امریکہ کوئی غلطی نہ کر بیٹھے

Irfan Mustafa Sehrai
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: عرفان مصطفیٰ صحرائی
امریکہ اور ایران کے مابین کشیدہ صورتحال نے دنیاعالم کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ڈونالڈ ٹرمپ ایک جانب ایران کے ساتھ جنگ کے حق میں نہیں ۔لیکن دوسری جانب امریکی بحری بیڑے کی بحیرہ¿ عرب آمد سے پہلے امریکہ کا ایران سے کئے گئے معاہدے کو یک طرفہ ختم کرنے کا اعلان اور ایران پر پابندیاں عائد کرنا اپنی جگہ ایک غیر روایتی اور غیر مہذب اقدام تھا۔گویا امریکہ نے دنیا کو یہ پیغام دے دیا تھا کہ امریکہ اپنے مفادات کے راستے میں کسی قسم کی اخلاقی اور قانونی رکاوٹوں کو خاطر میں نہیںلائے گا۔اسے دنیا کی کوئی پروا نہیں ۔اس مقصد کے لئے وہ امریکی فوجیوں کی بجائے دوسرے ملکوں کی افواج سے کام لیتا ہے ۔عراق آٹھ سال تک امریکی مفادات کی جنگ لڑتا رہا ہے ۔کویت پر قبضہ بھی امریکہ نے نیٹو ممالک کو مشرق وسطیٰ میں طویل عرصے تک استعمال کیا ۔افغانستان میں بھی نیٹو ممالک اس کے اتحادی رہے ۔امریکہ کو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں ۔بے دریغ جھوٹ سے دنیا کو قائل کرنے میں ماہرامریکہ سارا تانا بانا اس طرح بنتا ہے جس سے سارے مالیاتی فائدے کشید ہو کر امریکی خزانوں میں جمع ہو جائیں ۔اپنے مفادات کی خاطر وہ کسی حد کو بھی پار کر سکتا ہے ۔
جب شمالی کوریا میزائل فائر کرتا تھا تو صدر ٹرمپ اپنے ٹوئٹس میں اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکیاں دیا کرتے تھے،لیکن آخر کار انہوں نے صدر ”اُن“ سے مذاکرات میں عافیت سمجھی ۔کیونکہ شمالی کوریا کے پاس واقعی ایٹمی میزائل تھے ۔
امریکہ اسی طرح کی شاطر چال سعودی عرب اور دیگر مالدار ریاستوں کی دولت ہڑپ کر کے ایران سے گفتو شنید کا آغاز کرے گا۔حالانکہ یمن کی حوثی فوج کے حملوں کی وجہ سے سعودی عرب عاجز آ گیا ہے اور وہ سخت اشتعال میں ہے ،سعودی قیادت کا اصرار ہے کہ ایران پر حملے میں تاخیر نہ کی جائے اور اس کا سر فوری طور پر قلم کیا جائے۔لیکن امریکہ ایران پر حملے سے ممکنہ اثرات سے اچھی طرح آگاہ ہے ۔وہ جانتے ہیں کہ جنگ کے نتیجے میں تیل کی سپلائی بند ہو جائے گی ۔جس کے نتیجے میں عالمی کسادبازاری پیدا ہو جائے گی۔دنیا ایک بار پھر عدم استحکام کا شکار ہو جائے گی ۔انسانوں کی ایک بڑی طاقت مصائب میں گھر جائے گی۔ بڑے پیمانے پر آبادی کا انخلا ہو گا ۔ایران سے کم از کم ایک کروڑ لوگ پڑوسی ممالک میں داخل ہو جائیں گے ۔جس کے نتیجے میں پورے ریجن کا امن استحکام اور خوشحالی شدید طور پر متاثر ہو گی ۔ایران پر حملے کے نتیجے میں پورا مشرق وسطیٰ جنگ کی لپیٹ میں آ جائے گا ۔
صدر ٹرمپ نے برسر اقتدار آنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ وہ عالمی تنازعات میں نہیں الجھے گا ۔لیکن جس طرح انہوں نے شام اور یمن پر حملوں میں اسرائیل اور سعودی عرب کا ساتھ دیا اور اب جو ایران کے خلاف جنگی ماحول پیدا کیا ہے ،یہ ان کی تاریخی بد عہدی ہے ۔جس طرح وہ یو ٹرن کو بری چیز نہیں سمجھتے، اسی طرح بد عہدی بھی کوئی عار نہیں سمجھی جاتی ہے ۔
ایران کے ساتھ نیوکلیئر معاہدہ برقرار رکھنے والے پانچ ممالک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ امریکہ اور ایران کے مابین اختلافات کو کم کرنے کی کوشش کریں اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ امریکہ دوبارہ معاہدہ میں شامل ہو اور ایران کے خلاف پھر سے عائد کی گئی تحدیدات سے دستبرداری اختیار کی جائے ۔اسلامی انقلاب کے بعد سے امریکہ اور اس کے حلیف ممالک ایران کو مسلسل پریشان اور ہراساں کر رہے ہیں ۔پہلے عراق اور ایران کے مابین برسوں جنگ کرائی گئی ،جس کے نتیجہ میں ایران کی معیشت تباہ ہو گئی۔بعد میں ایران کے نیوکلئیر پروگرام کے حوالے سے امریکہ اور اس کے حلیف یوروپی ممالک نے لمبے عرصہ تک ایران پر سخت گیر معاشی و مالیاتی تحدیدات لاگو کیں ،اب امریکہ نے اپنے تمام حلیف ممالک کو پابند کیا ہے کہ وہ ایران سے پٹرولیم اشیاءکی خریداری بالکل بند کر دیں ۔پاکستان نے بھی گیس پائپ لائن کے منصوبے کو مو¿خر کر دیا ہے ۔ہماری ایران سے قدیم دوستی ہے ۔ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے ۔کشیدگی کا ختم ہونا تمام ممالک کے مفاد میںہو گا۔امریکہ کو ایرانیوں کو دھمکانے کی نہیں بلکہ ان کا احترام کرنے کی پالیسی اپنانا چاہیے ۔امریکہ کو سمجھنا چاہیے کہ آج دنیا اکیسویں صدی میں جی رہی ہے ۔دنیا سکڑ کر گلوبل ویلج بن چکی ہے ۔زمین پر سوئی گرے تو اس کی دھمک پوری دنیا میں سنی جاتی ہے ۔کوئی غلطی نہ کی جائے ۔
پاکستان کو امریکہ اور ایران کی حالیہ کشیدگی کی پالیسی میں خاموشی کا کردار اپنانا چاہیے ۔کہیں سعودیہ کی محبت اور ادھار تیل کے لالچ میں ملک کو بڑی جنگ میں نہ جھونک دیا جائے ۔ماضی میں ایک فون کال پر امریکہ کے پاﺅں میں گر گئے تھے ۔لیکن اس پالیسی کا نتجہ کتنا ہولناک نکلا ہے ،وہ کسی کو باور کروانے کی ضرورت نہیں ۔ویسے امریکہ ایسی بھیانک غلطی نہیں کرے گا۔اگر ایسا ہوا تو اس جنگ کو روکنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔

Short URL: http://tinyurl.com/yynlhhtt
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *