ٹامک ٹوئیاں

Hadayat Ullah Akhtar
Print Friendly, PDF & Email


نہ ہم نے پہلے ٹامک ٹوئیاں ماری ہیں اور نہ اب ٹامک ٹوئیاں مارنے کا ارادہ ہے یہاں جو عنوان میں نے چُنا ہے وہ ان لوگوں کے لئے ہے جو 1947 سے ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں میں ماضی کی ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں کی ٹامک ٹوئیوں کی کوئی داستان بیان نہیں کرنے لگا ہوں اور نہ ہی ان ٹامک ٹوئیان مارنے والوں کی شکائتیں پیش کرنے کا ارادہ ہے جن کی بدولت گلگت بلتستان کے باسی ان ٹامک ٹوئیان مارنے والوں کے نرغے میں آکر اپنے اکہتر سال گنوا بیٹھے اور ایک فریب اور سراب کے پیچھے دوڑتے رہے۔ان اکہتر سالوں میں یہاں بسنے والے لوگوں کی حالت اس مسافر کی سی ہوگئی جو صحرا میں سفر کرتا ہے اور پیاس کی شدت سے ندھال ہے اور دور ریت میں اسے پانی دکھائی دیتا ہے اور وہ اس خوش فہمی اور امید میں کہ آگے پانی ہے اور اس کی پیاس بجھ جائیگی صحرا میں گمنام ہوجاتا ہے۔بلکل اسی طرح ان اکہتر سالوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہم بھی صحرا کے اس سراب میں کھو گئے تھے کہ آگے پانی ملنے والا ہے ۔ مگر جب سپریم کورٹ آف پاکستان کا حقیقت پر مبنی فیصلہ آیا تو ہمارے منہ سے بھی بے ساختہ میر کا یہ شعر نکلا 
کچھ نہیں بحرِ جہاں کی موج پر مت بھول میر
دُور سے دریا نظر تا ہے لیکن ہے سَراب
ہم نے حقیقت سے کبھی آنکھیں نہیں چُرائی ہیں اور نہ ہی بے جا کی تعریف کے فن سے آشنا ہیں ہم یہ بات پہلے سے لکھتے آئے ہیں اور یہ باور کرانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے کہ جی بی والے کشمیری نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی انہیں کشمیری بنا سکتا ہے ہم نے ہمیشہ زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر مسلے کو پرکھنے کی کوشش کی ہے۔اور زمینی حقائق اور بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں گلگت بلتستان کی قانونی اور آئینی حثیت کو اجاگر کیا ۔ اسی ناطے جی بی کے باسیوں کو سراب کی دنیا سے نکال کر حقیقی دنیا میں زندگی گزارنے اور عصر حاضر کے تقاضوں کو سمجھنے کا درس دیا۔ اب جب کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا ایک واضح فیصلہ آچکا ہے مگر اب بھی کچھ لوگ ٹامک ٹوئیاں مارنے کے کارن کو برقرار رکھنے پر تلے اور اپنی ٹامک ٹوئیوں کو پھر سے گانے اور سنانے کی نوید سنا رہے ہیں ۔اب آپ یہ بھی سوچ رہے ہونگے کہ بھائی میں کیا پہیلیاں بجھا رہا ہوں جی نہیں یہ معمہ یا پہیلی نہیں یہی تو اصل کہانی ہے جو میں آپ کو بتانے کی کوشش میں ہوں اپ لوگ شائد ٹامک ٹوئیوں والے لفظ میں الجھ گئے ہیں الجھنے کی کوئی ضرورت نہیں میں بتا ہی دیتا ہوں شائد اپ نے لکڑہارے کی کہانی نہیں پڑھی ہے جو روز جنگل میں لکڑیاں کاٹنے جایا کرتا تھا ایک دن جنگل میں اس لکڑہارے نے دو شکاریوں کو دیکھا جو کچھ تلاش کر رہے تھے ۔لکڑہارے کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ کسی زمانے میں یہاں ایک خزانہ چھپایا گیا تھا آپ کو معلوم ہے ۔لکڑہارے کا جواب نفی میں تھا ۔شکاری جو خزانہ تلاش کر رہے تھے ان میں ایک بوڑھا تھا اور ایک جوان ۔بوڑھا شکاری نوجوان شکاری کو کبھی ایک جگہ کا بتا کر کھدائی کرواتا اور کبھی دوسری جگہ دکھا کر اسے کھدائی میں مصروف رکھتا لیکن خزانہ تھا کہ مل ہی نہیں رہا تھا ۔پھر ایک دم سے بوڑھے نے ایک درخت کی طرف اشارہ کرکے نوجوان شکاری کو بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ خزانہ یہاں دفن ہو نوجوان شکاری نے جو پہلے ہی کھدائی کرکر کے تھک چکا تھا، چڑکرکہا آپ کو کچھ پتہ بھی ہے ، کچھ اندازہ بھی ہے یا پھر ایسے ہی”ٹامک ٹوئیاں ماررہے ہیں۔اب تو بات آپ سمجھ گئے ہونگے جی بی کے سیاسی لیڈر اور عوام کی حالت بھی اکہتر سالوں سے ان دو شکاریوں جیسی ہے جس میں ہماری آزادی کی کہانی چھپی ہوئی ہے اور اس مفروضے کی ہی بدولت ہمارے الحاقی پاکستانی بھائی اور الگ حکومت بنانے والے کبھی کچھ اور کبھی کچھ حیلے اور بہانوں سے ادھر ادھر کی ہانک کر عوام کو ریاست جموں و کشمیر کے تاریخی حقائق سے نا آشنا رکھ گلگت بلتستان کے عوام کو ایک صحیح سمت جس کا تعین سپریم کورٹ آف پاکستان نے کر دیا ہے ۔اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے عوام کو تھکا نے اور انہیں پٹری سے اتارنے کے لئے پھر سے ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں

Short URL: http://tinyurl.com/yb3q9yuh
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *