عمر ماروی

Print Friendly, PDF & Email

تحریر:صائمہ سید، کراچی
کوئل کی کوک سے جیسے کوئی ہوک اٹھی ہو، ایسی آواز تھی بانسری کی سر میں اور یہ آواز پہنچ چکی تھی ماروی کے کانوں میں۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ اس کا منگیتر کھیت اس کا منتظر ہے۔ اس سوچ نے اس کے ہاتھوں میں پھرتی بھر دی۔دہی کو مدھانی سے نکال کر مٹی کے برتن میں کر کے باورچی خانے میں ڈھک کر رکھااور دبے پاؤں اپنے کچے مکان سے باہر قدم رکھااور لپک جھپک پرانے کنویں کا رخ کیا۔ اسے آتا دیکھ کر کھیت کی آنکھوں میں قندیلیں روشن ہو گئیں۔ماروی شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ اس کے پہلو میں بیٹھ گئی۔ سرگوشی میں دنیا جہاں کی باتیں کرتے کرتے وقت گزرنے کا پتہ بھی نہ چلا۔ شام کے سائے گہرے ہونے لگے تو ماروی نے واپسی کا قصد کیا۔دونوں مختلف راستوں سے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔سردار عمر سومرو کی حویلی کے سامنے سے گزرتے ماروی کا سامنا سانول سے ہوا۔ ایک نمبر کا لفنگا اور سردار سومرو کا خاص ملازم۔آج تو حد کردی اس نے ماروی کا ہاتھ پکڑ لیا اور عامیانہ پن دکھانے لگا۔ ماروی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور ایک تھپڑ رسید کر دیا سانول کے منہ پر اور یہ تھپڑ سانول کے دل پر اثر چھوڑ گیا۔ اس نے ماروی سے بدلہ لینے کی ٹھانی اور ایک گھناؤنا کھیل شروع کر دیا۔ضلع عمرکوٹ کے سومرو قبیلے کا سردار بلا کا عاشق مزاج اور حسن پرست تھا۔ سانول نے عمر سومرو کے سامنے ماروی کے حسن کے ایسے قصیدے پڑھے اور اس کے آتش شوق کو ایسا بھڑکایا کہ اک دن سردار عمر سومرو پانی بھرتی ماروی کے سامنے آکھڑا ہوااور سانول کی بات کا قائل ہو گیا۔ اس نے اسی لمحے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر ماروی کو شادی کی پیشکش کی،ماروی کا کورا انکار سن کر زبردستی اسے اغوا کر کے اپنی حویلی لے آیا اور اس کو ایک کمرے میں قید کردیا۔پورا ایک سال اس نے ماروی کو اپنی قید میں رکھا، اسے ہر طرح کا لالچ دے کر آزمایامگر ماروی کی ناہاں میں نہ بدل سکا۔ وہ اپنے گاؤں، اپنے باپ ماں اور کھیت کی محبت میں ہر وقت روتی رہتی کھانا پینا چھوڑ دیا اس نے اور پھر ایک دن اسکا گیت سن کر عمر نے اسے باعزت رہا کردیا۔ وہ گیت یہ تھا کہ
اے کاش تر کردیں
اس پیاسے صحرا کو
یہ آنسو میرے
جہاں تکتی رہتی ہیں
دو آنکھیں راہ میری
مولا میری مٹی کو ملا دے
وطن کی مٹی میں میری
وہ گاؤں میرا جہاں
رہتی ہے ماں میری
وہ وطن میرا وہ مٹی میری
یہ الفاظ سن کر عمر کا دل دہل گیااور یوں وہ رہا ہو گئی۔ اسے ماں نے سینے سے لگا لیا کوئی سوال نہ پوچھا۔ باپ نے منہ موڑ لیا، بھائی خون کے پیاسے ہوگئے، خاموش تھا تو صرف کھیت اور اس کی خاموشی ہولا رہی تھی ماروی کواور پھر کھیت کی خاموشی ٹوٹ گئی پنچایت کے فیصلے میں۔اس نے ماروی کو پاک دامن ثابت کر دیااپنے ایک جملے سے۔’’ماروی کا نہ ہی تن میلا ہوا ہے نہ من، وہ میری تھی میری ہے اور میری رہے گی۔ میں شادی کروں گا ماروی سے۔‘‘ کھیت کے یہ الفاظ ماروی کو معتبر کر گئے۔شادی کی رات، عجلہ عروسی میں بیٹھ کر ماروی عجیب و غریب سے احساسات میں گھری ہوئی تھی، اس کے کانوں میں ساری آوازیں گڈ مڈہو رہی تھیں۔سانول کی آواز،’ میں تجھے منہ دکھانے لائق نہیں چھوڑو ں گا‘، سر پنچوں کی آواز،’ کاری کرو اسے، کاری ہے یہ، بد چلن ہے یہ، مار ڈالو اسے، مار ڈالو‘، بھائی کی نفرت میں ڈوبی آواز’ اس سے کہنا آج کے بعد اپنی شکل نہ دکھائے مرگئی ہے ہماری بہن۔‘اتنی ساری آوازیں گڈ مڈ ہو گئیں، یکایک اسے یہ خیال آیا اگر کبھی جو کھیت بھی مجھ سے بدگماں ہو گیا اور اس کو بھی مجھ سے نفرت ہوگئی تو؟اور اس کے بعد اس کی سانسوں کی ڈوری الجھ گئی، دم توڑتی سانسوں کے درمیان اس نے ذرا کی ذرا آنکھ کھولی تو خود کو کھیت کے بازؤں میں پایا۔’’ ماروی میری جان کیا ہوا تمھیں آنکھیں کھولو اور مجھے دیکھو۔ مجھے چھوڑ کر نہ جاؤ ماروی مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو میں کیا کروں گا اس ظالم دنیا میں؟‘‘ اور پھر چشم فلک بھی رو پڑی جب دو جنازے ایک ساتھ اٹھے۔ اس رات بارش کے آنسوؤں سے صحرائے تھر جل تھل ہوگیا۔ یہ سب سن کر سردار عمر سومرو اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا اور دیوانہ وار ضلع عمرکوٹ کی گلیوں کی خاک چھانتا پھرتا۔کچھ عرصہ بعد اس کی لاش اسی پرانے کنویں کے پاس سے ملی جہاں ماروی اور کھیت پیار بھری باتیں کرتے تھے۔ ایک المناک داستان عشق اپنے درد ناک انجام کو پہنچی۔ کوئی محبت میں امر ہوگیا اور کوئی واصل جہنم۔ وادی مہران اپنی وطن پرست بیٹی کو آج بھی اپنی بانہوں میں سمیٹے ہوئے ہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/y3fe2oe9
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *