مجبوری

Print Friendly, PDF & Email

danga fasaadغربت،افلاس اور بے بسی انسان کو اس دوراہے پرلا کھڑا کرتی ہے جہاں انسان کو مجبور ہونا پڑتا ہے اور یہ مجبوری انسان کو بعض دفعہ صحیح اور غلط کا فرق بھلا دیتی ہے اب یہ مجبوری چاہے غربت اور افلاس کی وجہ سے ہو یااپنی کسی حرص کی وجہ سے ہو مجبوری تو مجبوری ہی ہوتی ہے.
سلیم نے اپنے گھر میں صرف غربت و افلاس ہی دیکھا تھا جس کا قصور وار سلیم اپنے باپ کی ایمان داری کو سمجھتا تھا کیونکہ اس کی ماں اپنے آخری وقت میں ایڑیاں رگڑتے ہوئے مری تھی جس کے علاج کے لئے اس کے باپ کی انا آڑے آگئی تھی کیونکہ وہ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا چاہتے تھے.
کبھی کبھی سلیم سوچتا کہ آگ لگے ایسی ایمان داری کو جو زندگی کو ایسے سسکتے سسکتے گزارنے پر مجبور کرے .زندگی دو وقت کی روٹی کھاکر گزارنے کا نام تو نہیں زندگی تو تمام ضروریات زندگی سے آراستہ ہونی چاہیے تاکہ زندگی کو چار چاند لگ جائیں.
وہ فیصلہ کرچکا تھا کہ کبھی بھی وہ ایسی زندگی نہیں گزارے گا جو اسے زندگی کی آسائشات مہیا نہیں کرسکتے اوراسکا حل اسے ساجد کے ذریعے مل گیا.ملک زید سے پہلی ملاقات اس کی تب ہوئی جب وہ ساجد کے ساتھ چائے پینے ایک ہوٹل پر گیا.پراڈو پر سوار ایک سفید کاٹن کے سوٹ میں ملبوس با رعب شخصیت باہر نکلی اور وہ شخصیت ملک زید ساجد کے قریب آگئی شائد ساجد بھی اس سے ہی ملنے کے لئے یہاں آیا تھا.
سلیم کو تب پہلی دفعہ پتہ چلا تھا کہ ساجد ایک سیاسی تنظیم کا رکن ہے اور شہر میں دنگے فساد اور ہڑتالیں کروانا اس کی ذمے داری ہے.ملک زید تبھی اس سے ملنے آیا تھا کیونکہ ساجد کو ایک اور دنگہ شہر میں کروانا تھا جس کے بعد اسے جیل بھی جانا پڑے گا لیکن معاوضہ اس کے جیل جانے کے بعد اس کے گھر والوں کو پہنچادیا جائے گا.ساجد نے اس کام کے لئے ہامی بھی بھرلی. ساجد اس معاہدے کے بعدبالکل مطمئن تھا.
سلیم کو لگا کہ اس کی سوچ کے آگے قسمت نے ہار مان لی اب وقت کو وہ اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکے گا اب ساجد کے ساتھ سلیم بھی شامل تھا وہ پہلی دفعہ دنگے فساد کرتے ہوئیبڑا پرجوش تھا پھرتین مہینے جیل کی ہوا بھی کھا کر آیا لیکن مطمئن تھا کیونکہ اس کے گھر ایک معقول معاوضہ اس کے گھرپہنچا دیا گیا تھا جس سے اس کے گھر والے ٹھاٹ سے زندگی کی تمام آسائشات سے مزین زندگی گزارنے کے قابل ہوگئے تھے.اب سلیم کا یہی پیشہ تھا ذریعہ آمدن اس کایہی تھا.ویسے بھی اسے ضرورت نہیں تھی کوئی اور کام کرنے کی.
وقت آہستہ آہستہ ایسے ہی گزرتا جارہا تھا اب لوگ سلیم کی عزت بھی کرنے لگ گئے تھے لیکن اس کے ڈر کی وجہ سے کیونکہ اس کے تعلقات بہت اونچے لوگوں سے تھے.عزت تو سب سلیم کے ابا کی بھی کرتے تھے لیکن عزت کے ساتھ احترام بھی کرتے تھے کیونکہ وہ ایک ایماندار شخص تھے.
وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا بعض دفعہ وقت اپنا رنگ ضرور دکھاتا ہے.سلیم اسی طرح کے ایک دنگے فساد کے بعد پولیس کے ہتھے چڑھ گیا.وہ پھر بھی مطمئن تھا کہ اس کا معاوضہ اس کے گھر پہنچ جائے گا پر ایسا کچھ نہیں ہوا کیونکہ حالات نے سیاسی معاملات میں ایسا پلٹا کھایا کہ با اثر سیاسی شخصیات نے اپنے کارکنان کے اوپر سے اپنا ہاتھ اٹھالیا ان کو اپنی تنظیم کے کارکنان ماننے سے انکار کردیاجن میں سلیم بھی شامل تھا.اب سلیم کوایسے لگتا جیسے وہ بے آسرا بے سرو سامان ہوگیا ہے.اس کے گھر والوں کا بھی کوئی پرسان حال نہ رہا تھا سلیم نے جیل سے کب رہا ہونا تھا یا نہیں ہونا تھا کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا.اب اسے وہ بات بڑی شدت سے یاد آتی جو اسے اس کے ابا نے آخری وقت کہی تھی کہ پتر غریب بندہ جیسے مرضی اپنے حالات بدل لے لیکن اپنی غربت کے ہاتھوں ایک بار ضرور مار کھاتا ہے.

(ثناء واجد)

Short URL: http://tinyurl.com/gr2wc82
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *