اسوہ حسنہﷺکی روشنی میں پاکستان اور اسلام کی بقاء

Rimsha Tubasam Toqeer
Print Friendly, PDF & Email

تحریر۔ رمشاء تبسم توقیر، لاہور 
ہندوستان اور دوسری دشمن قوتیں قیام پاکستان سے اس جدوجہد میں کوشاں ہیں کہ پاکستان کو زیر کر دیا جائے۔اسکا وجود صفِ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ تمام کافر قوتیں کسی گدھ کی مانند پاکستان کے گرد ہر وقت گھومتی رہتی ہیں اور کوشاں ہیں کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کو معاشی,سماجی اور اخلاقی طور پہ مفلوج کر کے مردار بنا دیا جائے اور پھر اس مردار پے جھپٹ کر اسکو کھا لیا جائے۔ پاکستان کے قیام کے وقت ہی ان گدھ نما طاقتوں کی آوازیں گونج رہی تھیں کہ ”پاکستان ایک سال سے زیادہ نہیں چل سکے گا۔گھٹنے ٹیک دے گا”۔مگر عظیم راہنما محترم قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا۔
”There is no power on earth that can undo Pakistan”
قائداعظم محمد علی جناح کو یہ اعتبار کسی دنیاوی طاقت پر نہیں بلکہ اللہ کی پاک ذات پر تھا۔ پاکستان کا مطلب ہی جنہوں نے ”لا الہ الااللہ ’’ رکھا ہو کیسے ممکن ہے کہ وہ کسی دنیاوی طاقت سے ڈر جائے یا دنیاوی طاقتوں پہ بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھے۔”لا الہ الااللہ ” نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے۔ اور جنکا معبود صرف اور صرف اللہ کی ذات ہو۔جنکا کلمہ صرف کلمہ حق ہو۔ ان کو دنیاوی شیطانوں اور طاقتوں کا نہ خوف ہوتا ہے اور نہ ہی یہ طاقتیں ان پر غلبہ پاسکتی ہیں۔مذہب اسلام پاکستان کا مذہب ہے خوب پڑوان چڑھ رہا ہے۔اسلام ابدی اور عالمگیر مذہب ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کی کافر قوتیں اسلام کو کسی نہ کسی طرح مٹانا چاہتی ہیں۔ اسی کوشش میں وہ پاکستان کو مٹا کر کسی نہ کسی طرح اسلام کی ساکھ کمزور کرنا چاہتی ہیں۔ پاکستان ایک حقیقت ہے اور اسلام اس حقیقت کی بنیاد ہے۔ دینِ محمد ﷺ اگر موجودہ حالات میں کہیں پروان چڑھ رہا ہے تو وہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ دشمنانِ پاکستان در حقیقت پاکستان کے نہیں بلکہ اسلام کے دشمن ہیں۔ پاکستان کو ختم کر کے حقیقت میں وہ اسلام کو مٹانے کے خواب دیکھ رہے ہیں مگر انہیں شائد معلوم نہیں کہ
؂ نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
آ ج عا لمِ اسلام اور اسی وجہ سے پاکستان یہو دی اور کافر طا قتوں کے نر غے میں ہے‘ الحا د و دہریت کی مسموم ہوا ئیں ہر طرف چل رہی ہیں، اسلام کی مخا لفت میں ایک طو فان برپا ہے۔ پاکستان کی بربادی کو اسلام کا نام مٹانے کے مترادف سمجھ رہی یہ طاقتیں ہر وہ حربہ استعمال کر رہی ہیں جس سے پاکستان برباد ہو جائے۔ جس سے تمام مسلما نوں کو دہشت گرد ثابت کردیا جائے۔ جس سے تمام عالم میں یہ ثابت کردیا جائے کے پاکستان ایک مسلم ملک ہے اور مسلمان ایک دہشت گرد گروہ ہے۔اور لہذا پاکستان ایک دہشت گرد ملک اور مذہب اسلام ایک دہشت گرد دین ہے۔مو جو دہ عا لمی حا لات میں مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ با طل سا زشوں کو نا کام بنا نے کے لیے غزوۂ احزاب وخندق کے اسوہ کو اختیار کریں، رسولِ اکرم ا نے کفرکی بھاری جمعیت کو شکست دینے کے لیے جو راہ اختیار کی یقیناًوہی راہ آج بھی ہمیں بھی اختیار کرنی چاہئے۔موجودہ عالمی حالات اور غزوۂ خندق کا پیغام اور دشمن قوتوں سے مقابلہ کرنے کی ترغیب مفتی تنظیم عالم قاسمی، استاذِ حدیث دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد نے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قرآنِ کریم نے تمام مسائل ومشکلات میں رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک اور بافیض زندگی کو ہی تمام مسلمانوں کے لیے بہتر اسوہ اور نمونہ قرار دیا ہے۔ ارشاد باری ہے:
ترجمہ:’’در حقیقت تم لو گو ں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمو نہ ہے‘‘
غزوۂ خندق کاپیغام
یہاں قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ اس غزوہ سے اسلامی ممالک اور مسلمانوں کو موجودہ حالات میں کیا روشنی ملتی ہے، آج اہلِ ایمان کس طرح اسلام مخالف طاقتوں کا مقابلہ کریں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دانشمندانہ قدم اور حضراتِ صحابہؓ کے اخلاص واستقامت سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے اور کس طرح؟ ترتیب وار یہ دفعات ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں۔
دشمنوں کی نقل وحرکت کا علم
ابوسفیان کی نگرانی میں جب دس یا بارہ ہزار فوج مدینہ کی سَمت روانہ ہوئی تو فوراً رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوگیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبیِ اکرم مدینہ طیبہ میں بے خبر بیٹھے ہوئے نہ تھے بلکہ آپ کے خبر رساں اور تحریک اسلامی کے ہمدرد اور متاثرین جو تمام قبائل میں موجود تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنوں کی نقل وحرکت سے برابر مطلع کرتے رہتے تھے جس سے مدینہ طیبہ میں قائم اسلامی ریاست کا تحفظ آسان ہوگیا تھا آج بھی مسلمانوں کو چاہیے کہ دشمنوں کی نقل وحرکت اور اسلام دشمن تنظیموں کی خفیہ سازشوں سے باخبر رہیں،حالات سے واقفیت دفاع اور اس کے انتظام و انصرام کی راہوں کو ہموار کرتی ہے اوربروقت اضطراب وپریشانی کے خوفناک نتائج سامنے نہیں آتے، بسا اوقات رسول اللہ ا حقائق اور حالات کی اطلاع کے لیے جاسوس بھی بھیجا کرتے تھے، جیسا کہ غزوۂ خندق میں حضرت حذیفہؓ کے سپرد یہ ذمہ داری کی گئی تھی۔
طریقہء جنگ اور اسلام
خندق کھودنا فارس کا طریقہ تھا عرب اس سے واقف نہ تھے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورہ سے خندق کھودنے کی جنگی تدبیر اختیار کی، جس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ کفار کے طریقہِ جنگ کو اختیار کرنا درست ہے، اسلام میں جنگ کا کوئی خاص طریقہ متعین نہیں ہے کہ اس کے علاوہ ناجائز یا حرام ہو؛ بلکہ یہ فوجی جنرل اور اسلامی رضاکاروں کی صوابدید پر موقوف ہے، وہ دفاع کا جو طریقہ بہتر اور مفید سمجھیں اسے اختیار کرسکتے ہیں، موقع کی نزاکت اور حالات کے اعتبار سے طریقہ جنگ میں تغیر وتبدل ہوسکتا ہے، اگر کسی جگہ لٹریچر یا اخبارات کے ذریعہ اسلام پر اعتراضات کیے جائیں، رسالتِ نبوی کے تقدس کو پامال کیا جائے تو مسلمانوں کے لیے ایسے وقت تلوار اور گولہ بارود کی جنگ لڑنا ناکامی کا باعث ہوگا۔ ان حالات میں تحریر و تقریر کے ذریعہ ان کے اعتراضات کا جواب دینا، ان کے ذہنوں کو صاف کرنا اور غیر اسلامی مذاہب میں پائے جانے والی کمزوریوں کی نشاندہی کرنا دفاع کا سب سے بہتر طریقہ ثابت ہوگا، اسی طرح اگر الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اسلام کے خلاف آواز اٹھائی جائے تو جہاں تک ممکن ہوسکے مسلم قائدین اور باشعور افراد کی ذمہ داری ہے کہ اسلامک ٹی وی چینل، انٹر نیٹ اور دوسرے برقی طریقوں سے اس کا جواب دیں، غرض تقریر وتحریر، صحافت وخطابت، درس وتدریس، احتجاج وجلوس اور اس طرح وہ تمام کام دائرہ جنگ میں شامل ہیں، جن سے دشمنوں کو اپنے مقاصد میں ناکام بنایا جاسکے، طریقہ جنگ وجدال پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے، اسلام دشمن طاقتوں کو برباد کرنے کی جو تدبیریں بہتر اور موقع کی نزاکت کے موافق ہو ں انہیں ضرور اختیار کرنا چاہیے، روایتوں سے ثابت ہے کہ غزوۂ طائف میںآ پ نے منجنیق کا استعمال کیا تھا جو کفار کا ایجاد کردہ طریقہ جنگ ہے، اس سے مزید اس کی تقویت ہوتی ہے۔
استقامت اور صبر
غزوۂ خندق میں صحابہ کرامؓ نے انتہائی صبرو استقامت سے کام لیا۔ بھوکے پیاسے، آلات ووسائل کی کمی اور موسم کے ناموافق ہونے کے باوجود مسلسل ایک مہینہ تک جنگ پر اڑے رہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوجب خندق کھودنے کا حکم دیا تو پیٹ پر پتھر باندھ کر کھدائی کا کام انھوں نے اس طرح انجام دیا جیسے کہ جنات کی کوئی فوج زمین کا تخت الٹ دے، صرف چھ روز میں اتنی بڑی خندق تیار ہوگئی، ایمانی جذبات میں آکر کبھی ترانہ گاتے اور کبھی اپنے مشن کی کامیابی کے لیے خدا سے دعا کرتے، حالات بد سے بدتر ہوگئے مگر ایک صحابی نے بھی اپنا قدم پیچھے نہیں ہٹایا، اس سے آج کے مسلم رضاکاروں کو سبق ملتا ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں، جنگی محاذ سے قدم نہیں ہٹانا چاہیے۔ صبرواستقامت کامیابی کی کلید ہے، اس کے فوت ہونے سے منزل پانے کی امید نہیں کی جاسکتی۔
باحیثیت افراد کی کام میں شرکت
حضرت ابوبکرا، حضرت عمرہی نہیں بلکہ خود شہنشاہِ کائنات، رسول اکرم خندق کھودنے میں شریک تھے، دس آدمیوں کی ٹولی کے ایک رکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے، دیگر صحابہ کرامؓ کی طرح آپ مٹی باہر پھینکتے، جس سے جسم مبارک گرد آلود ہوگیاتھا، جب کھدائی کا کام شروع ہواتو رسولِ اکر م صلی اللہ علیہ وسلم موقع پر پہنچ گئے اور آخر تک جمے رہے۔ اس سے یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ جماعت کے سربراہ اور باحیثیت لوگوں کے کام میں شریک رہنے سے کارکنوں کو حوصلہ ملتا ہے، کام میں قوت اور تازگی محسوس ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلم سپاہیوں نے پسینہ بہاتے ہوئے متواتر فاقوں کے ساتھ خندق کھودنے میں ڈٹ کر کام کیا۔ بعض صحابہؓ نے جب بھوک اورپیٹ پر پتھر باندھنے کا تذکرہ کیا تو حضور ا نے اپنا کپڑا اٹھا کر دکھایا، یہاں تو دو پتھر باندھنے کی نوبت آگئی ہے۔ اس سے ان کو راحت ملی اور بھوک کا احساس جاتا رہا، ایثار وقربانی کی یہ حقیقت جب ہی قائم رہتی ہے، جب کہ ساری جماعت اس میں حصہ دار ہو لیکن اگر کچھ لوگ اپنے آپ کو بالا تر رکھ کرایثار وقربانی کی ذمہ داری دوسروں کے سر ڈالنا چاہیں تو ساری جماعت سے یہ خوبی جاتی رہتی ہے، موجودہ عالمی حالات میں دینی سیاسی اور سماجی قائدین کو اس پرخاص نظر رکھنی چاہیے تاکہ بات میں وزن پیدا ہو اور عام انسانوں کو تنہائی کا احساس نہ ہونے پائے۔
دشمنوں کو کمزور کرنے کی تدبیریں
سپہ سالارِ اعظم رسولِ اکرم ا نے بنی غطفان کے ساتھ مدینہ کی تہائی پیداوار پر مصالحت کی جو راہ نکالی تھی اس سے یہ حکمت مستفاد ہوتی ہے کہ تحریک اسلامی کو شدید مخالفتوں سے بچا کرنکالنے اور شمنوں کا زور گھٹانے کے لیے اگر کبھی قدم پیچھے ہٹانا پڑے یا جھکاؤ اختیار کرنا پڑ ے تویہ ناممکن اور ممنوع چیز نہیں ہے۔ فوجی قیادت کے بہتر اوصاف میں یہ شامل ہے کہ کشمکش حالات میں کسی بھی طرح دشمنوں کی صف اتحاد میں دراڑ پیدا کردی جائے، ظاہر ہے کہ جب کسی مشن میں شریک افراد میں سے بعض قدم پیچھے ہٹالیں اور تعاون وتناصر سے دست کش ہوجائیں تو اجتماعی قوت متاثر ہوگی اور باقی لوگوں کی ہمتیں ٹوٹ جائیں گی۔ یہی حکمت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے دوران راہِ فرار اختیا ر کرنے والے مجاہد کے بارے میں سخت وعید بیان فرمائی ہے تاکہ اسے دیکھ کر دوسرے سپاہیوں کے ثبات میں کوئی تزلزل پیدا نہ ہو، موجودہ حالات میں غزوہ احزاب کے اس اُسوہ پر بطور خاص عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک ممکن ہوسکے کوشش کی جائے کہ غیرمسلم تنظیمیں متحد نہ ہوسکیں، جب بھی اسلام پریلغار کیے جانے میں ذہنی ہم آہنگی کا احساس ہو، مسلم قائدین اہلِ قلم اور اصحابِ نظر کوئی ایسی بات پیدا کردیں کہ مخالفین خانہ جنگی کے شکار ہوجائیں، آپس میں افتراق وانتشار پیدا ہوجائے، اس سے جنگ اور مخالفت اگر ختم نہیں ہوگی تو کم سے کم دشمنوں کا زور کافی حد تک کم ہوجائے گا۔
جنگی تدبیریں اسلام کی نظر میں
نعیم بن مسعودؓ نے دوران جنگ مسلمان ہونے کے بعد رسولِ اکرم ا سے عرض کیا کہ میرے مسلمان ہونے کا کسی کو علم نہیں ہے، اگر اجازت دیں تو میں بعض تدبیروں کے ذریعہ دشمنوں کی جمعیت میں پھوٹ ڈال دوں، ممکن ہے یہ ان کی ناکامی کا ذریعہ بن جائے، رسولِ اکرم نے (لڑائی تو اصل میں حیلہ اور تدبیر ہی کا نام ہے) کا کلیہ بیان فرما کر اجازت دی۔ پھر نعیم بن مسعود نے بنو قریظہ اور دوسرے قبائل کے درمیان پائے جانے والے اتحاد کو توڑنے میں اہم رول ادا کیا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اخلاقی حدود کے دائرہ میں رہتے ہوئے جنگ کے دوران ایسی تدبیریں اور چالیں اختیار کی جاسکتی ہیں، جن سے دشمنوں کو شکست ہو یا اسلامی دفعات کو وہ ماننے پر مجبور ہوجائیں بلکہ بعض صورتوں میں یہ تدبیریں اشد ضروری ہوجاتی ہیں۔ ایسے موقعوں پر اگر سادگی سے بیٹھے تماشہ دیکھتے رہیں تو ہلاکت اور نقصانِ عظیم کا خطرہ ہے۔ خیبر سے بنو نضیر کے سردار حُئی بن اخطب نے ابوسفیان کی مدد کے لیے جب غلہ بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے روک لیا جس سے مسلمانوں کو کافی قوت ملی او ر دشمن کمزور ہوگئے، یہ بھی جنگی تدبیر تھی اس لیے کہ بھوکے پیاسے میدان جنگ میں ثابت قدم رہنا مشکل ہے یہ اور اس طرح کی مختلف تدابیر موجودہ عالمی حالات میں اختیار کی جائیں تو ممکن ہے کہ ذہنی طور پر دشمنانِ اسلام پست ہوجائیں اور ان کی قوت وطاقت کمزور پڑ جائے۔
آگے بڑھنے کا حوصلہ 
ابوسفیان نے جب گہری خندق کھودی ہوئی دیکھی تو حیرت سے کہنے لگا خدا کی قسم! یہ ایک ایسی تدبیر ہے جیسی تدبیر کرنا، ابھی تک عرب نہ جانتے تھے۔ گویا اس زمانہ کے مسلمان تدبیر اور طریقِ عمل میں اتنا زیادہ آگے تھے کہ ان کے مخالفین ان کی تدبیروں کو دیکھ کر پکاراٹھتے تھے، ہم تو ابھی تک ایسی تدبیروں سے واقف نہ تھے، آگے بڑھنے کا یہی حوصلہ تھا جس نے انھیں چمکایا، بڑھایا اور وقت کا امام بنایا۔ آج سستی، غفلت اور لاپرواہی نے ہمارے حوصلوں پر ایسی دبیز چادر ڈال دی ہے کہ ہم دوسروں کے غلام ہوگئے اور ہم نے اس پر قناعت بھی کرلی۔
جنگی کاموں میں نظم وضبط
یوں تو زندگی کے ہر موڑ پر نظم وضبط کی ضرورت ہے مگر جنگی کاموں میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے، پلاننگ اور نظم وضبط کے بغیر نہ کام میں تیزی پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی اس کا نتیجہ مسرت انگیز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اولین معرکہ ہی سے جنگی نظم کی تربیت دی تھی، غزوہ خندق میں کھدائی کا کام انتہائی نظم وضبط کے ساتھ کیا گیا تھا۔ پھر اس کی نگرانی کے لیے اور محاذ پر قابو رکھنے کے لیے جابجا چوکیاں قائم کی گئیں اور پہرے کی باریاں مقرر تھیں۔ اس کے علاوہ مسلم سپاہیوں کے درمیان باہمی شناخت کے لیے خفیہ کوڈ مقرر تھے۔ بنو قریظہ کی غداری کی اطلاع وفد نے ’’عضل وقارۃ‘‘ کہہ کر اشارہ میں دی تاکہ عام مسلمان اضطراب کے شکار نہ ہوں، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر مسلم قائدین اور مذہبی رہنماؤں کو دشمنوں کے بارے میں کوئی ایسی بات معلوم ہو، جس سے لوگوں کی ہمت پست ہوتی ہے تو اس کا اِفشا نہیں کرنا چاہیے، آج مسلمانوں میں نظم وضبط اور ڈسپلین کی حد درجہ کمی محسوس کی جارہی ہے، احتجاج وجلوس یا مظاہرے کا کوئی بھی طریقہ ہو، اس میں مسلمانوں کی اجتماعی قوت نہیں ہوتی ہے، خدمت دین سے زیادہ اپنے ادارہ کی شناخت کرانے کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے۔ نتیجتاً ہمارے مظاہرے اور جلوس کا کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے۔
اسلام میں مشورہ کی اہمیت
جب رسولِ اکرم ا کو دشمنوں کی نقل وحرکت کا علم ہوا تو آپ انے صحابہ کرام سے مشورہ کیا کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ ا س سے شورائی نظام کی اہمیت معلوم ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ کی تاکید کی تھی اس لیے اس موقع پر صحابہ کرامؓ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشورہ کیا کرتے تھے۔ میدانِ جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خود فیصلہ کا بڑا قدم نہیں اٹھایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم قائدین اورذمہ دار حضرات کو اپنی رائے سے کوئی کام نہیں کرنا چاہیے، اس میں اجتماعی قوت کے ساتھ اتحاد وہم آہنگی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
فرقہ وارانہ باتوں سے اجتناب
حضرت سلمان فارسیؓ چونکہ دوسروں سے دس گُنا زیادہ کام کر تے تھے اور وہ انصا رمیں شامل تھے اور نہ مہا جرین میں، ان کے متعلق انصار و مہا جرین میں ایک مسابقت کی فضا پیدا ہوگئی، انصار اور مہاجرین میں سے ہر ایک ان کو اپنے گروہ میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ اس کشمکش کا فیصلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فر ما یا سَلْمَانُ مِنَّا أہْلَ الْبَیْت یعنی سلمان ہما رے اہلِ بیت کی ٹو لیوں میں ہیں، گو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت دی کہ دورانِ جنگ اس طرح کی فرقہ وارانہ باتوں میں پڑ کر اجتماعی قوت میں شکن پیدا نہیں کرنی چاہیے، آج مسلمان مختلف ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے ہیں، خاندانی، مسلکی، علاقائی، لسانی ادارتی اور نہ جانے کیسی کیسی باتوں میں الجھ کر مسلمانوں نے اپنی اجتماعی قوت کھو دی ہے۔ اسلام دشمن تمام تنظیمیں اسلام کو مٹانے میں متحد ہیں؛ مگر امتِ مسلمہ میں اتحاد کا تصور بھی ناممکن معلوم ہورہا ہے۔ ظاہر ہے کہ متفرق جماعتوں اور ٹولیوں میں وہ قوت نہیں پائی جاسکتی جو اتحاد میں ہوتی ہے۔ ہر ادارہ اور تنظیم کو دوسرے کے لیے رفیق بننا چاہیے نہ کہ فریق، خاص طور پر موجودہ حالات میں اس کی سخت ضرورت ہے۔
اللہ پر یقین اور اعتماد
جب رسولِ اکرم کو بنو قریظہ کی غداری کی اطلاع دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حسبنا اللہ ونعم الوکیل:اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ اس جملہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو سبق دیا کہ تمام مصائب ومشکلات اللہ کی طرف سے آتے ہیں، لہٰذا فتح وشکست میں اللہ پر یقین واعتماد کرنا چاہیے، ایٹم بم، میزائیل، گولہ بارود اور تلوار وبندوق پر اعتماد جاہلانہ مذہب ہے، یہ ساری چیزیں اپنا اثرپہنچانے میں اللہ کی محتاج ہیں مگر اللہ تعالیٰ کو کسی کی حاجت نہیں، وہ وسائل کی کمی کے باوجود بھاری جمعیت پر غالب کرسکتا ہے، جیسا کہ جنگ بدر کی واضح مثال موجود ہے۔
جنگ کی تیاری اور اسلام
جب ابوسفیان اور دیگر قبائل میدانِ کارزار سے واپس ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اب ہم ان پر حملہ آور ہوں گے اور وہ ہم پر حملہ آور نہ ہوسکیں گے‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں اقدامی جہاد درست ہے۔یعنی حالات اگر اسلام کے مخالف ہوجائیں مسلمانوں کے لیے جینا مشکل ہوجائے تو اپنی جان ومال اور دین ومذہب کے تحفظ کے لیے ضرورتاً جنگ کی ابتداکی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے مسلمانوں کو ہمیشہ جنگ کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(الانفال: ۰۶)
ترجمعہ’’اور ان سے مقابلہ کے لیے جس قدر بھی تم سے ہوسکے سامان مہیا رکھو، قوت سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے، جس کے ذریعہ سے تم اپنا رعب رکھتے ہو، اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں پر‘‘
موجودہ عالمی حالات میں مسلمانوں کو جسمانی اور مادی دونوں اعتبار سے دشمنان اسلام کے حملوں کا جواب دینے کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ نہ جانے کس وقت غیر مسلم مسلمانوں کی جان ومان اور عزت وآبرو پر حملہ کردیں۔
جنگ میں خواتین کا کردار
اگرچہ اطمینان قلب کے لیے تمام خواتین اور بچوں کو قلعوں میں محفوظ کردیا گیا تھاتاہم وہاں رہتے ہوئے بھی خواتین نے اونچے کردار کا ثبوت دیا۔ خواتین کے ایک کیمپ کے گرد ایک یہود ی کو چکر لگاتا ہوا دیکھاگیا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا (حضورا کی پھوپھی) نے لکڑی سے اسے ہلاک کردیا۔ جس کے بعد کسی دشمن نے ادھر آنے کی ہمت نہ کی، ایک خاتون رفیدہؓ کچھ دوائیں اور مرہم پٹی کا سامان لے کر محاذ پر پہنچیں اور انھوں نے زخمیوں کی خدمت کی، حضرت سعد بن معاذکی والدہ نے بیٹے سے کہا: بیٹالپک کے جاؤ تم نے تو دیر کردی۔ (محسنِ انسانیت صفحہ: ۴۸۴) غزوۂ خندق کے علاوہ جنگ اُحد اور دوسری جنگوں میں خواتین نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ مردوں کے ساتھ بہ امر ضرورت عورتوں کو بھی جنگی تدابیر میں حصہ لینا چاہیے اور انہیں بھی اس کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔
غیر مسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک
حالات جیسے بھی ہوں غیر مسلموں کے ساتھ حسنِ اخلاق باقی رکھنا چاہیے۔ باشعور اور اہلِ فہم کے قلوب پر اس کا بہتر اثر ہوتا ہے۔ غزوۂ خندق میں حضرت علیؓ نے جب نوفل بن عبداللہ کو قتل کیا تو مشرکین نے دس ہزار درہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیے کہ اس کی لاش ہمارے حوالہ کردی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا ش مفت لے جاؤ مجھے اس مال کی ضرورت نہیں۔یقیناًاس سے دشمنوں کے دلوں پر اچھا اثر پڑا ہوگا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی تھی عین اس وقت جب کہ صحابہ کرامؓ کو مال کی سخت ضرورت ہے، دشمنوں کی ٹولیاں اسلام کی بنیاد اکھاڑ پھینکنے پر مصر ہیں مگر آپ نے ان بھیانک اور پر خطرحالات میں بھی اخلاق اور احسان کا سلسلہ جا ری رکھا۔ ایک مر تبہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحا بہ کرامؓ کے سا تھ بیٹھے ہوئے تھے‘ ایک یہودی کا جنازہ گزرا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ کر کھڑے ہوگئے۔ صحابہ کرامؓ نے سوال کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو یہودی غیر مسلم کا جنازہ ہے، اس کے احترام کی کیا ضرورت ہے؟ آپ نے فرمایا اِنَّ فِیْہِ لَنَفْسًا آخر وہ بھی تو انسان تھا۔ (مشکوٰۃ: ۷۴۱) یہ اور اس طرح کی سیکڑوں مثالیں ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کے ساتھ رواداری برقرار رکھی اور تعلقات کبھی منقطع نہیں کیے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو غیر مسلموں کے ساتھ ہمیشہ اچھا برتاؤ رکھنا چاہیے، ممکن ہے وہ مسلمانوں کے حسنِ اخلاق سے متاثر ہوکر اسلام کے قریب ہوجائیں، شکوک وشبہات سے دل پاک ہوجائے اس لیے کہ آپسی ملاقات سے بہت سی غلط فہمیاں خود بخود ور ہوجاتی ہیں۔ اسلام کے پھیلنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنِ اخلاق کا بڑا دخل ہے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیر مسلموں کے ساتھ رواداری کا برتاؤ نہ کرتے تو بیچ میں نفرت کی دیوار حائل ہوجاتی اور اسلام کی تعلیمات انھیں سمجھنے کا موقع نہ ملتا۔ دورِ حاضر کے مشہور محقق ڈاکٹر محمد حمید اللہ حیدرآبادی نے خطباتِ بہاولپور صفحہ279 تا 281 میں اس موضوع پر لطیف بحث کی ہے۔ ہندوستان کے موجودہ حالات میں بطورِ خاص اس کے مطالعہ اور سیرت نبوی کے اس پہلو پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
سیرتِ نبوی تمام مرض کا علاج
غزوہ خندق سے ملنے والے یہ چند نقوش اور پیغام ہیں، جن کی روشنی میں موجودہ عالمی حالات کے مسائل ومشکلات حل کیے جاسکتے ہیں۔ ہمیں یقین کرنا چاہیے کہ حالات کا کوئی بھی رخ ہو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل ہی تماامراض کا علاج اور امن وسکون کا ذریعہ ہے۔ آج کے موجودہ حالات میں عالمِ اسلام جن پریشانیوں سے دور چارہے، ان سے نجات پانے کے لیے ایک ہی دروازہ ہے اور وہ ہے سیرتِ نبوی، اگر ایمان مستحکم ہوجائے اور ہم نبوتِ محمدی کے سچے غلام ہوجائیں تو کائنات کی تمام چیزیں ہماری عظمت پر سجدہ ریز ہوسکتی ہیں:
؂کی محمد ﷺسے وفا تونے ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں

Short URL: http://tinyurl.com/y4etlsf2
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *