وہ غار کے ساتھی! صدیق اکبر رضی اللہ عنہ

Ahmad Zeeshan Chugtai
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: احمد ذیشان چغتائی 
رات کی تاریکی نے دن کے اجالے دھندلا دیے ہیں،مکہ کی گلیوں میں ہو کا عالم ہے،دن کے تھکے ہارے لوگ دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے اپنے بستر پر دراز ہیں، بنی آدم تو کیا چرند پرند کی آواز بھی رات کے سناٹے میں مخل نہیں ہورہی، ایسے عالم میں اذنِ ربی سے انہیں سفر درپیش ہے، وہ اپنے دل وجان سے زیادہ عزیز دوست کے کبھی آگے چلتے ہیں تو کبھی پیچھے، کبھی دائیں ہو لیتے ہیں اور کبھی بائیں، انہیں سمجھ نہیں آ رہی، میں اپنے دوست پر بادل کی طرح چھا جاؤں یا آسمان کی طرح سایہ فگن ہو جاؤں، کیسے انہیں اہل کفر کی نظروں سے چھپا لوں اور دور کہیں لے جاؤں، ان کے چہرے پہ عجیب سی پریشانی چھائی ہوئی ہے، غم وحزن کی عجیب سی کشمکش میں مبتلا ہیں، ان کے دوست کوئی اور نہیں بلکہ سیدالانبیا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، اور وہ خود سید الصحابہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں۔
پیغمبر علیہ السلام ان سے پوچھتے ہیں “اے ابو بکر! کیا بات ہے؟ اتنے پریشان کیوں ہو؟ پریشانی کے عالم میں کبھی آگے اور کبھی پیچھے کیوں چلنے لگتے ہو؟” 
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ عرض کرتے ہیں۔ “یارسول اللہ ﷺ! مجھے جب خیال آتا ہے، کوئی دشمن آگے سے نہ آجائے، تو میں آگے آجاتا ہوں،پھر مجھے خیال آتا ہے کہ کوئی دشمن پیچھا کرتا ہو ا آپ پر حملہ آور نہ ہوجائے، تو میں پیچھے آجا تا ہوں، یہی سوچ کر میں کبھی دائیں جانب آجا تا ہوں اور کبھی بائیں جانب، یہ غم وحزن میں مبتلا میرا خیال ہے میں جس کی پیروی کر رہا ہوں۔
یہ سن کر سید الانبیاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آنکھیں چھلک جاتی ہیں،سفر اسی طرح کٹتا رہتا ہے، غارثور کے قریب پہنچتے ہی صدیق اکبرؓ کے عشق کا پھرسے امتحان شروع ہو جاتا ہے، وہ عرض کرتے ہیں” یارسول اللہ! زمین نوکیلی ہے مبادا آپ کے پاؤں زخمی ہو جائیں، آپ میری پیٹھ پہ سوار ہوجائیے.” نبی کریم علیہ السلام ان کی پیٹھ پہ سوار ہو جاتے ہیں،وہ چار میل کی اونچائی پہ نبوت کا وزن کندھوں پہ اٹھا کہ چڑھ جاتے ہیں،آپ علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ نبوت کو بوجھ تو نے اٹھاکر آج اپنے اوپر جنت واجب کرلی ہے۔
غار کے دہانے پہنچ کر نبی کریم علیہ السلام کی خدمت میں عرض کرتے ہیں “یارسول اللہ! رکیے، پہلے مجھے غار کی صفائی کرنے دیجئے، تاکہ آپ کو کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے اور اگر کوئی موذی ہو تو مجھے تکلیف پہنچائے.۔
آپ رضی اللہ عنہ غار کے اندر تشریف لے جاتے ہیں، اپنی پگڑی کو پھاڑ پھاڑ کر سارے سوراخ بند کرتے ہیں پھر بھی سوراخ بچ جاتے ہیں تو کرتا اتار لیتے ہیں، پھربھی ایک سوراخ بچ جاتا ہے تو وہاں ایڑی رکھ لیتے ہیں اور عرض کرتے ہیں ،یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تشریف لائیے، پیغمبر علیہ السلام سیدنا صدیق اکبر ؓ کی گود میں سرمبارک رکھ لیٹ جاتے ہیں، ایڑی والے سوراخ سے سانپ آتا ہے اور ڈنک مارنا شروع کرتا ہے، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جامد وساکت بیٹھے رہتے ہیں کہ حرکت سے نبی کریم علیہ السلام کے آرام میں خلل واقع نا ہو جائے،درد کی شدت اور زہر کی حدت جب حد سے بڑھتی ہے تو آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں جو ،سیدھے آقائے دوجہاں کے رخسار مبارک پر پڑتے ہیں،جس سے آپ علیہ السلام کی آنکھ کھل جاتی ہے. تو پوچھنے پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ عر ض کرتے ہیں “یا رسول اللہ! سانپ کے ڈسنے سے آنکھوں میں نکل آئے ہیں”آپ علیہ السلام اپنا لعاب مبارک لگاتے ہیں تو لعاب لگتے ہی درد کافور ہو جا تا ہے۔ 
یہ محض ایک واقعہ ہی نہیں، عشق و محبت کی ایسی لازوال داستان ہے جس کی مثال دینے سے دنیا قاصر ہے، اور ایسی مثالوں سے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی زندگی بھری پڑی ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے ابو بکر میری ساری زندگی کی نیکیاں لے مجھے بس غار والی نیکیاں دے دیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آخری وقت میں جیش اسامہ کی روانگی کا حکم صادر فرمایا تھا جو آپ کی وفات کا سن کے واپس آگیا تھا، اور اسلام اس وقت اندرونی و بیرونی خلفشار کا شکار تھا، تو صحابہ کرام نے اس کے مو قوفیت کا مشورہ دیا تو فرمانے لگے
“قسم اس ذات کی جس کی قبضہ قدرت میں میری جان ہے،اگر بھیڑیے آکر مجھ پہ حملہ آور ہوں اورمیری بوٹیاں نوچ نوچ کر کھائیں تو میں تب بھی اس لشکر کو نہیں روکوں گا جس کا حکم آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم صادر فرما گئے ہیں. میں کون ہو تا ہوں آقاکے حکم سے روگردانی کرنے والا۔
یہ وہ ہستیاں ہیں جن کی زندگیا ں ہمارے لئے مشعل راہ ہیں، ان کا عشق رسول دیکھئے ان کی تابعداری دیکھئے،کیا ہم بھی کھوکھلے نعروں اور جھوٹے عشق کے دعووں کے علاوہ عملی طور پہ بھی کچھ کرسکتے ہیں یا نہیں، جس طرح ان ہستیوں نے اپنی زندگیاں اپنا تن من دھن سب کچھ اس دین کے لیے اور آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم پہ وار دیا۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

Short URL: http://tinyurl.com/y4yzzgqe
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *