اُس کو چھٹی نہ ملے جس کو سبق یاد رہے۔۔۔۔ تحریر: سید صادق حسین شاہ

Print Friendly, PDF & Email

فرض کریں خون کے سرطان میں مبتلا ایک معلم چھُٹی کی عرضی تھامے اپنے افسرانِ بالا کے پاس جاتاہے تو اُسے مشورہ دیا جائے کہ حالات بہت زیادہ خراب ہیں ۹۵فیصد حاضری لازمی قرار پائی ہے۔ آپ ریٹائرمنٹ لے لیں ہم چھُٹی دینے سے قاصر ہیں۔
ذرا غور کریں کیا کسی انسان کو اس کے بنیادی حق سے محروم کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ کیا سروس رولز انسانی ضروریات کو بالائے طاق رکھ کر بنائے جاتے ہیں؟
اگر کسی کو اس بات پر اعتراض ہے کہ اساتذہ کو سال میں اڑھائی ماہ کی چھٹیاں ہوتی ہیں لہذا بقیہ ساڑے نومہینے وہ ہر حال میں سکول حاضر رہیں ، جن سکولز میں مجموعی طور پر دو اساتذہ تعینات ہوں، ایک چھُٹی پر چلا جائے تو حاضری ۵۰ فیصد ہو جائے گی۔
موسم گرما کی تعطیلات کے علاوہ سال بھر استاد بھی سماج کاحصہ ہوتاہے۔ ذاتی ضروریات اور بعض دوسرے امور کی بجا آوری کے لیے اسے دفاتر میں جانا پڑتاہے۔ تمام سرکاری اور نجی ادارے تو اتوار کو بند ہوتے ہیں۔ شادی اور موت زندگی کی اہم رسوم ہیں۔ جن میں شرکت ناگزیر ہے۔ استاد اپنے معاشرے سے کٹ کر نہیں رہ سکتا۔
وکالت اور معلمی دماغی نوعیت کے شعبے ہیں۔ قوم کی کردار سازی پر معین شخص ساڑھے نو ماہ مشین کی طرح کام کرے گا تو یقیناًدماغی اور جسمانی تھکاوٹ سے دو چار ہوگا۔
سرکار کو اگر اڑھائی ماہ کی چھٹیوں پر اعتراض ہے تو انہیں ختم کرکے دیکھ لے۔ جون ، جولائی کی جھلسا دینے والی گرمی میں جب سکول کے اوقات میں بجلی اور پانی تک میسر نہیں آئے گا تو ایک سو سے زائد بچے تنور نما کمرے میں بیٹھ کر خاک تعلیم حاصل کریں گے۔
اگست کے مہینے میں بھی ان کی حالت دیدنی تھی، پسینے سے شرابور، زرد چہرے، ایسے محسوس ہوتاتھا جیسا کہ پوری نسل ہی بیماری میں مبتلا ہوگئی ہے۔ دُور دراز سے آنے والے طلبا جن میں سے اکثریت پیدل چلنے والوں کی ہوتی ہے۔ ۴۵ ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد ٹمپریچر میں اپنا تعلیمی سفر جاری رکھنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ بڑے شہروں اور قصبات میں ٹریفک کے بے شمار مسائل ہیں۔ یہ کام اگرسرکار کے بس میں ہوتا توکب کا کر چکی ہوتی، صرف ان چھٹیوں کے باعث اساتذہ کے حقوق کا استحصال دانا لوگوں کا شیوہ نہیں ہے۔ دوسرے محکموں کاکوئی محاسبہ نہیں ہو رہا۔ اس کے باوجود جن اساتذہ کے نتائج کمزور ہیں۔ ان کی سالانہ ترقیاں روک لی گئی ہیں۔ تعلیمی عمل تو ایک ٹرائیکا کا نام ہے ۔ والدین اور طلباء کی عدم دلچسپی کا تمام نزلہ اساتذہ پر ڈالا گیا انہوں نے پھر بھی قبول کیا۔
کتابیں مفت، فیس معاف، ہر چیز مفت میں مل جائے تو ہمارے عوام تو اسے فضول چیز سمجھتے ہیں۔ سرکاری سکولز میں اچھی خاصی فیس نافذ کریں، کتابیں مفت نہ دیں تو عوام اپنے بچوں پر توجہ دیں گے۔ ہماری حکومت چائناسے زیادہ امیر ہے؟ چائنا میں ایک خاندان کا سب سے زیادہ بجٹ تو بچوں کی فیس ادا کرنے میں صرف ہو جاتاہے۔ ادھار لے کر مفت تعلیم دینے کا کیا فائدہ؟
رینکنگ کا یہ پیرا میٹر سمجھ سے بالاتر ہے کہ ۱۴ اگست کو سکول کھل رہے ہیں اور یکم ستمبر کو آنے والی رینکنگ میں آخری نمبروں پر چلے گئے۔ ۱۵ دنوں میں اتنے اساتذہ چھُٹی پر چلے گئے یا یہ رینکنگ چھٹیوں میں بھی بنتی بگڑتی رہی ہے۔
سرکار کو چاہیے کہ سروس رولز میں ترمیم کرکے چھٹیاں ختم کردے، اگر اساتذہ کو بلاوجہ تنگ کر کے نوکری سے نکالنے کا ارادہ ہے تو بعض دوسرے اداروں کی طرح وی ایس ایس سکیم متعارف کرا کر اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنائے۔
اس صورت میں پرانے استاد ریٹائرڈ ہو جائیں گے اور نئے اساتذہ کے معاہدہ ملازمت میں سے چھٹیاں نکال دے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
جن اساتذہ کے ساتھ حکومت پنجاب نے پہلے سے معاہدہ کر رکھا ہے۔ اس کی پاسداری تو کرے۔ استاد حکومت وقت سے کوئی نئی مراعات تو طلب نہیں کررہے ، جو پہلے طے شدہ ہے وہی مانگ رہے ہیں۔ جن اداروں کی مالی معاونت سے محکمہ تعلیم کے بہت سے پروگرام چل رہے ہیں جیسا کہ گولڈن براؤن فاؤنڈیشن، یونیسکو، یونیسف وغیرہ وغیرہ کیا مذکورہ تنظیموں کے اپنے ممالک میں اساتذہ کی چھٹیوں پر اس طرح کی پابندی عائد ہے، صرف چھٹیوں کی وجہ سے اگر تعلیم میں بہتری آتی ہے تو استاد بے چارے تو اس کے آگے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں۔ آفیسر کلاس تو میٹنگ ، چیکنگ کا عذر پیش کرکے نکل جاتی ہے لیکن استاد کے لیے کوئی عذر قابلِ قبول نہیں ہے۔
تعلیمی نظام تو کالجز اور یونیورسٹیز میں بہتر ہونا چاہیے۔انگریزوں نے ہمارے حکمرانوں کو الٹے کام پر لگا دیا ہے۔ تحقیق، تخلیق اور ایجادات کے مراکز تو کالج اور یونیورسٹیز ہوا کرتے ہیں۔ جن کے بل بوتے پر قوموں کی معیشت مضبوط ہوتی ہے۔ جب تک فروخت کرنے کے لیے کوئی چیز بنائیں گے نہیں تو زرِ مبادلہ کیسے آئے گا؟ پرائمری سکولز میں ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ توجہ کالج اور یونیورسٹیز پر کی جانی چاہیے۔
بیوروکریسی نے اساتذہ کے بارے میں ایک خاص روش اختیار کر رکھی ہے۔ جب کوئی استاد کسی آفیسر کے پاس اپنی فریاد لے کر جاتاہے تو وہ سب سے پہلے تنخواہ کا سوال کرتے ہیں۔ ایسے محسوس ہوتاہے کہ حکمرانوں سے اساتذہ کی تنخواہ جو کہ تیس سالوں بعد اس قابل ہوئی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ڈھنگ کی روٹی کھِلا پائے ہیں ہضم نہیں ہوپارہی ، وہ چاہتے ہیں اساتذہ کو پرانے دور میں دھکیل دیا جائے تاکہ وہ منشی کا منشی ہی رہے۔
اب ان حکمرانوں سے کوئی یہ پوچھے کہ کیا دوسرے محکمہ جات کے ملازمین سے کبھی پوچھا ہے کہ اتنی ناجائز دولت کیسے کمائی، کرپشن کا خاتمہ ہوگیاہے۔ عام آدمی کو انصاف مل رہاہے، قانون کی عمل داری قائم ہے، عوام کا جان و مال محفوظ ہے۔ ہر آدمی کو بنیادی انسانی ضروریات میسر ہیں۔ محکمہ تعلیم کے علاوہ باقی تمام ادارے اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن نبھارہے ہیں، صرف اساتذہ ہی کام چور رہ گئے ہیں۔ آئین پاکستان کے تحت تو تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی ریڑھ کی ہڈی میں تکلیف ہوتو اسے عدالت سے بھی چھُٹی مل جاتی ہے، ایک استاد بیمار ہو جائے، ٹریفک حادثے میں زخمی ہو جائے، بیوی بچے بیمار ہوں، گھر میں کسی کا جنازہ پڑا ہوا ہو۔ ایک استانی زچگی کے جان لیوا عمل سے گزر رہی ہوتو بھی اسے ہر حال میں سکول جانا ہے۔
کیا یہ ملک صرف ملک لوٹنے والوں کے لیے بنا ہے، عام آدمی ان کی عیاشیوں کے لیے کمائے اور یہ ملکی وسائل لوٹ کر ملک سے فرار ہو جائیں۔
۲ نومبر ۲۰۱۵ء کو ای ڈی او ہیلتھ نے ڈی ایچ کیو، ٹی ایچ کیوز اور آر ایچ سیز کو ایک چٹھی جاری کی جس میں تمام ڈاکٹر صاحبان کو ہدیات دی گئی کہ محکمے کے سربراہ کی اجازت کے بغیر کسی ملازم کو چھُٹی نہ دیں۔ جاری شدہ ڈاکٹ کی جانچ پڑتال فوکل پرسن کرے گا۔ اس کے بعد ایم ایس کا ؤنٹر سائن کریں گے۔ پرائیویٹ ڈاکٹر میڈیکل سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کا مجاز نہیں ہوگا۔
۴ نومبر ۲۰۱۵ ء کو ای ڈی او ایجوکیشن نے ایک چٹھی جاری کی جس میں کہاگیاکہ میڈیکل کے علاوہ چھٹی نہ دیں، میڈیکل کے لیے پیشگی اجازت نامہ حاصل کیا جائے۔ دو نومبر کو ڈی سی او میانوالی نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اساتذہ کی چھٹیوں پرخصوصی نظر رکھی جائے تاکہ ۹۵ فیصد حاضری کو ممکن بنایا جاسکے۔
میڈیکل سرٹیفیکیٹ کا حصول اتنا مشکل بنا دیا گیاہے ، اُس استاد کو چھُٹی ملے گی جو یہ تمام پیچیدہ عمل مکمل کرپائے گا، ایک دن کا کام توہے نہیں، چھٹی کا اجازت نامہ حاصل کرنے کے لیے تو ایک ہفتہ درکار ہوگا۔ ڈی سی او صاحب نے ۳۰۲ اساتذہ کا ذکر کیاہے۔ مجموعی تعداد لگ بھگ ۶۷۳۴ ہے، یقیناًان میں سے خواتین اساتذہ بھی ہونگی۔ میٹرنٹی اور حج کی چھُٹی ہوگی، حادثہ، بیماری، موت کچھ بھی ہو سکتاہے۔ انسانی تقاضے ہیں ان کو جھٹلایانہیں جاسکتا۔ ویسے بھی یہ تعداد اور روڈ میپ کے زیادہ قریب ہے یعنی مجموعی تعداد کا ۴ فیصدہے۔
حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ نظام تعلیم میں بہتری لانے کے لیے اساتذہ کو دوستانہ، خوشگوار تعلیمی ماحول فراہم کرے۔ ایسے سکول جہاں تعلیمی عمل بہتر چل رہاہے ان کی حوصلہ افزائی کرے۔ وہ اساتذہ کرام جو مستقل سکول نہیں آتے، انہیں نوکری سے نکال دیا جائے تاکہ دوسرے عبرت حاصل کریں۔
والدین کا سکولز کے ساتھ رشتہ جوڑیں تاکہ طلبا تعلیم میں دلچسپی لیں۔ بچوں کا تعلیم کے بجائے سوشل میڈیا کیطرف رجحان بڑھتا جارہاہے جس کوروکنا ضروری ہے۔ سکول کے اوقات میں بجلی فراہمی ممکن بنائی جائے۔ ڈینگی، پولیو، خانہ شماری، مردم شماری، یو پی ای، یو ایس ای، ووٹ اندراج، سیلاب زدہ علاقوں کا سروے، الیکشن ڈیوٹی اساتذہ سے نہ لی جائے۔
غیر متعلقہ کام اساتذہ سے لیے جائیں گے تو یقیناًان کی توجہ اپنے اصل مقصد سے دور ہوجائے گی۔
جوہر آباد کے استاد شکیل احمد چوہدری کی درخواست پر ہائی کورٹ کے جج جسٹس مامون رشید نے مقدمہ نمبر 28761/2012 میں رخصت اتفاقیہ پر پابندی کو پنجاب سروس رولز ترمیمی 1981 کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ گویا رخصت اتفاقیہ پر پابندی توہین عدالت کے زمرے میں آئے گا۔


نوٹ: کالم کا عنوان دراصل سید طاہر علی رضوی کے ایک شعر کا مصرعہ ہے۔ مکمل شعر اس طرح ہے۔ مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا ۔ ۔ ۔ اُس کو چھٹی نہ ملے جس کو سبق یاد رہے۔ مگر بدقسمتی سے یا ناسمجھی سے یہ شعرمومن خان مومن سے منسوب کرکے کچھ اس طرح پڑھالکھا جاتاہے ۔ مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا۔ ۔ ۔ اُس کو چھُٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا۔ قارئین تحقیق کرکے تصحیح فرما لیں۔

Short URL: http://tinyurl.com/zdr6uf8
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *