ہم سارے ہی ’’کمین‘‘ ہیں اپنے خالق کے

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: حنا شاہد ، بورے والا
گھر میں آج کل کچھ تعمیراتی کام ہورہا ہے۔ پہلے تو ابا کی بیٹھک پکی کروائی ،اب صحن کا اکھڑا پلستر دوبارہ سے لگوایا جارہا ہے.جگہ جگہ اینٹیں،بجری،سیمنٹ اور ریت کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔اماں کو تو دیکھ دیکھ کے ہول پڑ رہے،اماں ٹھہری سدا کی صفائی پسند،کیونکر برداشت ہوتا اتنا’’ کھلارا‘‘؟؟؟ شام کو مستری کام مکمل کر کے جانے لگے تو اماں نے مستریوں کے ساتھ آئے گاؤں کے بوڑھے کمین مزدور کو روک کر ’’چاچا! کم (کام)تو سارا مک گیا اب کل دیہاڑی پہ آکے آپ یہ سارا کھلارا سمیٹ دینا۔میں تو خود ہی کرلیتی،مگر یہ کمر کا درد تو لگتا قبر تک ساتھ جائے گا اور اوپر سے یہ اولاد بھی کسے کھاتے کی نہیں‘‘۔اماں کمر پہ ہاتھ دھرے گھور کے میری طرف دیکھ رہی تھیں۔ میں نے احتجاج کرنا چاہا لیکن بابا جی کے سامنے چپ میں ہی عافیت سمجھی۔ کمین بابا نے خوشی سے ہامی بھرلی۔انہیں اور کیا چاہیے تھا ایک دن کی دیہاڑی کا بندوبست ہو گیا تھا۔ اگلے دن بابا صبح ہی صبح آگیا، پھر جو جڑے کام پہ کہ پل بھر بھی سانس لینے کو نہ رکے۔ساٹھ سال کے بابا کی پھرتی دیکھ کے میں حیران رہ گئی۔’’اماں! تو اچھا نہیں کر رہی۔۔۔بیچارے بوڑھے سے اتنا کام کروا رہی ہے‘‘۔ میرے دل میں انسانیت کی جو تڑپ تھی وہ ابل ابل کے باہر آرہی تھی۔ ’’تو بوتی میری ماں نہ بن،میں بھی غریب کا بھلا ہی سوچ رہی ہوں۔اب تو مجھے سبق پڑھائے گی‘‘؟ اماں گویا برا مان گئی۔لیکن میرے دل کو قرار نہیں آرہا تھا۔ مگر جب شام کے وقت اماں کو بابا کو پانچ سو کی جگہ ہزار روپے مزدوری اور کپڑوں کے دو سوٹ دیتے دیکھا تو۔۔۔تو دل کو ٹھنڈ پڑ گئی۔لیکن اماں جب بابا کو پیسے دے کے دروازے سے واپس مڑی تو منہ اترا ہوا سا تھا”۔کیا ہوا اماں؟‘‘میں نے پریشانی سے پوچھا اماں میرے پاس چارپائی پہ بیٹھتے ہوئے بولی’’:پتر یہ جو کمین لوگ ہوتے ہیں نا، یہ کبھی خوش نہیں ہوتے،انہیں جتنا مرضی دے لو یہ کبھی شکر نہیں کرتے۔ لو بتاؤ بھلا دوگنی دیہاڑی کے ساتھ دو لٹھے کے سوٹ دیے اور پوچھ لیا، چاچا خوش ہیں نا؟کہتا مرضی ہے پت ۔کیا تھا جو خوش ہوجاتا،شکریہ ادا کرتا، دعا دے دیتا، مگرنہ جی یہ کمین لوگ کبھی خوش نہیں ہوتے۔یہ ہوتے ہی ناشکرے ہیں۔کمین جو ہوئے آخر‘‘۔اماں پھولے منہ اور بجھے دل کے ساتھ اٹھ کے باورچی خانے میں چلی گیءں۔ اور سبزی کاٹتے میرے ہاتھ وہیں رک گئے۔اماں کمین کون ہوتے ہیں؟کمین تو ہم سب ہیں اوپر والے کے کمین۔۔ ہم بھی تو یہی کرتے ہیں۔ وہ جتنا مرضی نواز دے نہ کبھی خوش ہوتے نہ کبھی شکر کرتے ۔پھر آج بابا سے شکوہ کیوں؟اسی پاک ذات کے دییے ہوئے میں سے تھوڑا سا اس کی مخلوق کو دے دیا تو پھر صلے کی امید کیسی؟وہ کب ہم سے صلہ چاہتا ہے؟کب ہم سے حساب مانگتا ہے؟شکر کریں یا نہ کریں،دیتا ہے ناپھر بھی ہر حال میں؟ پھر اماں ہمیں کیوں اتنا دکھ ہوتا ہے؟وہ اللہ بھی تو یہی چاہتا ہے نا کہ اس کے دیے پہ راضی رہیں ہر حال میں اس کا شکر ادا کریں۔ یہ تو نا انصافی کی اماں تو نے بابا کے ساتھ ،ہم سارے ہی کمین ہیں اپنے خالق کے اس کے ہاں تو سب برابر بس تقویٰ والے کا معیار تھوڑا اونچا ہے پر ہم گناہگاروں کو کہاں تقویٰ عطا ہو گا؟اور کیسے ہوگا؟سوچوں کا تسلسل ٹوٹا تو میں نے خود کو سجدہِ شکر میں پایا۔

Short URL: http://tinyurl.com/y78nnkzo
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *