طلباء تنظیموں پر پابندی ۔۔۔آخر کیوں ؟

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: جاوید ملک
طلباء تنظیموں پر پابندی کے حوالہ سے حکومتی غور وفکر میرے لیے موجب حیرت ہے ۔ اس پابندی کی بنیاد گزشتہ کچھ عرصہ میں ہونے والے تصادم قرادیے جارہے ہیں ۔ گزشتہ دنوں لاہور میں ایک عشائیے کے دوران یہ بحث چھڑگئی تو میں نے اپنے ایک قریبی صوبائی وزیر دوست جو اس پابندی کے حق میں کافی گرم جوش تھے سے یہ گزارش کی کہ جمہوری حکومت کو ایسی ناروا پابندی عائد کرکے مورخ کو یہ موقعہ ہرگز نہیں دینا چاہیے کہ وہ آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والوں کے اندر ہمیشہ ایک آمرانہ سوچ کے زندہ رہنے کی بات کرے ویسے بھی جنرل ضیاء الحق کی آمریت میں طلبا ء تنظیموں کا جس طرح گلا گھونٹا گیا اس کے اثرات آج تک باقی ہیں اور حقیقی معنوں میں طلباء تنظیموں کی بحالی ہوہی نہیں سکی ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے پہلے دور اقتدار میں کچھ سنجیدہ کوشش ضرور کی اور بعد ازاں یوسف رضا گیلانی نے اقتدار سنبھالتے ہی ایوان سے اپنے پہلے خطاب کے دوران طلباء تنظیموں کی بحالی کا مژدہ ضرور سنایا تھا مگر اس کے بعد وہ بھی اقتدار کی رعنائیوں میں ایسے کھوئے کہ اپنے الفاظ کی بازگشت تک سننے سے عاری ہوگئے ۔
مجھے یادہے کہ 1994ء میں جب گورنمنٹ کالج اٹک میں داخلہ کیلئے گیا تو داخلہ فارم پر ایک بیان حلفی بھی چھپا ہوا تھا جس کے مطابق مجھے یہ اقرار کرنا تھا کہ میں کسی سیاسی یا مذہبی طلباء جماعت کا نہ تو کارکن ہوں اور نہ آئندہ بنوں گا اس حلف نامے پر داخلہ کے خواہش مند طالب علم اور اس کے سرپرست نے دستخط کرنا تھے ۔ایک جمہوری دور میں ایسا حلف نامہ میرے لیے حیران کن تھا میں کئی دن تک یہ حلف نامہ اُٹھائے کالج کی داخلہ کمیٹی کے بعض پروفیسر صاحبان حتی کے پرنسپل تک سے ملا لیکن سب نے میرا احتجاج یہ کہہ کر ہوا میں اُڑادیا کہ یہ تو فارمیلٹی ہے ۔ 
اٹک کالج میں اس وقت مسلم لیگ کی طلباء تنظیم مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن اور جماعت اسلامی کی اسلامی جمعیت طلباء بہت فعال تھیں ۔ ایم ایس ایف کی قیادت طاہر مودی ،ارسلان چیمہ ،حبیب قریشی وغیرہ کے ہاتھ میں تھی جبکہ جمعیت کے روح رواں اقبال ملک ،طاہر مقبول اور عمرفاروق وغیرہ تھے میں نے اس پیچیدگی کا ذکر ان حباب سے بھی کیا مگر کسی نے بھی سنجیدہ نہ لیا شاید کوئی اس کی باریکی سمجھنے کیلئے تیارہی نہ تھا کہ حلف بہر حال حلف ہے ۔ مجھے نہیں اندازہ کہ وہ حلف نامہ کب تک داخلہ فارم کا حصہ رہا اور ممکن ہے آج بھی ہو ۔
اب ایک بار پھر ایک جمہوری حکومت طلباء تنظیموں پر پابندی عائد کرنے جارہی ہے تو ارباب اختیار سے چند سوالات کرنے کی جسارت ضرور کرونگا ۔اگر اس پابندی کی وجہ یونیورسٹیوں میں بدتر ہوتے حالات ہیں تو طلباء تنظیموں پر پابندی اس کا حل نہیں ہے یہ تو ایسے ہی ہے جیسے موجودہ حالات میں آئے روز کے سیاسی دنگل ،سیاسی قائدین کے ایک دوسرے پر ذومعنی جملے کسنے اسمبلیوں میں ہلٹربازی کودیکھتے ہوئے جمہوریت پر ہی پابندی لگادی جائے ۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر طبقہ کو اپنی یونین بنانے کی آزادی ہو حتی کے خواجہ سراؤں تک کی تنظیمیں موجود ہیں وہاں طلباء کو اس بنیادی حق سے روکنا یقیناًایک اچھی روایت نہیں ہوگی ۔
؂طلباء تنظیموں کے تصادم کے بعض حالیہ واقعات اگر چہ شرمناک ضرور ہیں لیکن ان کے سد باب کیلئے ان کی وجوہات کو تلاش کرنا بہتر ہو گا۔ پنجاب یونیورسٹی اور پنجاب کی دیگر جامعات میں ان واقعات کی بڑی وجہ حکومت خود ہے ۔ سیاسی حکومتوں کی جامعات میں مداخلت اور من پسند لوگوں کی تعیناتیوں نے حالات زیادہ بگاڑے ہیں ۔ اصول پسندی کی دعوے دار لیگی حکومت نے بعض متنازعہ وائس چانسلروں کو کتنی کتنی بار توسیع دی اور من پسند افراد کے حوالے سے جس طرح عدالتی فیصلوں کو بھی ردی کی ٹوکری پھینکا وہ کسی سے بھولے نہیں ہیں ۔
مردان یونیورسٹی میں پیش آنے والا حالیہ دردناک واقعہ کہ جس میں ہجوم نے ایک طالب علم کو گستاخی مذہب کا الزام لگا کر وحشیانہ طریقے سے قتل کردیا ایک بڑی مثال ہے اس قتل کی جوں جوں تفتیش آگے بڑھ رہی ہے یونیورسٹی انتظامیہ کا مکروہ چہرہ عیاں ہوتا جارہا ہے اور اب شاید ہم وثوق سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ مقتول یونیورسٹی انتظامیہ کی کرپشن بے نقاب کرنے اور ان کی بد انتظامی پر سوال اُٹھانے کی پاداش میں ایک گھناؤنے منصوبے کی بھینٹ چڑھ گیا ۔
اس واقعہ نے بہت سارے سوال جنم دیے ہیں ۔پنجاب یونیورسٹی میں عرصہ دراز سے غالب طلبہ تنظیم جمعیت گزشتہ کئی سالوں سے تختہ مشق ہے اور آئے روز اس سے منسوب ایک نیا قصہ میڈیا میں مصالحے لگا کر دکھایا جاتا ہے کہیں جمعیت کو دیوار سے لگانے کیلئے بھی ایسی سازشیں تو ترتیب نہیں دی جاتیں ۔
جامعات میں کرپشن کے الزامات نئے نہیں ہیں اور ظاہر ہے کہ کھلے عام اس لوٹ مار کے سامنے بند موثر طلباء قوت ہی باندھ سکتی ہے اور یہ قوت انتظامیہ کی آنکھ میں کھٹکتی ہے ۔ راولپنڈی کی زرعی بارانی یونیورسٹی پر ہی اگر ایک آزادانہ کمیشن بٹھادیا جائے تو کروڑوں کی خرد برد سامنے آجائے گی ۔ اس یونیورسٹی کے حالات تو یہ ہیں کہ تعمیری کام من پسند لوگوں سے شروع کروادیا جاتا ہے اور بعد میں اس کے ٹینڈر اشاعت کیلئے بھجوائے جاتے ہیں ۔ جہاں حالات یہ ہوں کہ حکومتیں وائس چانسلر ز کی تعیناتی کیلئے ایچ ای سی کی سننے کو تیار نہ ہوں اور اختیارات کے یہ فیصلے بھی عدلیہ کرے وہاں طلباء تنظیموں کو مورد الزام ٹھہراکر پابندی کا پروانہ پکڑانے کے بجائے اپنا قبلہ درست کرنے پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے ۔
حکومت وقت اگر طلباء تنظیموں پر ’’نومور‘‘ کی مہر لگانے سے قبل تمام جامعات میں سیاسی مداخلت کے بغیر طلباء یونین کے آزادانہ انتخابات کا انعقاد کروادے اور فتح یاب طلباء تنظیم کو موثر انداز میں کام کرنے دے تو اس کے انتہائی مثبت نتائج مرتب ہونگے مگر میری تجویز موجودہ حکمرانوں کو اس لیے پسند نہیں آئے گی کہ یہ تو اقتدار اپنی جیب میں لے کر گھومتے ہیں ۔سپریم کورٹ اگر آخری حد تک نہ چلی جاتی تو ان کا تو بلدیاتی اداروں کے انتخاب کروانے کا بھی دور دور تک کوئی ارادہ نہ تھا ۔ اعلی عدلیہ کے دباؤ پر بادل نخواستہ ان کو بلدیاتی انتخابات کی کڑوی گولی نگلنی پڑی تو اس کا نتیجہ بے اختیار منتخب نمائندوں کی صورت میں ہمارا منہ چڑھارہا ہے ۔
جہاں نیتوں کا فتور ہو وہاں سازشیں جنم لیتی ہیں اور سازشیں مردان جیسے سانحات کا خمیر بن جاتی ہیں ۔ جملہ سخت ہے مگر میرے خیال میں موجودہ حالات کی اس سے بہتر عکاسی ممکن نہیں کہ حکومت وقت طلباء تنظیموں کے ساتھ وہی کرنے جارہی ہے جو مردان یونیورسٹی میں مشتعل ہجوم نے مشعال خان کے ساتھ کیا تھا ۔
تعلیمی اداروں کی چاردیواریوں میں پروان چڑھنے والی نسل ہمارا مستقبل اور امید ہے ۔ ماضی میں بھی طلباء تنظیموں نے ہماری سیاست کو قابل قدر لوگ دیے ہیں اور آج اس نرسری کو مذید فعال بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایک ایسی سیاسی ٹیم سامنے آئے جو اپنے جوش عمل سے موجودہ کوتاہیوں اور خرابیوں کا خاتمہ کرے اور سیاسی بحران کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکے لیکن موجودہ سیاسی جماعتوں کا یہ مسئلہ نہیں ہے کیونکہ جمہوریت کا راگ الاپنے والی ان سیاسی جماعتوں کو جمہویت چھو کر بھی نہیں گزری یہ جمہوری نہیں بلکہ شہنشاہیت کی جدید شکل ہیں جہاں سارے اختیارات ،عہدے ایک خاندان کی مُٹھی میں ہیں اور اس نے خانہ پری کیلئے چند ہالی موالی بھرتی کررکھے ہیں جن کا کام صبح و شام ان کے قصیدے پڑھنا ہے ۔

Short URL: http://tinyurl.com/ycpjqfj7
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *