانے کا خدشہ ہے۔ اس لئے طوالت سے بچنے کے لئے ۔جلی کٹی سنانے کی وجہ پر اکتفا کرونگا۔اس جلی کٹی کا کارن اس کا کلاس 3 میں پڑھنے والا بچہ تھا جس کے ہاتھ میں اس کا رزلٹ کارڈ تھا ۔میں نے بچے کےہاتھ سے اس کا رزلٹ کارڈ اپنے ہاتھ میں لیا اور دیکھا تو بچہ اچھے نمبروں میں پاس تھا ۔میں نے بہن سے کہا کیوں بہنا بچہ تو پاس ہوا ہے پھر تمھاری یہ جلی کٹی کس لئے ۔وہ بولی” کاکا دیکھیں نا اس کے ساتھیوں کے اس سے اچھے نمبر ہیں یہ “بی”گریڈ بھی کوئی گریڈ ہے ساتھ والے ہماسیے کے بچے نے سو فیصد نمبر حاصل کئے یہی نہیں “چلو” کاکا کے بیٹے کے بھی ان سے زیادہ نمبر آئے ہیں ۔دیکھیں نا اسے میں نے اچھے اور مہنگے فیس والے سکول میں داخل کرایا اور ساتھ میں ٹیوشن بھی رکھا ہوا ہے اس کے باوجود اس کا “بی” گریڈ۔اب آپ ہی بتائیں کہ میں اس کو جلی کٹی نہ سنائوں تو اور کیا کروں” باتوں میں اسے سلام کرنے تک بھی یاد نہ رہا تھا جب یہ باتیں ہو رہی تھی تو اسے شائد آیا تھا وہ بولی السلام علیکم کاکا پھر خریت بھی پوچھی اور ہماری خاطر مدارت بھی ۔اس واقعہ کو لکھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ آج کل پرائویٹ اور سرکاری سکولوں میں نتائج کا سلسلہ جاری ہے اور ہر بچہ اور والدین بچوں کے رزلٹ بارے شاباشی و جلی کٹی سنانے کے موسم سے لطف اندوز اور پریشانی سے دو چار ہیں ۔ممکن ہے کہ ہر گھر میں میری بہن والا معاملہ نہ ہو کئی والدین نے اپنے بچوں کے کم نمبر آنے کی شکایت اور ان کو جلی کٹی سنانے کے بجائے حوصلہ افزائی کی ہو لیکن اس معاشرے میں اس کی امید کم ہی کی جا سکتی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اس جدید دور میں ہم سب والدین جھوٹی انا اور اس مرض کا شکار ہیں۔ ہمارا سارا دار مدار گریڈ پر ہی ہے۔ نظام تعلیم کا حال بتانے کی ضرورت نہیں اس کی شکل اور ہیت سے سبھی واقف ہیں کہ ہمارا یہ نظام تعلیم کس نہج پہ کام کرتا ہے اس نطام مین رٹنے کی صلاحیت تو موجود ہے لیکن قابلیت اور ذہانت کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔دیکھا جائے تو یہ نتائج کارڈ اور رپورٹس ذہانت اور قابلیت کا معیار نہیں ان کا تعلق صرف کلاس کی تبیلی سے ہے ۔اس پہ بس نہیں سرکاری اور پرائیوٹ سکولوں میں اپنے نتائج بہتر بنانے کے لئے جو طریقہ کار اپنائے جاتے ہیں ان کا ذکر کرکے آپ کی طبعیت کو بھاری کرنا نہیں چاہتا اور پرہیز کرنا اس لئے بھی بہتر ہے کہ تعلیم کے بڑے بڑے داشور اور ماہرین اپنی اعلیٰ ڈگریوں کے کمان سے تعلیمی فارمولوں کے تیروں کی بارش نہ کر دیں ۔گلگت میں ایک مقامی چینل ہے ہنی سارا اس کا ایک پروگرام دیکھ رہا تھا اس میں اینکر کسی ایک مقام پر کسی سکول کے بچوں جس مین کلاس ون سے سیونتھ تک کے بچے شامل تھے ان سے مختصر اور علاقائی نوعیت کے آسان سوالات کر رہا تھا لیکن اس پروگرام میں اکثریت بچے آسان اور معمولی سوالات کے جوابات دینے سے قاصر رہے ۔مجھے نہیں معلوم ان میں کتنے بچے” اے” گریڈ اور “بی” گریڈ یا “سی” کے حامل تھے ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں جو معیار اپنانا چاہئے تھا اس سے ہم کوسوں دور ہیں ۔ہم اپنے بچوں کے ذہنوں میں امتحان کا خوف سوار کراتے ہیں ۔ان کو اے گریڈ اور بی گریڈ کے بھول بھلیوں میں الجھا کے رکھ دیا ہے ۔یہ نہیں سوچتے کہ ہماری جلی کٹی سنانے سے بچے کی کارکردگی بہتر ہونے کے بجائے متاثرہو جاتی ہے۔دوسری بات یہ کہ کسی قسم کا خوف بچوں کی فطری صلاحیت ختم کرنے کا موجب بھی بن سکتا ہے۔ہمیں یہ سمجھنا اور جاننا ہوگا کہ جہاں اچھے گریڈ کا آنا یا لانا ایک اچھی بات ہے وہاں والدین کو بچے یا بچی کی زہانت اور اعتماد کو بحال کر نے کے نقطے کو پہلی ترجیح کے طور لینا اور پرکھنا ضروری ہے ۔میں کوئی ماہر تعلیم نہیں جو آپ کے سامنے لمبی چوڑی یا لمبی چھوڑوں جو آج کل کی حکومت چھوڑ رہی ہے ۔تھوڑا سا پڑھنے اور پڑھانےکا تجربہ ہے ۔اسی بل بوتے پر یہ چند کلمات لکھنے کے جسارت کر رہا ہوں
اپنے بچے کی کارکردگی کارڈ سے نہیں اس کی ذہانت سے لگائین
دوسروں کی کارکردگی کا احساس دلا کر اپنے بچے کو احساس کمتری مین مبتلا نہ کریں
یہ جان لیں کہ آپ کا بچہ آپ کا فخر ہے اور آپ کا بچہ سب سے اہم ہے۔جی ہاں یہ احساس ہم والدین کو سب سے پہلے اپنے دل میں جگانا اور جگہ دینا ہوگا ۔میں یہ بات آج کل کے سوشل میڈیا کے دور کو دیکھ کر ہی کر رہا ہوں جہاں ہم والدین کی اکثریت خود بھی سوشل میڈیا کی لت کا شکار ہے جس کے باعث ہمارے بچے والدین کی وہ توجہ پانے سے قاصر ہیں جو ان کو ملنی چاہئے تھی۔ہم والدین کو اپنے روٹین پر نظر ثانی کرنی پڑیگی نہیں تو بہتر نتائج آنے کی امید عبث ہوگی ۔اگروالدین کے اندر یہ احساس ہوگا تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کے بچے بہتر نتائج نہ دیں ۔یاد رکھیں کہ اولاد کی تربیت والدین کی قربانیوں سے مشروط ہے اور اس کامیابی کو پانے کے لئے ضروری ہے کہ والدین اپنی بُری عادتوں کو ترک کریں اور بچوں کی اصلاح کے لئے اپنی اصلاح کی طرف بھی توجہ دیں ۔اگر اس جذبے اور بچے کی اہمیت کا اندازہ کرتے ہوئے والدین سوشل میدیا یا دیگر کاموں میں اپنا وقت لگانے کے بجائے زیادہ وقت اپنے بچوں کے ساتھ گزارینگے تو ان کی ذہانت اور کارکردگی مین چار چاند لگ جائینگے اور وہ خود بخود ایک احساس اور خود اعتمادی کے ساتھ اگلی کلاس میں ایک نئے اور نئے جوش کے ساتھ اپنی پڑھائی کو بہتر کرنے میں محو ہو جائینگے

Short URL: http://tinyurl.com/vteklrx
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *