ادھوری خواہش

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: ونزہ وسیم
انسان ہزاروں خواہشیں لیے جی رہا ہوتا ہے۔مگر پوری کرنا کبھی کبھی بس میں نہیں ہوتا۔ ایسی طرح میں بھی کوئی خواب دیکھتی ہوں رائٹر بننا میرا اک خواب تھا، میں اس خواب کو قریب دس سال کی تھی تب سے دیکھتی تھی روزانہ گھر اخبار آتا تھا۔ اک عادت سی بن گئی تھی میگزین،رسائل،ڈائجسٹ میرے تکئے کے نیچے ہوتے۔دن رات انھی سے پیار کرتی سنبھال سنبھال کر رکھتی۔ آج تک میں نے اخبار کا کاغذ تک بیچا نہیں تھایا کبھی ضائع نہیں کیا۔ ہر جگہ انھی کے لئے مختص کر لیتی۔ ہا ں بہت پیار تھا میرا کتابوں سے یہ عشق سا تھا۔جو بھی ہوتا میں کہانیاں پڑھ کے ہی سوتی تھی۔اور پھر اچانک میں۔دھیرے دھیرے میں پڑھائی میں گم ہوتی گئی۔اور کبھی کبھار ہی وقت ملنے لگا تھا رسالے پڑھنے کے لیے مگر ایک دن اتفاق سے میری کلاس فیلو صوفیہ سے باتوں باتوں میں لکھنے لکھانے کی باتیں ہونے لگ گئی وہ میرے شوق سے واقف تھی۔کہنے لگی میرے ایک انکل ہیں وہ بہت اچھے ہیں۔اور بڑی بات رائٹر ہیں۔یہ سنتے ہی میں نے تجسس سے کہا مجھے کبھی ملوانا ان سے۔میں پوچھو ں گی ’’کیسے لکھتے ہیں‘‘ یہ کوئی عام بات نہیں میں بہت پریشانی کے عالم میں یہ سوچتی تھی کہ کیسے لکھتے ہیں؟ میں نے ان سے بات کرنے کا سوچ لیا تھا شاید یہی موقع تھا سوال کا جواب ڈوھنڈنے کا میں نے ضیاع نہیں جانے دیا تھا۔میں نے صوفیہ سے بات کی مجھے انکل کا نمبر لا دو۔اور اگلے دن میری دوست نمبر لے آئی۔اور گھر آتے ہی میں نے کال ملائی۔کچھ دیر بعد فون اٹھا لیا گیا تھا سلام کے بعد میں نے اپنا سوال کر دیا۔انکل مجھے لکھنے کا بہت شوق ہے پلیز کیا آپ مجھے بتایں گے کیسے لکھتے ہیں؟ جی بیٹا‘‘ جب آپ لکھ رہے ہوں تو لکھتے جائیں‘‘رکنا نہیں ہے۔ یہ بات یاد رکھیں ہمیشہ پہلے محسوس کریں پھر لکھیں ایسے لکھیں جیسے آپ حقیقت میں دیکھتے اور سمجھتے ہیں‘‘کہانی تلاش نہیں ہوتیں اپنے آس پاس دکھیں کہانیاں بکھری پڑی ہوں گی۔‘‘ میں اس ساری بات پر جی جی کرتی رہی تھی۔کال کے بعد میں ان کے اخلاق سے بہت متاثر ہوئی تھی۔دوست سے بار بار انکی باتیں کرتی رہی، اس کے بعد فاینل پیپرز شروع ہو گئے تھے ہم پڑھائی میں مصروف ہو گئے۔ایک دن صوفیہ کہنے لگی کے انکل کی طبعت آجکل ٹھک نہیں رہتی۔تب سے میں وقتا فوقتا اس سے حا ل پوچھتی رہتی۔مگر وہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے پاتی۔پیپرز کے بعد میں نے انکل سے مزید رابطہ کرنے کا سوچ رکھا تھا۔ اسکے بعد پیپرز ہونے لگ گئی اور یہ میرا آخری پیپر تھا جسکی تیاری میں کر رہی تھی۔اچانک موبائل پر مسج آیا۔میں نے دیکھا تو صوفیہ کا مسج تھا میں نے حا ل احوال پوچھاتو مجھے انکل احمد کی یاد آئی میں نے انکی طعبیت کا تو کتنے دن سے پوچھا ہی نا تھا۔صوفی انکل احمد کی طعبیت کیسی ہے۔مجھے پوچھنا یاد ہی نہیں رہا ’’ہاں یار مجھے ان کے حوالے سے ہی تم سے بات کرنی ہے‘‘ مطلب؟ہاں یار مجھے ہمت نہیں ہو رہی کیسے بتاؤں۔۔ ‘یار بتاو نہ مجھے بہت تجسس ہو رہا ہے ‘ انکل احمد کا انتقال ہو چکا ہے دو ہفتے پہلے۔کیا؟؟ اور تم مجھے اب بتا رہی ہو ۔میں ایک بار بھی نہیں سوچا تھا کے یہ بھی تو ہو سکتا ہے۔ملال کی انتہا یہ تھی کہ میں نے بہت صد مہ لیا تھا۔ میں دو سا ل تک لکھنے سے کتراتی رہی تھی مگر آج شدت سے انکی آواز یاد آتی ہے آہ وہ آخری بات تھی ان سے ایسے لگا جیسے سب خواب ادھورے رہ گئے 

Short URL: http://tinyurl.com/yy5hqw7p
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *