وفاداری۔۔۔۔ تحریر: محمد رضوان خان

Muhammad Rizwan Khan
Print Friendly, PDF & Email

آخر کچھ تو مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ہمارے تمام مسائل لا ینحل ہیں۔ ہم آج اس اسٹیج پر آچکے ہیں کہ ہم باہر کھانے سے پرہیز پر مجبور ہیں۔ ہر روزایسی تباہ کن خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ لوگ خوراک جیسی بنیادی ضرورت سے بے زار ہوچکے ہیں ۔ اگر تمام مسائل کی جڑوں کو کھودا جائے تو نتیجہ ایک ہی برآمد ہوتا ہے کہ ہم پرلے درجے کے بے وفا اور دھوکے باز ہیں ۔ ہماری بے وفائیوں کی فہرست خاصی طویل ہے۔ پہلے ذرا کچھ وفا کا ذکر ہوجائے۔ یہ کہانی وفا کی کتاب کا شائد آخری باب ہے اس کے بعد وفا کی کتاب ختم ہو جاتی ہے۔ پچھلے قریب چھ سالوں سے ایک کیپٹن نامی کتے نے وفا کے باب رقم کئے ہیں ۔ اس کی لازوال وفا نے اسے امر کردیا ہے ۔ یہ چھ سال سے ہر رات اپنے مالک کی قبر پر گزارتا ہے۔ اس کا مالک میگل گز مین کا چھ سال قبل وفات پا گیا۔ مالک کی وفات کے ساتھ ہی کیپٹن بھی غائب ہوگیا ۔ آخری رسومات کی ادائیگی تک وہ اپنے مالک کے تابوت کے ساتھ رہا لیکن جونہی آخری رسومات کی ادائیگی ختم ہوئی کیپٹن بھی غائب ہوگیا۔ خاندان نے کیپٹن کو تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ سراغ رسانوں کی خدمات حاصل کی خود بھی ادھر ادھر بھاگے دوڑے مگر لاحاصل کیپٹن نہ تو کسی کو دکھائی دیا نہ ہی کوئی اس کا سراغ تلاش کرپایا۔ قریب ایک ہفتے کے بعد قبرستان سے شام کی شفٹ کے ملازمین نے ایک کتے کو ایک قبر کے اوپر لیٹے دیکھا ۔ انہوں نے قبرستان کے مالیوں سے رابطہ کیا قبرستان کی انتظامیہ نے متعلقہ فیملی سے رابطہ کیا ۔ خاندان کے افراد قبرستان آئے اور فورا کیپٹن کو اٹھایا اور گھر واپس لے گئے لیکن ہر شام کو کیپٹن گھرکی دیواروں پر پنجے مار کر باہر جانے کی ضد شروع کردیتا روتا بھونک کر غصے کا اظہار کرتا کیپٹن کو چھوڑ دیا جاتا وہ تمام رات باہر گزارتا اور صبح ہونے سے پہلے واپس لوٹ آتا۔ خاندان نے کھوج لگائی تو پتا چلا کیپٹن گھر سے آزاد ہونے کے بعد تین میل کا فاصلہ طے کرکے ہر رات واپس قبرستان جاتا تمام رات اپنے مالک کی قبر کی حفاظت کرتا اور علی الصبح واپس گھر لوٹ آتا ۔ قریب سات سال سے وفاداری کا یہ سفر جاری ہے قبرستان والے ہر شام اس وقت تک گیٹ بند نہیں کرتے جب تک کیپٹن قبرستان میں داخل نہ ہوجائے۔ کیپٹن کبھی لیٹ نہیں ہوتا یہ شام چھ بجے سے پہلے قبرستان میں داخل ہوجاتا ہے یہ تمام رات مالک کی قبر پر لیٹ کر گزارتا ہے مالک کی بھر پور حفاظت کرتا ہے یہاں تک کہ مالی آکر قبرستان کا گیٹ کھولتے ہیں تو کیپٹن بھی واپس گھر لوٹ جاتاہے۔ انٹرنیٹ پر کیپٹن کی رئیل تصاویر موجود ہیں وفا کی اس کہانی سے کیپٹن اور اس کے مالک دونوں کو امر کردیا ہے۔ آپ اگر قبر پر لیٹے کیپٹن کی تصویر دیکھیں تو آپ کو یقین ہی نہیں آتا کہ جس مزین قبر پریہ لیٹا ہے یہ قبر ہے ۔ سیا ہ سنگ مرمر سے بنی یہ قبر بذات خود آرٹ کا ایک نمونہ ہے ۔ قبر کے اردگرد پھولوں کے پودے ہیں اور سر سبز گھاس ہے ۔ یہ کہانی بتاتی ہے کہ وہ لوگ قبرستان کو بھی مزین رکھ کر اپنی تہذیب کا بھرپورثبوت دیتے ہیں۔ قبرستانوں میں بنچزبھی مختلف 249مقامات پر لگانے کا رواج ہے ۔ تاکہ آنے والے قبروں میں سوئے خاموش دنیا کے مسافروں کے رشتہ دار عزیز سکون سے تسلی سے بیٹھ کر کر اپنے لواحقین کو یادکر سکیں ان کی یادوں کو تازہ کرکے خوب قہقہے لگا سکیں رو سکیں جو پڑھنا ہے پڑھ سکیں۔قبرستانوں کے گرد پراپر جنگلہ یا دیوار بنا کر حفاظت کا بھی بندوبست کیا جاتا ہے تاکہ جانور ابدی نیند سوئے ہوؤں کوڈسٹرب نہ کرسکیںیہ تو تھا غیر مسلموں کا چال چلن ان کے قبرستانوں کا احوال۔ ہماری اپنے عزیزوں اور پیاروں سے بے وفائی کا حال ہمارے قبرستان ہی کھولنے کے لئے کافی ہیں اکثر جگہوں پر تو لوگوں نے سیوریج کے پانی کا نکاس قبرستانوں کی طرف چھوڑ رکھا ہے۔ہر قبرستان جھاڑ جھنکاراور اجاڑ کا منظر پیش کرتا ہے۔ کبھی کفن چوروں کی خبریں منظر عام پر آتی ہیں تو کبھی مردہ خور انسان نما جانوروں کی اطلاع دیتا ہوا میڈیا نظر آتاہے۔ کسی قبر کے وارثوں نے مہربانی کی کوئی پودے لگا دیئے تو ٹھیک ورنہ کوئی سائے کا بندوبست تک نہیں ہوتا۔ دس محرم کو قبروں کی دیکھ راکھ کرنے والوں کی تعداد بھی اب بہت حد تک گھٹ چکی ہے۔ ہر کسی نے اپنے پیاروں کو مردہ سمجھ کر گورکنوں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔ زندگی کے کھیل میں ہم یوں مست ہیں کہ بس مرنا تو جیسے انہیں ہی تھا جن کو گھڑی بھر کو کندھا دے کر ہم دفن کر آئے ۔ قبروں کی کوئی ترتیب نہیں۔ جگہ کم پڑ جانے کے ڈر سے اب قبرستانوں میں بھی قبضہ مافیا جنم لے چکے ہیں۔ چند سال پہلے میں قبرستان گیا تو گورکن سے میں نے ایک طرف بیسوں قبروں اور چار دیواری احاطہ کے بارے میں دریافت کیا کہ پچھلے سال تک تو یہاں کسی قبر کا نام و نشان نہ تھا پھر اچانک یہ مردہ آبادی کیسے آباد ہوگئی تو گورکن نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ یہ فرضی قبریں ہیں ان پر فرضی کتبے لگے ہیں ۔ یوں سمجھئے کہ یہ دفن ہونے کے لئے جگہ نہ ملنے کے ڈر کا علاج کیا ہوا ہے۔ یہ ہے ہماری ہوس کا حال کہ اعمال تو ٹھیک کرنے کا ہوش نہیں ۔ مگر ہر جگہ زمین پر قبضہ کرنے پلاٹ ملکیت بنانے کی ہوس بلند سے بلند تر ہوتی جارہی ہے ۔ رات کے وقت شہر بھر کے آوارہ کتے قبرستانوں میں ہی جاکر پناہ لیتے ہیں۔ دنیا کے دکھوں سے تنگ نشے کی لت میں مبتلا افراد کا ٹھکانہ بھی یہی قبرستان ہوتے ہیں۔ ان کے اہل خانہ بھی انہیں نشے کے رحم و کرم پر چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔ لہذا یہ وقت سے پہلے اپنی آخری منزل تک خود جا پہنچتے ہیں۔ موت خاموشی سے ان کی طرف دبے پاؤں بڑھتی رہتی ہے رشتہ دار اور اسٹیٹ دونوں کے پاس اتنا وقت بھی نہیں کہ وہ اس موت کے کھلم کھلا شکارکو دیکھ ہی لیں۔آپ بھی ہنس رہے ہونگے کہ یہاں شہروں میں جینا مشکل ہوچکا ہے او ر یہ صاحب قبرستانوں کے حالات اور مردوں کے حقوق کی فہرست نکالے بیٹھے ہیں۔ یہاں معمولی امراض کے شکار مریضوں کی علاج کیلئے لائنیں لگی ہیں اور یہ صاحب نشے کے شکار افراد کے علاج کے مطالبہ کا علم اٹھائے پھر رہے ہیں۔ آپ بھی ٹھیک ہنس رہے ہیں۔ وفا اگر ہم میں ہوتی تو معاشرہ کبھی اس صورتحال تک نہ پہنچتا بلکہ جہاں ہمارے ہر شہر میں مردہ مرغیوں کا گوشت بک رہا ہے ۔ بیچنے والوں میں بھی ہم شامل ہیں کھانے والوں میں بھی ہم شامل ہیں ۔ رسمی طور پر ہم صرف یہ ڈائیلاگ بولتے ہیں کہ ہم نے مرنا بھی ہے اور جان بھی دینی ہے امانت جو ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ ہمیں یقین ہے کہ ہم نے مرناہے نہ ہی ہمارا جان دینے کا ارادہ ہے ۔ جنہیں مرنے کا یقین ہو ان کے حکمران ایسے نہیں ہوتے جیسے ہمارے رنگیلے بادشاہ ہیں ۔ یہ اس لئے رنگیلے ہیں کیونکہ ہم عوام بھی رنگیلے اور سفاک ہیں ۔ دفتروں کے بابوں ہوں یا مرغی فروش ہر کوئی گھر سے ہی لوٹ مار کرنے کا ارادہ کرکے نکلتا ہے اب تو ہمارے پاس رسمی طور پر واویلا کرنے کا وقت بھی نہیں بچا۔ اس نفسا نفسی میں فوڈ چکنز اور گوشت فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن بھی حکومت کا ایک قابل تحسین اقدام ہے ۔ یہ وقت بتائے گا کہ یہ چیک اینڈ بیلنس بھی خلوص نیت سے ہے یا محض شہرت اور نوٹ بنانے کی اسکیم کا ایک حصہ ہے۔ کتوں نے تو ہمیشہ سے ہی حضرت انسان کو وفا داری کا درس دیا ہے ۔ راتاں جاگن دن نوں سوون تیں توں بازی لے گئے کتے تے تیں توں اتے ۔ ترقی کا راستہ وفاداری سے ہوکر گزرتا ہے ہم جیسے وفاکے سبق سے بے گانہ لوگ ہر چیز کو بکاؤ مال کی نظر سے دیکھنے والے بیوپاری ترقی کا خواب تو دیکھ سکتے اسے حاصل نہیں کرسکتے ۔ جن کے شہر قبرستانوں کی طرح اندھیروں کا مسکن بن چکے ہوں وہ کیا قبرستانوں کو گلزار بنائیں گے ان کے لئے کسی کی وفا بھی ایک دیوانے کتے کے باؤلے پن سے زیاد کچھ نہیں۔

Short URL: http://tinyurl.com/hsyta9n
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *