پاک چین اقتصادی راہداری: چیلنجز کیا ہیں؟

asif-khurshid-rana
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: آصف خورشید رانا، اسلام آباد
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاک چائنہ اقتصادی راہداری کا منصوبہ صرف پاکستان کے لیے ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ دنیا کے لیے بھی معاشی خوشحالی اور امن و استحکام کی نوید ہے۔ یہ منصوبہ چین کی اس تھیوری کی عملی شکل بھی ہے جس کے مطابق باہمی تعلقات اور امن کے لیے مخاصمت کی بجائے معاشی ترقی کو فروغ دیا جانا ضروری ہے ۔ اقتصادی راہداری میں رکاوٹوں کے باوجود پاک چین نے بھارت سمیت ہر ملک کو شرکت کی دعوت دی ہے ۔ ایران ، قطر، یواے ای ، سعودی عرب تو پہلے ہی اس منصوبہ میں شرکت کا اعلان کر چکے ہیں جبکہ اٹلی بھی بیلٹ اینڈ روڈ کے انفرا سٹرکچر کا حصہ بن کر اس منصوبے میں شامل ہو چکا ہے ۔ اقتصادی راہداری کے اس منصوبے کی مالیت ساٹھ ارب ڈالر سے زائد ہو چکی ہے اور اس کے مکمل ہونے تک 2.3ملین ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ مختلف منصوبوں میں انفراسٹرکچر سے لے کر توانائی کے منصوبوں کی تکمیل پر پاکستان ایک نئے صنعتی دور میں داخل ہو جائے گا ۔ گزشتہ چند سالوں میں پاکستان اس کے ذریعے توانائی کے منصوبے مکمل کرنے کے بعد لوڈ شیڈنگ سے چھٹکارا حاصل کر چکا ہے ۔2008سے لے کر 2015تک پاکستانی عوام نے ملک میں بدترین لوڈشیڈنگ کا سامنا کیا ہے لیکن اب یہ صورتحال بتدریج کم ہو کر تقریباًختم ہو چکی ہے ۔ بجلی کی پیداوار ملک کی ضروریات کو پورا کر رہی ہے البتہ کہیں مینجمنٹ اور انفراسٹرکچر کے مسائل کی وجہ سے کچھ مشکلات کا سامنا ضرور ہے تاہم توانائی کی کمی پایا جا چکا ہے ۔رواں سال کے آغاز تک 11,110میگا واٹ کے 15توانائی کے منصوبوں میں چار ہزار سے زائد میگا واٹ کے سات منصوبے مکمل ہو چکے ہیں جبکہ چھ منصوبوں پر کام تیزی کے ساتھ جاری ہے جو رواں سال کے اختتام سے قبل مکمل ہو جائے گے۔ ایک جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے آغاز سے قبل پاک چین اقتصادی راہداری کے گیارہ منصوبے مکمل ہو چکے ہیں جبکہ گیارہ منصوبوں پر کام کیا جا رہا ہے ۔ مزید سترہ منصوبے پائپ لائن میں ہیں جن کی تکمیل کے بعد پاکستان کی معاشی ترقی میں ایک نیا انقلاب پیدا ہو جائے گا ۔ اس معاشی ترقی سے جہاں پاکستان کے عوام کو فائدہ ملے گا وہیں وسط ایشیا کی ریاستیں ، مشرق وسطیٰ کی ریاستیں ، روس ، افغانستان سمیت یورپ کے کئی ممالک براہ راست ترقی کی اس چین میں شامل ہو جائیں گے ۔ پاکستان کی دوسری بندرگاہ گوادر دنیا بھر کی تجارت کا حب بن جائے گی ۔ اب تک گوادر میں 250ملین ڈالر کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے ۔گوادر پورٹ میں پانچ نئی کرینیں نصب کی جا چکی ہیں ۔ دو لاکھ بیس ہزار گیلن پانی روزانہ صاف کیا جا رہا ہے ۔ سیوریج ڈسپوزل سسٹم اور کارگو ہنڈلینگ کے جدید اور بہترین آلات کے باعث اس کا شمار دنیا کی جدید بندرگاہوں میں ہو گا۔
پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کے خلاف اگرچہ مختلف انداز اور مختلف عناصر کی جانب سے پراپیگنڈہ بھی کیا جا رہا ہے جس کی مختلف وجوہات ہیں ۔ بھارت و امریکہ کی جانب سے اقتصادی راہداری کے منصوبوں کو ہر حال میں روکنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں جبکہ بلوچستان اور فاٹا کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں بھی کی گئی جن میں نہ صرف پاکستانی عوام کو ہدف بنایا گیا بلکہ چین سے تعلق رکھنے والے ماہرین کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تاہم دونوں ممالک کی قابل اعتماد دوستی نے ایسے تمام ہتھکنڈوں ک مسترد کرتے ہوئے دوستی اور ترقی کا یہ سفر جاری رکھا جو خوش آئند ہے ۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ قیام پاکستان سے لے کراب تک چین ایک قابل اعتماد دوست کے طورپر سامنے رہا ہے ۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے چین نے ہر موقع پر اپنا تعاون پیش کیا ۔ دفاع سے لے کر زراعت تک کے شعبہ جات میں پاک چین تعاون کی کئی مثالیں موجود ہیں ۔ پاک چین دوستی محض ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ اس کی جڑیں عوام کے اندر بھی ہیں دونوں ممالک کے عوام بھی ہر موقع پر ایک دوسرے کے ساتھ والہانہ انداز میں دوستی کا اظہار کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اقتصادی راہداری کے خلاف ہونے والے تمام پراپیگنڈہ کو دونوں ممالک کے عوام نے بھی کوئی اہمیت نہیں دی اور یوں ایسے عناصر بری طرح طرح ناکام ہوگئے ۔ اب جبکہ یہ دوستی کا سفر ایک نئے اقتصادی انقلاب کی منزل کی جانب گامزن ہے تو تعلقات کی نئی جہتیں بھی سامنے آرہی ہیں ۔ گزشتہ دنوں انٹر نیشنل فورم فار کالمنسٹ اور اینکرز کے ایک وفد نے چینی سفارتخانہ میں اقتصادی راہداری کے انچارج زاؤ لی جیان سے ملاقات کے دوران انہی امور کے متعلق تفصیلی گفتگو کے دوران منصوبے میں آنی والی مشکلات کے حوالہ سے بھی کئی باتیں سامنے آئیں ۔لی جیان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے دوران دوستی کا قابل اعتماد رشتہ موجود ہے اور اسے کسی طرح فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ اقتصادی راہداری کا یہ منصوبہ پاکستان کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی گیم چینجر ثابت ہو گا۔ چین نے ہمیشہ تھرڈ پارٹی کی شرکت کو سراہا ہے تاہم اگر سعودی عرب بھی شامل ہوتا ہے تو چین کو کوئی اعتراض نہیں تاہم اب دعوے کرنے کی بجائے اعلانات پر عمل ہونا چاہیے ۔ چین پاکستان کے توانائی کے مسائل سے آگاہ تھا اسی لیے ان منصوبوں کو اولیت دی گئی اور اب ملک میں توانائی کی ضروریات پوری ہو چکی ہیں ۔ گزشتہ حکومت کے پانچ سالوں میں اقتصادی راہداری کے منصوبوں پر تیزی کے ساتھ کام جاری رہا لیکن حکومت کی تبدیلی کے عمل کی وجہ سے رفتار میں کچھ سستی دیکھنے میں ملی جو یقیناًایک قدرتی عمل ہے تاہم اب پھر سے منصوبوں پر کام میں تیزی آ رہی ہے ۔ کچھ معاملات میں ابھی بھی مسائل کا سامنا ہے جس کی بڑی وجہ انتظامیہ میں تبدیلی ہے اور امید ہے کہ نئی آنے والی انتظامیہ بھی اسی طرح کام جاری رکھے گی ۔لی جیان نے توقع ظاہر کی کہ اپریل میں ہونے والی بیلٹ اینڈ روڈ سمٹ میں وزیراعظم عمران خان کی شرکت کے بعد مزید رفتار تیز ہو جائے گی ۔ چین آنے والوں دنوں میں پاکستان کے سوشل سیکٹر میں ایک ارب سے زائد ڈالر کی امداد بھی دے گا ۔ گوادر میں بجلی گھر اور ائیرپورٹ کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صوبائی اور وفاقی حکومت کو اس پر کام کرنا چاہیے کیونکہ گوادر کی ترقی اور جدید بندرگاہ بننے کے لیے یہ دونوں چیزیں بہت ضروری ہیں ۔
خطے میں موجود مسئلہ کشمیر اور افغان جنگ کی موجودگی اقتصادی راہداری کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے ۔چین اس بات پریقین رکھتا ہے کہ جنگیں مسائل کا حل نہیں بلکہ امن اور تجارت میں ہی عوام کی فلاح و بہبود کا راز چھپا ہے۔ تاہم کسی بھی قسم کی جارحیت کے نتیجہ میں چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے ۔ بھارت کی جانب سے مسلسل دھمکیوں اور پھر بھارتی طیاروں کی جانب سے جس انداز میں پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کی چین نے اس پر بھی ردعمل کا اظہار کیا تھا اور پاکستان کے جوابی ردعمل پر چین بھی مطمئن نظر آتا ہے ۔اس وقت اقتصادی راہداری کے لیے مسئلہ کشمیر اور افغان جنگ دونوں ایک بہت بڑا خطرہ بن کر سامنے آرہے ہیں ۔ اگر یہ دونوں مسائل ختم نہ ہوئے تو خطے میں امن و استحکام کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی اور اس کے نتیجہ میں ترقی کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے خطے پر پائیدار اور دیرپا اثرات برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ دونوں مسائل حل ہوں اگرچہ افغان جنگ اب کسی حل کی جانب بڑھتی نظر آرہی ہے تاہم بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث مسئلہ کشمیر جوں کا توں ہے بلکہ دونوں ممالک میں مزید ٹینشن بڑھنے کا باعث بن رہا ہے جو کسی بھی وقت کسی بھی ایک عمل کے باعث دونوں ممالک کو پھر سے جنگی دہانے پر لا کھڑا کر دے گا ۔ اگرچہ امریکہ و دیگر عالمی طاقتیں جن کی معیشت کا دارومدار اسلحہ کی صنعت سے وابستہ ہے وہ اس مسئلہ کے حل کے لیے عملی کردار ادا کرنے سے گریزاں ہیں تاہم چین کو بیلٹ اینڈ روڈ اور اقتصادرہ راہداری کے منصوبوں کی مستقل بنیادوں پر ترقی کے لیے ان مسائل پر اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ورنہ شاید خطے کی ترقی کا خواب پورا نہ ہو سکے اور جنوبی ایشیا کی بڑی آبادی اس کے ثمرات سے فائدہ نہ اٹھا سکے ۔

Short URL: http://tinyurl.com/y4s5pqh8
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *