ایک اور ایک گیارہ

Print Friendly, PDF & Email

مصنفہ: مونا شہزاد، کیلگری، کینیڈا
زارا نے جلدی دسترخوان لگایا۔ اس نے سوچا شہاب اپنی بہنوں کو ائیرپورٹ سے لے کر پہنچتا ہی ہوگا۔اس نے ٹھنڈی آہ بھر کر سوچا دونوں آپا اور ان کے گھر والوں کے لئے تو قرض پکڑ کر کپڑے لے لئے ہیں مگر میرے بچے اس دفعہ بھی نئے کپڑوں سے محروم رہیں گے۔ اب تو عید میں صرف چار روز رہ گئے ہیں۔ اتنے دنوں میں تو اب کچھ نہیں ہوپائے گا۔زارا کا تعلق ایک مڈل کلاس گھرانے سے تھا۔اس نے بی ایڈ مکمل ہی کیا تھا تو اس کی شادی ایک مڈل کلاس گھرانے میں ہوگئی۔شہاب کا چھوٹا سا ذاتی مکان تھا۔ شادی کے کچھ عرصے کے بعد اس کی ساس گذر گئیں۔شہاب کی دونوں بہنیں دبئی میں بیاہ کر گئی تھیں۔اس لئے سالوں پیچھے ہی ان کا چکر لگتا تھا۔شہاب ایک فیکٹری میں سپروائزر کی نوکری کرتا تھا۔شادی کے شروع کے دنوں میں تو اس کی آمدنی ضرورت سے زیادہ ہی محسوس ہوتی تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مہنگائی کا جن بے قابو ہوتا گیا پھر اللہ نے ان کو پانچ بچے بھی عطا کردیے۔ان کے آنگن میں جہاں رونق بڑھی وہاں ساتھ ساتھ خرچہ بھی بڑھ گیا۔ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے شہاب کی آمدنی سکڑ گئی ہو اور خرچے آسمان سے باتیں کررہے ہوں۔ زارا ایک سگھڑ اور کفایت شعار عورت تھی مگر بڑھتی ہوئی مہنگائی نے سب کی کمر توڑ دی تھی۔اس نے کئی دفعہ اپنے میاں سے نوکری کرنے کی اجازت مانگی مگر ہر دفعہ اس کے میاں کا ایک ہی جواب ہوتا نان نفقہ مرد کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ شہاب نے اس کو واضح کیا کہ عورت کی کمائی میں برکت نہیں ہوتی۔زارا بچوں کی محرومیوں کی طرف دیکھتی تو اس کا دل کٹتا۔اس کے پانچوں بچے سلجھے ہوئے اور صابر شاکر بچے تھے۔اللہ نے اسے تین خوبصورت اور ذہین بیٹیاں دیں تھیں ان کے شادی بیاہ کے اخراجات کا سوچتی تو کانپ جاتی۔اس مخمصے میں شب و روز گزر رہے تھے کہ اچانک دبئی سے شہاب کی بہنوں نے اطلاع دی کہ اس دفعہ وہ عید ان لوگوں کے ساتھ کریں گی۔زارا کی پریشانی اور بڑھ گئی اس کی نندیں اتنے سالوں بعد اس کے گھر عید کے موقعے پر آرہی تھیں۔اسی پریشانی میں دن گزر گئے اور آج بڑی اور چھوٹی آپا کی فلائٹ تھی۔دونوں آپا ہی سوٹ کیس بھر کر بچوں اور بھائی بھابھی کے لئے تحائف لائی تھیں۔زارا سوچ رہی تھی کہ اس نے جو کپڑے آپا اور ان کے بچوں کیلئے خریدے تھے وہ ان کے شایان شان ہرگز نہیں تھے۔ رات کھانے کے بعد جب وہ اور شہاب آرام سے آپاؤں کے پاس بیٹھے تو پتا چلا کہ دونوں آپا دبئی کے ایک سکول میں پڑھاتی ہیں۔ان دونوں نے بتایا کہ ایک اکیلے انسان کی کمائی میں برکت نہیں ہے مگر ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں۔شہاب نے نان نفقے کی ذمہ داری کا ڈھول پیٹنے کی کوشش کی نیز اس نے کہا کہ عورت کی کمائی میں برکت نہیں ہے۔ تو بڑی آپا نے اسے چپ کروادیا۔انھوں نے کہاشہاب! مجھے قرآن کے حوالے سے بتاؤ اگر اللہ نے عورت کی کمائی کو بے برکت قرار دیا ہے؟عورت اگر جائز حدود میں رہ کر کام کرئے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔اسلام ہاتھ پھیلانے کو برا سمجھتا ہے رزق حلال کمانے کی ممانعت نہیں کرتا۔انھوں نے کہا کہ شہاب اگر زارا کو تم نے کام کرنے کی اجازت دی ہوتی تو آج تم یوں قرض میں نہ بندھے ہوتے۔ شہاب نے بے ساختہ ان سے پوچھا کہ وہ کیسے اس بات سے واقف ہیں؟بڑی آپا نے ہنس ہنس کر کہا بھائی میں تمھاری شکل دیکھ کر تمھاری پریشانی پڑھ سکتی ہوں۔میں نے تمھیں پالا ہے۔دونوں آپا نے شہاب کے ہاتھ کچھ رقم رکھی اور اس کو کہا کہ وہ اوپر منزل ڈال کر زارا کو اسکول کھولنے دے۔ جب پیسے ہوں تو قرض واپس کردے۔دونوں آپا کی موجودگی میں ہی کام شروع ہوگیا۔پھر زارا نے اسکول کھول لیا۔وہ ضرورتمند اور غریب بچوں کا خاص خیال رکھتی۔صدقہ ہمیشہ اپنی کمائی سے پہلے نکالتی اللہ نے اس کی آمدنی میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کردی۔اب وہ ایک متمول علاقے میں نہ صرف اپنے گھر کے مالک تھے بلکہ آج پانچ سال بعد زارا کے سکول کی بڑی اور نئی عمارت کی افتتاحی تقریب تھی۔
سچ ہی کسی نے کہا ہے اتفاق میں برکت ہے۔ ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں۔اب یہ آپ پر ہے کہ فرسودہ سوچ کے تحت عورت کو کام کرنے سے روکے رہیں یا اس کی طاقت بن کر اس کے ساتھ کھڑے ہوں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ شاید بہت سے لوگ مجھ سے اتفاق نہ کریں۔مگر ملک کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ آبادی کا آدھا حصہ جو عورتوں پر مشتمل ہے وہ بھی کام کرئے۔اس کے لئے مخلوط دفاتر میں کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔گلی محلے میں اگر فیکٹریاں اور ورکشاپس صرف عورتوں کے لئے بنائی جائیں تو ہم بھی ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوسکتے ہیں۔

Short URL: http://tinyurl.com/y9bs4na6
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *