قومی مفاد کا تقاضا ۔۔۔کچھ تو اپنی اداؤں غور پر کریں

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: پروفیسر ضیاء الرحمن کشمیری
جنابِ شیخ رشید نے نے ایبٹ آباد جلسہ میں فرمایا: ’’نوازشریف ،کلبھوشن کو پھانسی سے نہیں بچا سکتے۔‘‘ اس غیر منطقی اور بے سر و پا بیان کے ساتھ ہی ارشاد فرمایا:’’ پاکستان میں صرف 2ہی لیڈر ہیں ، ایک ’’میں‘‘ اور ایک عمران خان۔ ‘‘اسی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے اپنے اندر موجود ضدی بچے کی خواہش بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’نواز شریف کو جیل میں ڈالے بغیر چین سے نہیں بیٹھوں گا۔‘‘حالیہ جلسہ میں کی گئی اس بیان بازی کے ساتھ یہ خبر بھی گرم ہے کہ خان صاحب اپنے ’’سب سے بڑے ‘‘ حلیف شیخ رشید کے آسرے پر حکومت کے خلاف تیسرا دھرنا دینے کی پلاننگ بھی کر رہے ہیں۔ اولاً، اس گرما گرم بیان بازی ،پی ٹی آئی کے اوپر تلے جلسوں اور مبینہ طور پرتیسرے دھرنے کی منصوبہ بندی کی ٹائمنگ چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ہونے والے اہم ترین اجلاس ’ون بیلٹ ون روڈ فورم ‘ کے تناظر میں بہت معنی خیز ہے۔ ثانیاً، عمران خان اور شیخ رشید کے لہجوں کی تلخی اور اضطراب اس بات کی چغلی کھا رہا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان ان کے حواسوں پر بری طرح طاری ہو چکے ہیں۔یہی وجہ ہے شاید کہ وہ ’’ذاتیات ‘‘ کی آخری حدوں کو چھوتے دکھائی دے رہے ہیں ۔یہ امر بھی حیران کن ہے کہ جب 2014ء میں چین کے صدر ’سی پیک‘ منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے پاکستان کے دورے پر آرہے تھے ، عین اس وقت بھی عمران خان اور شیخ رشید اپنے’’ کنیڈین امام ‘‘ کی اقتداء میں’’ ٹوکے ،گنڈاسے‘‘ لے کرمع کفن و قبر کی تیاری کے پارلیمنٹ ہاؤس پر چڑھ دوڑے تھے۔جس کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستا ن 126دن تک ایک تماشا بنا رہا اور چین کے صدر کا دورہ بھی تاخیر کا شکار ہوا۔ آج ایک بار پھر عین اس وقت کہ ایک طرف بیجنگ میں موجودہ صدی کے سب سے بڑے معاشی منصوبے کے خد وخال تشکیل دئیے جارہے ہیں اور اس منصوبے کو دنیا بھر کے اکانومسٹ ’’ گیم چینجر‘‘ منصوبہ قرار دے رہے ہیں۔ اس تاریخی موقع پر بھی شیخ رشید اور عمران خان کی پھرتیاں بہت سے شکوک و شبھات کو جنم دے رہی ہیں۔ ایک عام ذہن میں یہ سوال پیدا ہونا فطری سی بات ہے کہ جب پاکستان کے استحکام اور ترقی کا کوئی بڑا کام ہونے والا ہوتا ہے ، ٹھیک اسی وقت ملک میں سیاسی انتشار، ہلچل اور دھرنے کا پروگرام کیوں تشکیل دے دیا جاتا ہے؟ بجا طور پرعمران خان اور شیخ رشید کی حب الوطنی پر کوئی شک و شبہ نہیں لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ انجانے میں ایسے فیصلے غیر محسوس طریقے سے ’’فیڈ ‘‘ کر دئیے جاتے ہوں، جو کہ عالمی سطح پر کام کرنے والی خفیہ ایجنسیوں کی مخصوص تربیت کے مطابق کچھ زیادہ بعید بھی نہیں ہے۔اس حوالے سے نہ صرف عمران خان اور شیخ رشید کو از سر نو اپنی صفوں اور اپنے فیصلوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے بلکہ وزارت داخلہ اور قانون نافذکرنے والے اداروں کو بھی اس ضمن میں ضرور تسلی کرلینی چاہئے۔
کالم کے آغاز میں شیخ رشید احمد کا ایبٹ جلسہ میں دیا گیا ایک بیان نقل کیا تھا کہ ’’ نواز شریف ،کلبھوشن کو پھانسی سے نہیں بچا سکتے۔‘‘اب ملک کے منتخب وزیر اعظم کے اوپر بھرے پُرے جلسے میں لگائے جانے والے اس گہناؤنے الزام کی بنیاد کیا ہے؟اس کا کچھ ذکر نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کلبھوشن کو سنائی جانے والی سزائے موت کے خلاف کوئی بات کی ہے؟اس ضمن میں میاں صاحب کا کوئی ایک بیان؟ کوئی ایک آدھا اخباری تراشا؟کوئی اشارہ ؟ کوئی کنایہ ؟حضور ! کچھ تو ثبوت ساتھ بیان کرتے ۔لیکن جہاں ذاتیات آجائیں، جہاں حسد و تعصب اور بغض حائل ہو جائے، وہاں عقل و بصیرت رخصت پر چلی جاتی ہیں۔ایسے میں نہ انسان کو اپنی سوچ پر کنٹرول رہتا ہے اور نا ہی اپنی زبان پر ۔ کچھ ایسی ہی کیفیت سے اس وقت جنابِ شیخ رشید احمد گزرتے دکھائی دے رہے ہیں۔دلیل اور منطق کی جگہ گالی اور الزام تراشی نے لے لی ہے۔ناپختہ شعور کے حامل ناتجربہ کار نوجوانوں کا ایک حصہ ان جیسے سطحی ذہن کے حامل سیاست دانوں کو اپنا مسیحا سمجھ کر ’’ گھر پھونک تماشا دیکھ ‘‘ طرز کی گیم کے کھلاڑی بن چکے ہیں۔جو شخص اپنے منہ سے جلسہ عام میں کہے کہ میں اور عمران خان ہی اس ملک کے دو کھرے ، سچے اور صادق و امین لیڈر ہیں ، اس کی ذہنی سطح کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے!ان دونوں لیڈروں کی طرز سیاست میں بد تہذیبی، عدم برداشت، عدم رواداری، بد گمانی، منفی سوچ، انتشار ، بد امنی، ہلڑ بازی، سطحیت اور خود پسندی جیسے عناصر کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں۔ان کے نزدیک جو اِن کے جھنڈے تلے کھڑا ہے وہ پاک باز ہے لیکن جو مسلم لیگ ، پیپلز پارٹی یا جمعیت میں ہے وہ کرپٹ، چور، ڈاکو اور ملک و قوم کا دشمن ہے۔ اس سے بھی زیادہ حیرت اور مزے کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی شاہ محمود قریشی ، جاوید ہاشمی، اعظم سواتی وغیرہ کی طرح پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ یا جمعیت علماء اسلام سے نکل کر تحریک انصاف میں شامل ہوجائے تو کوئی ایسی جادوئی واشنگ مشین بنی گالہ میں کہیں فٹ کی گئی ہے کہ آنے والے کو اس مشین میں دھو دھلا کر ہر قسم کے داغ دھبے سے بالکل پاک صاف بھی کر لیا جاتا ہے۔ فیاللعجب!!
ایبٹ آباد جلسہ میں عمران خان کا بیان کردہ ایک جملہ بھی ابتدائی سطور میں نقل کیا تھا۔وہ فرماتے ہیں:’’ میں نواز شریف کو جیل میں ڈالے بغیر چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ ‘‘ اس بیان کا لب و لہجہ بتا رہاہے کہ نواز دشمنی کا مرض کا فی پیچیدہ ہو چکا ہے۔ ایک ذمہ دار لیڈر کی حیثیت سے ان کا بیان معقولیت سے بھر پور ہونا چاہئے لیکن بسا آرزو کہ خاک شد۔ اس طرح کے سطحی بیانات سے چائے کی پیالی میں طوفان نہیں آتا تو پورے ملک میں کیا خاک آئے گا۔ عمران خان کی گزشتہ پانچ سالہ ’میں نہ مانوں ‘طرز کی سیاست کو دیکھتے ہوئے میراپیشگی تجزیہ ہے کہ اگر جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (JIT)اور اعلیٰ عدلیہ نے وزیر اعظم کو کلین چٹ دی تو عمران خان اپنی توپوں کا رخ عدالتِ عظمیٰ اور جے آئی ٹی میں شامل اداروں کے ممبران کی طرف پھیرنے میں لمحہ بھر تاخیر نہیں کریں گے ۔ کیونکہ ان کی ضد اور خواہش ہے کہ نواز شریف کو ہر حال میں جیل جانا چاہئے، خواہ وہ تحقیقات کے بعد بے گناہ ہی کیوں نہ ثابت ہو جائیں۔
یہ بات آن ریکارڈ موجود ہے کہ گزشتہ 7،8سالوں میں عمران خان نے میاں نواز شریف پرپے در پے متعدد الزامات لگائے، جن میں سے کوئی ایک الزام بھی آج تک ثابت نہیں کیا جا سکا۔کچھ الزام تو اتنے بھونڈے اور بے بنیاد تھے کہ عمران خان کو بعد ازاں اچھی خاصی سبکی اٹھانا پڑی۔ 2013ء میں عام انتخابات کے بعدیہ الزام لگایا کہ نجم سیٹھی نے مسلم لیگ(ن) کو اکثریت دلوانے کے لیے ’’35پنکچر‘‘ لگائے یعنی ہاری ہوئی 35سیٹیں دھاندلی کے ذریعے مسلم لیگ کو جتوا کر دیں۔بعد ازاں الیکشن کمیشن اور عدالتوں میں جب یہ الزام ثابت نہ ہو سکا تو خان صاحب نے فرمایا:’’ وہ میرا سیاسی بیان تھا۔‘‘یعنی پورے قومی الیکشن کی شفافیت پر اپنے الزام سے سوالیہ نشان لگا دیا اور ملک بھر میں انتشار اور بے یقینی کی کیفیت پید اکر دی ، وہ بھی محض سیاسی بیان بازی کے لئے!! اسی طرح حالیہ دنوں یہ الزام لگا دیا کہ ’’ زبان بندی کے لئے مجھے حکومت نے دس ارب روپے رشوت کی پیشکش کی ، جو میں نے ٹھکرا دی ۔ ‘‘جب پوچھا گیا کہ اس الزام کا کوئی ثبوت؟کس نے پیشکشکی؟ کون یہ پیش کش لے کر آیا؟لیکن جواب میں سکوت، گہرا سکوت!!
اسی طرح جب20اپریل کوسپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کی طرف سے پانامہ کیس کا فیصلہ سنایا گیا، جس میں دو قابل احترام جج صاحبان نے اختلافی نوٹ لکھا جبکہ باقی کے تین جج صاحبان کی طرف سے جے آئی ٹی کے ذریعے اعلیٰ سطحی انکوائری کروانے کا کہا گیا۔ عمران خان جو میاں نواز شریف کے خلاف فوری ، حتمی اور اپنی منشاء کے مطابق فیصلے کی امید لگائے بیٹھے تھے، ان کو سخت مایوسی ہوئی۔وہ تو اپنے ایبٹ آباد جلسہ کے بیان کے مطابق ہر قیمت پر میاں نواز شریف کو جیل بھجوانے پر تُلے بیٹھے ہیں۔ اس مایوسی کوچھپانے کے لیے انھوں نے یہ پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ ’’ پورے پانچ رکنی بنچ نے نواز شریف کو جھوٹا قرار دے د یا ہے۔‘‘جب ان کی طرف سے یہ بے بنیاد پروپیگنڈہ بڑھا تو اس پرجج صاحبان کی طرف سے ان کو شٹ اپ کال دی گئی اور ساتھ یہ وضاحت کی گئی کہ ’’ کسی جج نے وزیر اعظم کو جھوٹا قرار نہیں دیا ۔ ‘‘
خان صاحب کاایسا ہی رویہ ڈان لیکس ایشو پر حکومت اور فوج کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمی دور ہونے پر سب دیکھ چکے ہیں ۔ چہ جائیکہ اس بات پر شکر ادا کیاجاتا کہ حکومت اور فوج کے درمیان ٹکراؤ کی کیفیت ختم ہوگئی ہے، الٹا تحریک انصاف اور ’’ڈیڑھ اینٹ کی عوامی مسلم لیگ‘‘میں صفِ ماتم بِچھ گئی ہے ۔ دھائی دی جارہی ہے کہ فوج اور حکومت کے مابین معاملہ افہام و تفہیم سے رفع دفع کیوں ہوا؟اس موقع پر ایک بار پھر حکومت اور فوج کو آپس میں لڑانے کے لیے الزامات سے بھر پورمفروضوں کی سیاست اور غیر پارلیمانی بیان بازی شروع کر دی گئی۔ پھر اسی پر بس نہیں بلکہ عمران خان اور شیخ رشید احمد کے ’’تربیت یافتہ‘‘ فیس بکی ’’مجاہدین‘‘ نے حکومت کے ساتھ ساتھ پاک فوج کے خلاف بھی وہ انت مچائی کہ الامان ، الحفیظ۔ اس طرح کی اوچھی اور ملک دشمنی پر مبنی پوسٹ اپ لوڈ اور شیئر کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لینیکا فیصلہ کرکے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بر وقت اور قابل تعریف کام کیا ہے۔ایسے عناصر کو سخت سزائیں بھی دی جانی چاہئیں تاکہ آئینی اداروں کو بے توقیر کرنے کے اس جرم کا قلع قمع کیا جا سکے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ بھارت کی قیادت میں وطنِ عزیز پاکستان کو تین اطراف سے بد ترین جارحیت کا سامنا ہے۔ روز کسی نہ کسی سرحد پر لاشیں گر رہی ہیں۔ افواج کے ترجمانوں میں تند و تلخ جملوں کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔بلوچستان میں ’راء‘ نے ڈپٹی چیئر مین سینیٹ مولانا عبد الغفور حیدری کو نشانہ بنایا ، تیس قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔ گوادر میں کام کرنے والے دس غیر بلوچی مزدوروں کو لائن میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ اس طرح کے نہ جانے کتنے خوفناک منصوبے ابھی ’’پایپ لائن ‘‘میں ہیں۔ صرف اس لیے کہ پاکستان کو عدم استحکام اور انتشارکا شکارکرکے گوادر پورٹ اور سی پیک جیسے میگا منصوبوں کو ثبوتاژ کیا جا سکے۔ ایک طرف بھارت نے ’’ون بیلٹ ، ون روڈ فورم ‘‘ کے اہم ترین اجلاس کا پاکستان کے بغض میں بائیکاٹ کیا ہے اور دوسری جانب آپ حضرات اس نازک اور تاریخی موقع پر دنیاکو منفی پیغام دے رہے ہیں۔’قومی مفاد‘ بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔ کچھ تو اپنی اداؤں پر غور کریں!!

Short URL: http://tinyurl.com/ybnf8xke
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *