الیکشن میں فتح کا جشن اور لوڈشیڈنگ کا ماتم۔۔۔۔ تحریر : اقبال زرقاش

Iqbal Zarqash
Print Friendly, PDF & Email

غرور ا ور تکبر کا نشہ جب تک بڑھتا ہے تو انسان کی فکری صلاحیتوں کو پامال کر کے رکھ دیتا ہے انسان سے عاجزی اور انکساری چھن جاتی ہے ۔ لاہورکے حلقہ این اے122 میں ن لیگ کی فتح نما شکست ہضم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ معلوم نہیں ن لیگ والے کس چیز کا جشن منا رہے ہیں۔ عمران خان کو9 ہزار سے شکست دینے والے سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق 2 ہزار سے زائد ووٹ لے کر یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ان کی حمایت کی مقبولیت میں واضح کمی واقع ہوئی ہے گو کہ علیم خان کی شہرت اورساکھ پر بہت سے لوگوں کو اعتراضات ہیں اس کے باوجود لاہور کے عوام نے تحریک انصاف کو ووٹ دے کر ثابت کیا ہے کہ ن لیگ کا گراف روز بروز نیچے آ رہا ہے۔ لاہور میں صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر تحریک انصاف کی کامیابی نے جشن منانے والوں کے چہروں سے حقیقی رونق چھین لی تاہم جگ ہنسائی سے بچنے کے لیے اور میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ڈھول کی تاپ پر رقص اور ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کے تبصرے عوام کو بے وقوف بنانے کے حربے تھے تاہم حقیقت چھپ نہیں سکتی بنا وٹ کے اصولوں سے۔ نواز شریف کا الیکشن کے نتائج کے بعد مرجھایا ہوا چہرہ اس بات کی علامت تھا کہ انہیں یہ توقع بھی نہ تھی کہ لاہور کے باسی انہیں اس قدر مایوس کریں گے حکومت اپنی تمام تر سرکاری مشینری کو استعمال کرنے کے باوجود وہ نتائج حاصل نہ کر سکی جو اسے مطلوب تھے۔ تخت لاہور کے در و دیوار میں دراڑیں دیکھ کر خود ساختہ شاہی خاندان اپنے وزیروں،مشیروں پر برہم تو ہوا مگر اس بات کی خبر میڈیا کی رسائی سے محروم رہی یہی وجہ ہے کہ پرویز رشید جیسا دھیمے لہجے والا شخص بھی پھٹ پڑا اور بقول سلیم صافی “پرویز رشید آجکل شیخ رشید نظر آنے لگے ہیں” یہ مقافات عمل ہے ن لیگ نے الیکشن سے پہلے عوام سے جو جو وعدے کیے اُن میں سے ایک بھی پورا نہ ہو سکا۔ لوڈ شیڈنگ کی ستائی عوام ن لیگ کی پالیسوں پر ماتم کدہ ہے ۔عوام کو چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کی نوید سنانے والے آج” ڈنگ ٹپاوٗ “پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ن لیگ کی حکومت نے جب اقتدار سنبھالا اس وقت سے اب تک سب سے بڑا مسئلہ لوڈ شیڈنگ کا تھا جسے سرد خانے میں ڈال کر سڑکیں اور میٹرو جیسے منصوبے شروع کر دیئے گئے۔ انرجی کے بڑے منصوبے جن میں دیامیر، بھاشا ڈیم، واسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ،خیال کوار ہائیڈروپاور پروجیکٹ، نیلم جہلم ہائیڈروپراجیکٹ اور تر بیلہ ڈیم کی توسیع جیسے منصوبے حکومتی عدم دلچسپی کا شکار ہیں۔ سرکاری اعدادو شما ر کے مطابق4500میگا واٹ بجلی کے حصول کیلیے دیا میر بھاشا ڈیم کی زمیں کی خریداری کے لیے گذشتہ سال میں 60 ارب کا تخمینہ تھا جس کے لیے15ارب گذشتہ مالی سال میں جاری کرنے تھے لیکن پورا مالی سال گزرنے کے باوجود یہ رقم جاری نہ ہو سکی اس طرح اب پی ایس پی میں 10ارب جاری کرنے تھے دوماہ گزرنے کے باوجودکوئی رقم جاری نہ ہو سکی واسو ہائیڈرو پروجیکٹ کے لیے گذشتہ مالی سال میں مختص ایک ارب بھی جاری نہیں ہوئے اسی طرح نیلم جہلم ہائیڈروپروجیکٹ کے لیے گذشتہ مالی سال میں مختص رقم 13.5 ارب بھی جاری نہیں کیے گئے جبکہ رواں مالی سال کے لیے رکھے گئے 5 ارب 50 کروڑ روپے میں سے بھی کوئی رقم جاری نہیں کی گئی۔ جامشورو مین 660میگا واٹ کے کوئلہ سے بجلی کی پیداوار کے منصوبے کے لیے3.3ارب جاری نہیں ہوئے۔ اسی طرح دوسرے منصوبوں میں واسو کے لیے ایک ارب جاری نہیں ہوئے۔ خیال کو ہائیڈروپروجیکٹ کے لیے 60 کروڑ بھی جاری نہیں ہوئے۔ پورے ملک کو تقریباً 3سے4 ہزار میگا واٹ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے اس میں اب تک کوئی کمی نہیں آئی۔ لوڈ شیڈنگ کی ستائی عوام پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی لوڈشیڈنگ پر ماتم کرتی رہی اور اب بھی کر رہی ہے مگر حکمران ہیں کہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہیں۔ سردیوں کی آمد آمد ہے اب سوئی گیس کی لوڈ شیڈنگ کا جن بوتل سے باہر نکل آیا ہے جس کے لیے حکومت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے اور بروقت اقدامات سے غافل نظر آ رہی ہے ۔ ایل پی جی کے نرخوں میں اضافہ اوگرا کے نوٹیفکیشن کے بغیر حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ حکومتی مشینری مکمل طور پر عوامی مسائل سے غافل ہے ۔وزراء کی کرپشن اور لوٹ مار کے سکینڈل آئے روز ن لیگ کی ساکھ کو بے حد متاثر کر رہے ہیں اگر یہی حال رہا تو ن لیگ کا حشر بھی پیپلزپارٹی جیسا ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔میاں نواز شریف اپنے اردگرد مفاد پرست ٹولے کا فوری محاسبہ کریں جو انہیں گہری کھائی کی طرف لے کر جار ہا ہے اگر حکومت نے اب بھی عوامی مسائل کی طرف توجہ نہ دی تو وہ اپنی سیاسی خودکشی کے لیے تیار ہو جائے کیونکہ عوام میں غم و غصہ آئے روز بڑھتا جا رہا ہے جس کی واضع مثال اوکاڑہ کے ضمنی الیکشن میں آزاد امیدوار کی برتری ہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/jgrzemy
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *