نیند

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: شبنم کنول حافظ آباد
وہ رات کی تاریکی میں اس سفر پہ روانہ تھی جس کی منزل خود اسے معلوم نہ تھی۔ مگر وہ چلتی ہی جا رہی تھی وہ اس قدر خوف زدہ تھی کہ اس کو اپنی چلتی سانسوں سے بھی ڈر لگ رہا تھا کیسی بے بسی تھی۔ وہ ٹوٹ چکی تھی وہ بکھر چکی تھی کسی کانچ کے ٹکڑے کی طرح اس کی کرچیاں خود اس کے اپنے ہی ہاتھ پاؤں زخمی کر رہی تھی وہ کس سے بھاگ رہی تھی شاید وہ بھول چکی تھی یا شاید جان بوجھ کر اُسے یاد کرنا نہیں چاہتی تھی
یاد کرتی بھی تو کیسے وہ اُس کی اولاد بلکہ اپنی اولاد کا قاتل تھا جس نے بیٹاں پیدا ہونے کی وجہ سے سب کو موت کی نیند سولیا تھا وہ کتنا روئی تھی وہ کتنا تڑپی تھی اس بے ضمیرکے سامنے لیکن اُسے کوئی فرق نہیں پڑا تھا….وہ پاگلوں کی طرح اپنی جان بچا کر بھاگی تھی اس کی گود میں ایک سال کی ننھی سی بچی تھی اور وہ پاگلوں کی طرح بھاگتی جا رہی تھی اب وہ کہاں کس طرف جائے اُسے کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا ہر طرف بھیڑیے ہی تھے کس کس سے اپنے آپ کو بچائے گئی. اچانک اُسے لگا وہ اپنی زندگی کی بازی ہار چکی ہے ہاں وہ ہار ہی تو چکی تھی وہ آ گیا تھا اُسے میھٹی نیند سولینے کے لیے اورکچھ دیر بعد وہ سو چکی تھی موت کی گہری نیند ہمیشہ کے لیے 

Short URL: http://tinyurl.com/yytzykeu
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *