آگاہی

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: عائشہ یاسین،کراچی
آگاہی کے معنی جاننا، علم رکھنا اور ادراک کے ہیں۔ یہ محض ایک لفظ نہیں بلکہ ایک فارمولا ہے اور اس میں کائنات کے رموز پنہاں ہیں۔ آگاہی زندگی کے فلسفے کو بیان کرتی ہے۔آگاہی زندگی کیمختلف مراحل سے گزرنے کا نام ہے اور زندگی کے تجربے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ آگاہی اصل میں آدھی موت ہے. لڑکپن میں ہر بات کو جاننے اور سمجھنے کی جستجو تھی۔ جب تک باتیں اور ان کے معنی پوشیدہ رہی زندگی اتنی ہی دلکش اور رنگوں سے سجی معلوم ہوتی تھی۔ سب کچھ جان لینے کی لگن میں نجانے کن کن مراحل سے ہم گزرتے رہے اور بعد میں آگاہی واقعی آدھی موت معلوم ہوء۔ جب تک انسان لاعلم اور انجان رہتا ہے تو بہت سی سوچوں اور اذیتوں سے آزاد رہتا ہے جیسے جیسے علم کے مراحل طے کرتیجاتاہے ویسیویسے ہم پر ذمہ داریاں بڑھتی جاتی ہیں۔ سوچ کی یلغار اور ان کے لغوی معنی ہمارے ذہن اور دل پر اثر انداز ہوتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سارے سوالات کے جوابات ملتیجاتیہیں اور ہم دانا ہوتیجاتیہیں۔ مگر دراصل آگاہی ایک بہت ہی خوبصورت مرحلہ ہے جہاں عقل و شعور اور رہبری کا احساس ہوتا ہے۔ آگاہی انسان کے سوچ کو وسعت اور تقویت بخشتی ہے۔ ذہن کے خالی کنوبیس پر سیاہی کے اک نقطے سے شروع ہو کر قوس و قزح کے رنگ بکھیرتی ہیاور اک منظر نامہ پیش کرتی ہیاور ایک وقت ایسا آتا ہیکہ ہمارے اردگردکا ماحول پرنور ہوجاتا ہے۔ انسان پر زندگی کی معنی ظاہر ہونے لگتیہے۔ بیشک انسان معراج سے متعارف ہوتا ہیاورعلم وفہم کیدریچیکھلنیلگتیہیں۔کائنات کے تمام راز اس جانیجانیپرمنحصرہے۔ ایک خیال کا مادی مظہرتک کا سفر آگاہی کی بدولت ہے۔ کیا؟ کیوں؟ کب اورکیسیکی تھکن، انسان کوکائنات کیراز و رموز کوسمجھنے، جاننے اور آزمانے کے گر سکھاتیہیں۔ اسی لگن کی بدولت انسان ترقی کیتمام تراونچائیوں کوچھورہا ہے۔ یہ کھوج کاسفر آدم کی تخلیق سیجاری ہے۔ یہ کیااورکیوں کے پاداش میں ہونے والی تمام ایجادات نیانسان کوچاند پر قدم رکھنے پر مجبور کردیا۔ یہ رب کادیا ہوا علم ہی توتھاجس سیانسان کو برتری ملی۔ شعوراورتحت الشعور تک رساء ملی اور اسی علم کی بدولت جب رب نے آدم کو بجنی مٹی سے تخلیق کیااور روح پھونکی تو پوچھا۔ ’’قالو بلا؟””کیا میں تمہارا رب ہوں؟” تو کانوں نیسنا، آنکھوں نیدیکھااورجب شعور و عقل نے قبول کیاتو آدم نے گواہی دی کہ تو ہی میرا رب ہے۔ علم و آگاہی کا سلسلہ آدم کی تخلیق سے جاری ہوااوراس کوسوچنے سمجھنیاور پرکھنے کی طاقت ملی۔یہ سوچنیسمجھنیکی خصوصیت ہی انسان کوانسان بناتی ہے۔اس کو دوسرے حشرات الارض و سماوات سے الگ اور بالا ترکرتی ہے۔ اسی لیے اللہ نے انسان کو عدل و منزلت کی تعلیم دی تاکہ وہ اپنی عقل اور داناء کو بروےء کار لاکر تکوینی نظام کو سنبھالے اور اشرف المخلوقات ہونے کا ثبوت دے۔ اب ضرورت اس بات کی ہیکہ بے شک ہم نے ترقی کو مسخر کرلیا۔ٹائم اینڈ اسپیس پر قابو پاکرخلاوں میں آنے جانے لگے۔ ٹیکنولوجی اورسائنس میں بے تحاشہ ترقی کرڈالی پر اپنے اصل کو سراسر فراموش کردیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ آگاہی عقل وشعور کی منزلوں کے ساتھ ساتھ اپنی اصل یعنی روح تک کیسفر میں آگے بڑھنے میں کس قدر معاون ثابت ہوتی ہیکیوں کہ اس ترقی نے ہمارے جسموں کو صرف آسانی دی ہے، ٹائم اینڈ اسپیس کوکم کیا ہے،ہمارے ذہنی وجسمانی تفریح کوفروغ دیا ہے پرسکون وراحت کو معطل کردیا ہے۔انسان نے یہ علم کا وجدان صرف جسمانی ترقی میں صرف کرڈالا اور ذہنی سکون کو سلیپنگ اور انٹی ڈپریشن پلز سے مشروط کردیا اور روحانی بقا کو نظر انداز کردیا۔ علم وآگاہی کا سفر ازل سیجاری ہیاور تاقیامت جاری رہے گااور شایدمرنے کیبعدتک یہ سلسلہ قائم رہیگاجبتک کہ ہم پرابد آن نہ پہنچیاور جب تک ہم اپنے رب کواور اسکی ربوبیت کوجان اور پہچان نہ لیں تب تک آگاہی کی ضرورت قائم رہے گی۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ 
خودی کو جس نے فلک سے بلند تر دیکھا 
وہی ہے مملکت صبح و شام سے آگاھ۔۔۔!
اللہ ہمارا حافظ و ناصر ہو اور ہم پر علم و آگاہی کی در کھولیتاکے ہم اپنی ذات کاادراک کرسکیں اورخود کو پہچان سکیں۔آمین یا رب اللعالمین 

Short URL: http://tinyurl.com/ybbxx7s2
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *