انوکھے لیڈرز۔۔۔۔محمد رضوان خان

Muhammad Rizwan Khan
Print Friendly, PDF & Email

دنےا بھلے ہی فےس بک کو جتنا برا کہے لےکن اس حقےقت سے انکار نہےں  کےا جا سکتا کہ ہرواقعے کی فوری اپ ڈیٹس بمعہ تصاویر کے لئے بہت سے افراد کی طرح میں  بھی اس میڈیا کوہی ترجیح دیتا ہوں  ۔باقی اچھے برے سب ہی لوگ اسے استعمال کرتے ہیں  لہذا چند اخلاق سے گری پوسٹوں  کو لے کر پورے سوشل میڈیا کو برا بھلا کہنا نا انصافی ہے ۔ دل بڑا کرنے کا ہنر ویسے بھی ہم پاکستانیوں  کو نہیں  آتا ہر فردیہ چاہتا ہے کہ بس اس کے خیالات کے پوسٹرز ہر جگہ آویزاں  ہوں ۔خیر فیس بک میڈیا ایک حقیقت ہے اب بھلے ہی کوئی کتنا اس تلخ حقیقت کو ماننے سے انکار کرتا رہے ۔چند دن پہلے میری نظر سے دو کلپ گزرے ایک میں  پنجاب اسمبلی کی عمارت سے چند خواتین برآمد ہوتی نظر آئیں  جو یقینا موجودہ اسمبلی کی ممبرز بھی ہونگی ۔سب کے ہاتھوں  میں  بڑے بڑے بنڈلز تھے جو شائد آئین پاکستان ہوےا اسمبلی کے ظابطہئ اخلاق یا اگلے پانچ سالوں  میں  انجام دیئے جانے والے کارناموں  کی تفصیلات ۔بحرحال زرق برق ملبوسات میں  ملبوس خواتین کے ہاتھوں  میں  وہ بنڈل نجانے کیوں  کافی عجیب اور غریب لگ رہے تھے ۔دوسرا کلپ جو میں  کئی بار دیکھ چکا ہوں  اور ہر دفعہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجاتا ہوں  آپ میں  سے بھی کئی افراد غالبا وہ دیکھ چکے ہوں  گے۔ ایک ظالم بدتمیز نوجوان ہاتھ میں  مائیک پکڑے پنجاب اسمبلی کے باہر نمودار ہوتا ہے کیمرہ اور مائیک دیکھ کر ایک صاحب خاصے جوش و خروش سے نوجوان کی طرف بڑھتے ہیں  لیکن سارا جوش و جذبہ  اس وقت ٹھنڈا ہوجاتا ہے جب مائیک بردار نوجوان انگریزی کا ایک پورا جملہ ان صاحب کے سامنے اگل دیتا ہے ۔ ایک تو اتنا سخت اور بے ہودہ سوال اور اوپر سے انگریزی میں  ” How can prosperity come in Pakistan”بس اسکے بعد تو لیڈر صاحب کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا اور ایک جار ہا تھا۔ بڑے التجائیہ انداز میں  انہوں  نے نوجوان سے کہا کہ” ہم اسے اردو میں  نہ کرلیں  “۔نوجوان بھی ظالم فل چسکے لینے کے موڈ میں  تھا کہا کہ” سر پروگرام کا فارمیٹ ہی انگریزی میں  ہے “۔بس اس کے بعد تو ان صاحب نے اپنا منہ سر لیا اور دائیں  طرف نکل لئے۔ مائیک بردار روکتا ہی رہا لیکن کہاں ۔ انگریزی کا سن کر تو عوام اچھے بھلے کرتب دکھا دیتی ہے وہ تو پھر لیڈر تھے۔ اتنے میں  ایک اور صاحب بڑے چوڑے خاں  بن کر کالا چشمہ پہنے ادھر ادھر کھڑے کمی کمینوں  پر اچٹتی سی نظر ڈالتے ہوئے نوجوان کے نرغے میں  آن پھنسے۔  نوجوان نے سوال دہرایا مگر لیڈر صاحب نے عجب ادائے چنگیزی سے کہا ” اگر میں  جواب نہ دینا چاہوں  تو “نوجوان نے بھی گستاخی کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ” کچھ نہ کچھ تو بول دیں  “۔اس پر گھبراہٹ میں  ہمارے لیڈر بولے ” ویسے تو میں  برٹش نیشنل ہوں  اور انگریزی بھی بول سکتاہوں  لیکن اگر میں  نہ جواب دوں  تو کیا کرلوگے آپ”۔ یہ جواب دینے کے بعد وہ صاحب بھی اپنا چشمہ سنبھالتے پتلی گلی سے نکل گئے۔ اسکے بعد چند خواتین اس نوجوان کے مائیک اور کیمرے کی زد میں  آگئیں ۔ کچھ نے تو اردو میں  جواب دینے پر زور دیا لیکن نوجوان کا اصرار دیکھ کر انہوں  نے Thankyou کہہ کر ہی جان چھڑوانے میں  ہی بھلائی جانی ۔اتنے میں  ایک عمر رسیدہ سی بزرگ لیڈر نے مائیک تھاما سوال تو پتا نہیں  انہیں  سمجھ آیا کہ نہیں  لیکن انہوں  نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی کا سہارا لےکر جواب دینے کی کوشش ضرور کی ان کے سادہ حلئے سے قطعی نہیں  لگ رہا تھا کہ وہ اردو میں  بھی کچھ بول پائیں  ۔میں  تو ان سے “ٹھیٹھ پنجابی “میں  جواب کی توقع کر رہا تھا لیکن انہوں  نے کافی کوشش اور ہمت سے کام لیا۔ نام تو میں  ان تمام لیڈر حضرات کے لکھ  سکتا ہوں  لیکن یہ انتہائی گھٹیا اور گری ہوئی حرکت ہوگی۔ ویسے بھی کسی کی خامی اورکمزوری کا پردہ چاک نہیں  کرنا چاہیے۔ جواب دینے کی کوشش کرنے والی محترمہ کا میں  دل سے فین ہوں  اور مجھے یقین ہے اگر وہ اسی طرح کوشش کرتی رہیں  تو ایک نہ ایک دن کافی اچھا بولنا سیکھ جائیں  گی ۔

ویسے تو اوپر بیان کئے گئے تمام مناظر دیکھ کر کافی ہنسی آتی ہے لیکن یہ فقرہ بھی یاد آتا ہے کہ شرم تم کو مگر نہیں  آتی ۔ نہ تو دیکھنے والی عوام کو اور نہ ہی مائیک پکڑنے والے خواتین و حضرات کو جو ہر دفعہ عوامی انتخابات میں  ٹکٹ جمع کروانا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ یہ ہیں  ہمارے لیڈرز جو ہمارے نام پر ملک ملک گھومتے ہیں  دورے کرتے ہیں  منرل واٹر کی بوتلیں  سامنے سجاکر نجانے کونسے منصوبے ڈسکس کرتے نظر آتے ہیں  ۔ آئندہ سے میری ٹیلی ویژن چینلز سے بھی گذارش ہے کہ ان دوروں  اور میٹنگز کا خاموش احوال دکھانے کی بجائے باآواز دکھایا کریں  تاکہ عوام بھی دیکھےں  کہ جو حضرات عام سے رپورٹر کا ایک لائن پر مشتمل فقرہ سمجھ کر دولائنوں  کا جواب نہیں  دے پاتے وہ بیرون ملک دوروں  پر کیا گل کھلاتے ہیں  ۔خود سوچیئے کہ ایسے لیڈرز پر دوسرے ممالک کے لیڈرز کیسے ہنستے ہوں  گے اور ہمارے ملک کے بارے میں  کیا سوچتے ہوں  گے ۔ دنیا میں  لیڈر شپ ، لیڈرز اور لیڈرشپ کوالٹیز پر نہ صرف تحقیق ہورہی ہے بلکہ کتابیں  بھی چھپ رہی ہیں ۔ دل پر ہاتھ رکھئے اور ایمان سے بتائےے کہ کیا ہمارے لیڈرز میں  سے ماسوائے چند کو چھوڑکر باقی کیا بھان متی کا کنبہ نہیں  کہیں  کی اینٹ اور کہیں  کا روڑا ۔ کیا سیاسی جماعتوں  کے سربراہان کے لئے یہ سوچنے کا وقت نہیں  کہ وہ ان نوجوانوں  اور افراد کو موقع دیں  جو واقعی لیڈ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں  ۔ خان صاحب خود ایک مناسب تعلیمی بیک گرائونڈ رکھتے ہیں  شائد اسی لئے وہ نوجوانوں  کوموقع دینے کے حق میں   ہےں ۔میچ بھلے ہی خان صاحب کی ٹیم ہار گئی لیکن مایوسی کی بات اس لئے نہیں  کہ عوام کو احساس ہوا ہے کہ الیکشن لڑنے کےلئے اب دس مربع زمین یا سیاسی بیک گرائونڈ کی ضرورت نہیں  ۔میرے ایک دوست بیوروکریٹ ہیں  میں  نے ان سے پوچھا کہ” نیم پڑھے لکھے سیاسی آقائوں  کے ساتھ تم لوگ کیسے گزارا کرتے ہو “جواب بہت دلچسپ تھا کہ” ہم ان کے نیم پڑھے لکھے ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہیں  شام کو بس ایک فقرہ بول کر کہ حضور آپ ہی تو ہمارے آقا ہیں  نوکری بھی سیدھی کر لیتے ہیں  “۔

 وقت بدل رہا ہے دنیا بدل رہی ہے لیکن ہم پیچھے سے پیچھے جارہے ہیں  اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ آج تک ب ہم نے حثیت عوام کچھ بدلنے کی کوشش  نہےں کی ۔ جو لوگ ایک فقرے کو سمجھنے کی اہلیت نہیں  رکھتے ہم ان سے ملک چلوانے کی کوشش کر رہے ہیں  یہ ظلم نہیں  تو اور کیا ہے۔ ایسے لوگ کیا منصوبے تشکیل دیتے ہونگے کیا فائلوں  پر نوٹ لکھتے ہوں  گے اور کیسے منہ زور بیوروکریسی کو قابو کرتے ہونگے۔ نتےجہ  صاف ظاہر ہے کہ ہماری ٹرین ترقی کا ہر اسٹیشن چھوڑتی جا رہی ہے کیونکہ ٹرین ڈرائیور زبہت قابل ہیں  اور” ظالم دنیا “نے ہر اسٹیشن پر ترقی کی بجائے Progress Stopلکھا ہوا ہے ۔یہ لوگ بورڈز پڑھ کر تھوڑا ہی فیصلے کر رہے ہیں  یہ تو اپنی پسند نا پسند کے مطابق فیصلے کر رہے ہیں  ۔عرب کے بدئوں  نے تعلیم کی اہمیت کو پہچان لیا ہے لیکن ہم جعلی ڈگریوں  کو کیش کروانے کی فکر میں  مبتلا ہیں  ۔رپورٹرز سے لیکر اینکرز تک ہر روز لیڈرز کی گرد جھاڑتے ہیں  لیکن نجانے یہ کیسی گرد ہے جو جھڑنے میں  نہیں  آرہی ۔ٹیلنٹ کی اس ملک میں  کمی نہیں  لیکن سیاست کے تالاب کو اس قدر گنداکردیا گیا ہے کہ پڑھے لکھے افراد اس تالاب میں  کودنے کو تیا ر نہیں  ۔ ایک تو گند اوپر سے مگرمچھوں  کا خوف تیسرا عوام کے نہ پہچان کر ووٹ نہ ڈالنے کا ڈر۔ یہ آخری باری ہے اس کے بعد شائد روائتی سیاست کی اس ملک میں  جگہ نہ رہے اور یہ بھی کہاجا سکتا ہے کہ مبادا  عوام کی حمایت سے سیاسی چیپٹر کو ہمیشہ کے لئے بند کردیا جائے۔

Short URL: http://tinyurl.com/z74gkc8
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *