پاکستانی دستاویزی فلم انڈس بلُوز کو انڈیا میں دو ایوارڈز سے نوازا گیا
پاکستانی ہدایت کار جواد شریف کی دستاویزی فلم انڈس بلُوز کو انڈیا میں جاری جے پور انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں دو اہم ترین ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ یہ دونوں ایوارڈ فلم کو بیسٹ فیچر ڈاکیومنٹری اور بیسٹ سینمٹوگرافی کے لیے ملے ہیں۔
جواد شریف کی دستاویزی فلم اُن لوک موسیقاروں کے بارے میں ہے جو اپنا فن حرام سمجھ کر اور دباؤ میں آکر چھوڑ رہے ہیں۔ اس فلم کے لیے جواد شریف اور ان کی ٹیم کے باقی ممبران نے پاکستان کے مختلف صوبوں اور شہروں کا دورہ کیا اور ان سب موسیقاروں سے بات کی جن کو پاکستان کی زیادہ تر عوام بھول چکی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جواد شریف نے کہا کہ راجستھان کے شہر جے پور میں جاری فلم فیسٹیول میں کافی سخت مقابلہ ہونے کے باعث انھیں امید نہیں تھی کہ ان کی فلم سرِ فہرست آئے گی۔’جب یہ خبر ملی تو ہماری پوری ٹیم کو بہت خوشی ہوئی۔ اور ساتھ یہ بھی لگا کہ وہاں پر رہنے والے ہماری فلم کے پیغام کو سمجھ سکتے ہیں۔‘
دوسری طرف پاکستان میں اب تک اس فلم کا صرف ٹریلر ہی ریلیز ہوا ہے جبکہ پوری فلم اب تک منظرِ عام پر نہیں آئی ہے۔
اسی طرح جواد نے بتایا کہ فلم کو ریلیز کرنے کے لیے انھوں نے سینسر بورڈ کے دو سے تین چکر لگائے ہیں لیکن معاملہ اب تک حل نہیں ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ فلم میں موجود چند مناظر اور کہی گئی باتوں کو سینسر بورڈ نے’حساس‘ قرار دیا ہے جس کے بعد وہ اس عمل کے مکمل ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔
پاکستان کے مرکزی فلم سنسر بورڈ کے چیئرمین دانیال گیلانی نے فلمساز کی بات کی تردید کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ دستاویزی فلم انڈس بلو کو سنسر بورڈ کے قوانین اور ممبران کی رائے کی روشنی میں 12 دسمبر 2018 کو سنسر سرٹیفیکیٹ دے دیا گیا تھا۔
’اس کی ایک تو بہت بڑی وجہ یہ سوچ ہے کہ یہ ہماری ثقافت کا حصہ نہیں ہے۔ اور یہ کہ ہمارا مذہب موسیقی سننے کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن ساتھ یہ بھی ہے کہ یہ ایک انڈیپنڈنٹ فلم ہے اور اس طرح کی فلموں کی معاشی سپورٹ بہت کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ سامنے نہیں آتیں۔‘
جواد شریف کا کہنا تھا کہ اگرچہ انہیں پاکستان کے مرکزی فلم سسنسر بورڈ سے سرٹیفیکیٹ مل گیا ہے لیکن ابھی وہ فلم کے چند اہم حصے حذف کیے جانے کے خلاف اپیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں فلم کی ریلیز رکی ہوئی ہے۔
جواد شریف نے بتایا کہ دستاویزی فلم کی شوٹنگ کے دوران ان کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے اس فلم کو صرف بننے میں ہی دو سال لگ گئے۔
’پشاور کی ایک یونیورسٹی میں جب ہم پاکستان کے واحد سازندہ نواز کا انٹرویو کرنے پہنچے تو وہاں چند طالبعلموں نے ہمیں روک لیا۔ ہم نے انھیں کہا کہ یہ آخری ساز ہے اور یہ اس کو بجانے والے آخری سازندہ نواز ہیں، اور ہمیں اسے محفوظ کرنا چاہئیے۔ ہمیں آگے سے جواب ملا کہ گانا بجانا ہمارے کلچر کا حصہ نہیں ہے۔‘
Leave a Reply