اورنج لائن ٹرین لاہور۔۔۔۔ تحریر: چوہدری ذوالقرنین ہندل ،گوجرانوالہ

Ch. Zulqarnain Hundal
Print Friendly, PDF & Email

جی قارئین لاہور اورنج لائن کے بھی دو پہلو ہیں ایک اچھا اور دوسرا آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔پہلے میں آپ کو اورنج لائن ٹرین کی کچھ تفصیلات بتادیتا ہوں۔اورنج لائن ٹرین پاکستان میں نقل و حمل کا واحد تیز ترین زریعہ ہوگا۔جوکہ اکتوبر ۷۱۰۲ میں مکمل ہوگاجو ابھی تیزی سے جاری ہے جسمیں روزانہ دو لاکھ پچاس ہزار مسافر سفر کر سکیں گے اور ۵۲۰۲ تک اس بڑھا کر پانچ لاکھ تک کر دیا جائے گا۔یہ ٹریک ۷۲.۱ کلو میٹر راستے پر بچھایا جائے گا جس میں سے ۵۲.۴ کلو میٹر زمین پر اور باقی زیر زمین ہو گا۔یہ ٹریک رائیونڈ روڈ ،ملتان روڈ ،میکلورڈ ر وڈ ‘لاہور جنکشن رہلوے اسٹیشن اور گرینڈ ٹرنک کو ملائے گا۔ یہ چائینہ حکومت کی رقم سے مکمل ہوگا اور یہ پاکستان چائینہ اکنامک کوری ڈور کا حصہ ہے جو’’ایگزم بینک آف چائینہ ‘‘کی مدد سے مکمل ہو گا۔ اور یہ کوری ڈور بر وقت دو ٹرینوں کے آنے جانے کی صلاحیت رکھے گا۔ جس کے ذریعے ایک گھنٹے میں ۰۰۰۳ مسافر سفر کر سکیں گے۔ یہ پراجیکٹ میٹروبس کے افتتاح کے ۵۱ماہ بعد شروع ہوا۔ اور اس پراجبکٹ پر ۱.۶ بلین ڈالررقم خرچ ہوگی ۔یہ پراجیکٹ تعمیری مرحلے میں ہے اور ۷۲ماہ میں یہ مکمل ہوگا ۔اس پراجیکٹ میں آنے والے علاقے،علی ٹاؤن،نیاز بیگ، کینال ویو، ہنجروال،واحدت روڈ ، اعوان ٹاؤن،سبزہ زار، شاہ نور ،صلاح الدین روڈ،بند روڈ، سمن آباد،گلشن راوی ، چبرجی،انارکلی بازار،سینٹرل لکشی، لاہور ریلوے اسٹیشن، سلطان پورہ،باغبان پور ہ،اسلام پارک،ڈیرا گجراں ہیں۔فیز۱ علی ٹاؤن سے لاہور ریلوے اسٹیشن پر محیط ہے ۔جی قارئین یہ تھی لاہور اورنج لائن کی انفارمیشن۔اب میں اورنج لائن سے جڑے حقائق کی طرف آتا ہوں۔اورنج لائن ٹرین سے بہت ذیادہ مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں۔اورنج لائن پراجیکٹ لاہور کے تاریخی اور رونق والے علاقوں پر محیط ہے اور ان علاقوں میں دکانیں بازار گھر اور بہت سے ادارے موجود ہیں جن میں سے کچھ اس پراجیکٹ کی بھینٹ چڑھنے والے ہیں۔ابھی تو کام تیزی سے جاری ہے مگر جب ٹرین کے روٹ کے آس پاس کے علاقوں کو خالی کرایا جائے گا تو بہت سے لوگ نیند سے ایسے بیدار ہوں گے کہ دوبارہ نیند ہی نہیں آئے گی۔لوگوں کو دکانیں ،گھر خالی کرنا پڑیں گے نقل مکانی اور دوسری پریشانیوں سے دو چار ہونا پڑے گا۔یہ لوگ اس سے با خوبی واقفیت رکھتے ہیں مگر ابھی دھیمے ہیں ان سب کو بہت ساری تنظیموں اور اداروں کی حمایت بھی حاصل ہے کچھ لولوگوں نے تو عدالت سے سٹے آرڈر بھی لے رکھے ہیں مگر جیسے ہی وقت کے ساتھ پراجیکٹ کا کام آگے بڑھتا جا رہا ہے لگتا ہے کہ یہ لوگ ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں۔متوقع کیا جا رہا کہ جب آس پاس کے علاقوں کو خالی کرایا جائے گا تو عوام اور حکومت کے نمائندوں کے درمیاں مزاحمت ہو سکتی ہے۔مگر حکومتی پراجیکٹ کے سامنے بیچارے لوگ بے بس ہی ہوں گے میری دعائیں ان لوگوں کے ساتھ ہیں۔اور بھی بہت سے شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی اس پراجیکٹ سے متاثر ہو رہے ہیں جیسے ٹرانسپورٹ سے لنکڈ۔لاہور کے تاریخی علاقوں کو میٹرو کنسٹرکشن سے چاک کیا جا رہا ہے اس پرا جیکٹ سے لاہور کے ماتھے کے جھومر اور شالامار گارڈن کو بھی نقصان پہنچنے والا ہے تحفظ نوادرات ایکٹ کے مطابق تاریخی عمارتوں سے دو سو فٹ کی دوری تک کوئی تعمیراتی منصوبہ نہیں بن سکتا۔اس منصوبے کو رکوانے کی اپیل کے ردعمل میں یونیسکو نے حکومت پاکستان کو خط لکھا کہ شالار گارڈن جو کہ ورلڈ ہیریٹیج میں شامل ہے اسی کو کسی طرح کا نقصان نہ پہنچایا جائے جس پر میاں شہباز صاحب نے اپنے قریبی ماہرین کو اعتماد میں لیا ہے۔شہری خدو خال اور ٹریفک سے لگتا ہے کہ فوری وقت اس پراجیکٹ کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔لاہور دوسرے غیر ملکی شہروں کی طرح کم آمدنی اور کم آبادی والا شہر ہے۔بہتر یہ ہوتا کہ جو تیز ترین بسیں چلائی جا رہی ہیں انکی تعداد بڑھائی جائے اورانکے مخصوص راستے متعین کیے جائیں جوعام راستوں سے علیحدہ ہوں۔میٹرو اورنج لائن پراجیکٹ کوچلانے اور قرض اتارنے کے لئے بیس سال تک یومیہ تین لاکھ ڈالر درکار ہوں گے اگر موجودہ بتائی جانے والی مسافروں کی گنجائش کے مطابقِ۰۶۱ روپے فی مسافر یک طرفہ کرایہ لیا جائے توپھر ہی کچھ سبسڈی دے کر یہ رقم پوری کی جا سکتی ہے۔میکسیکو میں۱۰۲ کلو میٹر کے ٹریک سے ۴۱ فیصد کولکتہ ۹۱ کلو میٹر ٹریک سے۰۱ فیصد اور شنگائی ۲۸ کلومیٹر ٹریک سے۲ فیصد عوام نے فائدہ اٹھایا۔قارئین جہاں دوسرے لوگ اس پراجیکٹ سے متاثر ہیں وہیں میں بھی اس سے بیزارہوں۔علی ٹاؤن جو اسکا آخری سٹاپ ہے اس کے سامنے ہی ہماری یونیورسٹی واقع ہے یونیورسٹی کے سامنے کنسٹرکشن جاری ہے اور کچھ صحرا جیسا منظر ،سماں ہے اور ایسا صحرا جہاں اونٹوں کی بھیڑ لگی ہو۔یونیورسٹی سے باہر نکلنے پر اور یونیورسٹی کے اندر جانے پر اس بھیڑ سے گزرنا پڑتا ہے جو طالب علموں اور دوسروں کے لئیے بہت تکلیف دہ ہے۔ہم فلیٹ سے بہت بن سنور کر یونیورسٹی کی طرف نکلتے ہیں مگر واپسی پر بندروں جیسی حالت ہوتی ہے اور یہ سن کر خوف طاری ہوتا ہے کہ ۷۱۰۲ تک اسی طرح چلتا رہے گا۔میرے کچھ دوستوں کی خواہش ہے کہ ہماری یونیورسٹی بھی اس پراجیکٹ کی تحویل میں آ جائے اور ہماری کلاسز نیو کیمپس شفٹ ہو جائیں اور اس بھیڑ سے چھٹکارا مل جائے۔اورنج لائن پراجیکٹ کنسٹرکشن کے باعث لاہور میں ٹریفک کے بہت مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ جن علاقوں میں کنسٹرکشن جاری ہے وہاں تو لوگ بہت زیادہ بھیڑ کے باعث آپس میں ہی لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں اب تو یہ روزانہ کا معمول بن گیا ہے۔لاہور کے دوسرے متبادل راستوں میں بھی اس کنسٹرکشن کی باعث بھیڑ لگی رہتی ہے کنسٹرکشن سے پہلے ان علاقوں میں ٹریفک بہت احسن طریقے سے چلتی تھی۔مگر اب یہی راستے عوام کے لئے وبال جان بنے ہوے ہیں۔اس پراجیکٹ پر خرچ ہونے والی رقم سے پورے پاکستان میں تعلیم اور صحت کے نظام کو بہتر کیا جا سکتا تھا بہت سے سکول ،کالجز،یونیورسٹیز اور ہسپتال بنائے جاسکتے تھے۔مگر افسوس ہم کب اصلی کام کی طرف آئیں گے؟قارئین اگر میرے آبائی گاؤں اور اسکے آس پاس کے علاقوں میں اس رقم کا اگر پانچ فیصد بھی خرچ کیا جائے تو ان علاقوں میں کبھی سیلاب نہ آئے انکی فصلیں کبھی برباد نہ ہوں انکے لیے تعلیم اور صحت کا نظام قائم کیا جا سکتا ہے۔اور بھی ایسے بہت سے علاقے بھی منتظر ہیں۔کیا پاک،چائنہ مل کر ڈیم نہیں بنا سکتے؟ مگر افسوس کہ اصل مسائل کو حل نہیں کیا جاتا اور نئے نئے پراجیکٹ شروع کرکے عوام کو تنگ کیا جاتا ہے یہ غریب علاقوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ِمیری پنجاب حکومت سے گزارش ہے کہ آئیندہ کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے عوامی مسائل کو دیکھا جائے اور کوئی بھی کام عوامی رائے سے شروع کیا جائے نہ کے اپنے مفاد کی وجہ سے۔اور میٹرو پراجیکٹ سے جو لوگ مسائل کا شکار ہیں انکے مسائل کو حل کیا جائے۔نہ کے انکے لئے یہ پراجیکٹ وبال جان بنا رہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/j5r4llk
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *