سراجاََ منیرا

Dr. Sajid Khakwani
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: ڈاکٹر ساجد خاکوانی
(ماہ ربیع الاول کے حوالے سے خصوصی تحریر)
اﷲ تعالی نے اپنی کتاب عظیم میں اپنے پیارے نبی ﷺ کو بہت سے ناموں سے پکاراہے۔ان میں ایک نام ’’سراجاََ منیرا‘‘ بھی ہے۔اس نام کا لفظی مطلب ’’چمکتاہواسورج‘‘ہے اور اس سے مراد ذات نبوی ﷺ ہے۔سورج جب چمکتاہے تو اسکی ہر چیز ظاہرہوتی ہے اور وہ اتنی بلندی پر ہوتا ہے کہ ہر کس و ناکس اسے دیکھ سکتا ہے اور اسکی روشنی سے فائدہ حاصل کرسکتاہے۔سورج کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ جہاں کہیں اسکی کرنیں براہ راست نہ بھی پہنچ سکیں تو بھی اسکی روشنی وہاں ضرور پہنچ پاتی ہے،سورج کی آمد سے قبل ہی اجالے اسکی آمد کا پتہ دیتے ہیں اور اسکے چلے جانے کے بعد بھی تادیر اسکی روشنی افق پر باقی رہتی ہے اوراگلے دن کی آمد تک سورج کے اثرات بہت حد تک ابھی باقی ہوتے ہیں۔چمکتے ہوئے سورج کی اوراہم خاصیت یہ بھی ہے کہ زمین کے جس حصے پرسورج طلوع نہیں ہوتا یا بہت کم طلوع ہوتا ہے وہاں انسانی زندگی تقریباََ ناممکن ہے یا پھر بہت مشکل اورانسانی فطرت سے بہت دور ہے۔
قرآن مجید نے نبی آخرالزماں کو ’’چمکتاہواسورج ‘‘قرار دے کر پوری انسانیت کو گویا انکی کرنوں سے روشنی کا طلبگاربنادیاہے۔اب یہ ایک مذہبی یا دینی نہیں بلکہ بہت بڑی تاریخی حقیقت بن گئی ہے کہ محسن انسانیت ﷺ کی زندگی کا ایک ایک پل آسمانی ہدایت کی چمکتی ہوئی کرنیں ہیں،آپ ﷺ کی زندگی کاایک ایک لمحہ انسانیت کے لیے حصول آسودگی کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور آپ ﷺ کی حیات طیبہ کا ایک ایک ثانیہ عالم انسانیت کے اوپرآسمان رحمت بن کر سایہ فگن ہے۔آپ ﷺ کو ’’سراجاََمنیرا‘‘کہنے کا ایک پہلویہ بھی ہے کہ زندگی مبارک کی ایک ایک ساعت آج تک محفوظ و مامون ہے ،چمکتے ہوئے سورج کی طرح نبی ﷺ کی زندگی بھی سب کے سامنے کھلی کتاب کی مانند ہے ،جو چاہے پڑھے ،جہاں سے چاہے پڑھے اور جس جس کو روشنی و راہنمائی چاہیے وہ اس سورج کی کرنوں سے فیض یاب ہو۔
تاریخ میں جس احتیاط اور جس تفصیل سے آپ ﷺ کے حالات زندگی کو قلمبندکرکے تو محفوظ کردیاگیاہے اس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔آج صدیاں گزرجانے کے باوجود آپ ﷺ کی نشست و برخواست،خوراک و لباس،طعام و قیام ،پسندوناپسند،صلح و جنگ اور بودوباش سمیت آپ ﷺ کی نجی زندگی تک کی ایک ایک تفصیل اپنی جزیات سمیت مکمل طور موجود ہے۔حتی کہ آپ کے جانوروں کے بارے میں بھی ساری معلومات موجود ہیں ،صدیاں گزرجانے کے باوجودآج بھی بتایاجاسکتا ہے کہ آپ ﷺ کی اونٹنی’’قصوی‘‘کے کتنے بہن بھائی تھے،اسکے کتنے بیٹے بیٹیاں تھے،اسکے نواسے نواسیاں اور پوتے پوتےٓن کتنے کتنے تھے،کس کس قبیلے کے کس کس فرد کے پاس کب کب تک رہے،کس کس جنگ میں استعمال ہوئے اور کہاں کہاں ذبح ہوئے۔
’’سراجاََمنیرا‘‘کہ کر قرآن نے آپﷺ کی زندگی کے سارے پہلوؤں کو روشن کردیاہے۔آج اس دور میں جب کہ ایک ایک چیز کومحفوظ رکھنے کے بیسیوں طریقے ہیں تب بھی کسی راہنما کے بارے اس حد تک معلومات میسر نہیں ہیں جتنی کہ صدیاں پہلے آپ ﷺ کے بارے میں معلومات جمع کر لی گئیں۔آپ ﷺ کی جد پشت کے تمام انساب آج تک معلوم ومحفوظ ہیں ،شاید کسی اور کے بارے میں اس حد تک قطعاََ بھی معلوم نہ ہوں گے۔آپ ﷺ کے بارے میں اتنی سی بات بھی معلوم ہے کھانا کھا چکنے کے بعد اپنے دندان مبارک میں سے کھانے کا جو ذرہ زبان سے نکالتے تھے اسے نگل لیتے تھے لیکن جو ذرہ ہاتھوں سے نکالتے تھے اسے نکال کر پھینک دیتے تھے۔آپ کی زوجات محترمات جو کل امت کی مائیں ہیں آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ میرے اور اپنے تعلقات امت تک پہنچاؤ،چنانچہ ایک انسان کی انتہائی نجی زندگی جو وہ کبھی نہیں چاہتا کہ کسی کو پتہ چلے حتی کہ اسکی اولاد کو بھی،لیکن ’’سراجاََ منیرا‘‘ﷺکی اس زندگی کے بارے میں بھی تمام تفصیلات کتب سیرت میں تحریر ہیں ۔ایک طالب حق کس طرح وظیفہ زوجیت پوراکرے،ہادی بر حق یہاں بھی اسکے لیے چمکتاہوا سورج ہیں۔
آپ ﷺ پوری زندگی میں چار دفعہ اتنا ہنسے کہ پورے دندان مبارک دیکھے گئے،لیکن اس دوران بھی ہنستے ہوئے دہن مبارک سے آواز نہیں نکلی،آپ ﷺ کے پاس ایک زمانے میں ہاتھی دانت کی کنگھی بھی ہوا کرتی تھی،آپ ﷺ کے حجرہ مبارک میں تین مٹی کے پیالے تھے،ایک میں پانی،ایک میں جو اور ایک میں غالباََ کھجوریا کوئی دیگر جنس پڑی رہتی تھی۔آپ ﷺ کے گدے میں کھجور کے پتے بھرے رہتے تھے،بڑھاپے میں آرام دہ ہونے کی غرض سے ایک بار حضرت عائشہؓ نے اسے دہرا کر دیا ،اگلے دن آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اسے اسی طرح کردوکیونکہ گزشتہ شب اٹھنے میں تاخیر ہوگئی۔ایک بار حضرت عمرؓآپ ﷺ کے حجرہ مبارک میں تشریف لائے،آپﷺ اپنی چٹائی سے اٹھ کر بیٹھ گئے اور کمر مبارک پر چٹائی کے نشانات چھپ سے گئے تھے،حضرت عمرؓ یہ کیفیت دیکھ کر روہانسے ہو گئے اور عرض کی روم و ایران کے بادشاہوں کے لیے تو ریشم اور مخمل کے بستر ہوں اور محسن انسانیت ﷺ کے لیے یہ چٹائی؟؟آپ ﷺ نے فرمایاعمر!کیا تم نہیں چاہتے کہ ان کے لیے دنیاکی نعمتیں ہوں اور ہمارے لیے آخرت کی۔
آپ ﷺ کی گفتگوانتہائی مختصرہوتی تھی لیکن اتنی جامع کہ دریا کیا گویا سمندرکو کوزے میں بند کردیاگیاہوآواز بہت بلند بھی نہ تھی اور بہت پست بھی نہ ہوتی تھی،آپ جب گفتگو فرماتے تو محفل میں موجود ہر شخص آپ کو بخوبی سن پاتاتھا۔زندگی بھر میں ایک شعر بھی آپﷺ سے منسوب ہے جب ایک جنگ کے موقع پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا’’انا النبی لا کذبٍ انا ابن عبدالمطلب‘‘ممکن ہے یہ اتفاقیہ الفاظ ہوں جو اپنے وزن میں شعر کاروپ دھار گئے تاہم آپ ﷺ کو اشعار کا سننا بہت پسند تھا،اچھی خطابت کی بھی تعریف فرمایا کرتے تھے،حضرت حسان بن ثابت سے اپنے نعتیہ اشعار سنا کرتے تھے اور انہیں دعادیاکرتے تھے۔آپ ﷺکے خطبات بھی بہت طویل نہ ہوتے تھے ،سب سے طویل ترین خطبہ جو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ خطبہ حجۃ الوداع ہے ،جس کوپڑھنے میں آدھ گھنٹے سے بھی کم وقت لگتا ہے اور ظاہر اس خطبے کے ارشاد میں اس سے بھی کم وقت لگاہوگا۔
آپ ﷺ کا لبا س بہت سادہ ہوتاتھا،عموماََسبزعمامہ پہنتے تھے اورکوئی خاص موقع ہوتاتوسیاہ عمامہ سر پر اوڑھ لیتے۔بہت زیادہ تکلفات آپ ﷺکی زندگی سے خارج تھے اورسادگی سے ساری زندگی عبارت تھی،مدنی زندگی کے آغاز میں آپ ﷺ اپنے اصحاب کے درمیان ہی بیٹھاکرتے تھے جس سے نئے آنے والوں کوپہچاننے میں دقت ہوتی تھی تب صحابہ کے بے حد اصرارپر آپ ﷺکے لیے ایک نسبتاََ بلندجگہ بنادی گئی لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ کو محفل کے امتیازات قطعاََ پسند نہ تھے اور مساوات،برابری اور اعتدال ہی آپ ﷺ کی عادات مبارکہ کا خاصہ رہا۔آپﷺ کا اخلاق اتنا بلند تھا کہ حسب موقع خاموشی کوہی انکار یا رضاسمجھاجاتاتھا،جب محفل میں تشریف فرماہوتے تو ایسے لگتا کہ ستاروں کے جھرمٹ میں چاند جلوہ گر ہے۔آپﷺ کا قد مبارک بہت میانہ تھا لیکن یہ معجزہ مبارک تھاکہ لمبے سے لمبے قد والا آدمی بھی دیکھنے میں آپ ﷺ سے پستہ لگتاتھا۔
آپ ﷺجب بیت الخلا میں تشریف لے جاتے تو پہلے بایاقدم اند جماتے اور نکلتے ہوئے پہلے دایاں قدم نکالتے،کپڑے جوتے،موزے چڑھاتے ہوئے پہلے دائیں عضوپر اور اتارتے ہوئے پہلے بائیں عضوسے اتارتے تھے۔مسجد میں پہلے دایاں قدم رکھتے اور نکلتے ہوئے پہلے بایاں قدم باہر نکالتے۔کوئی ہاتھ بڑھاتا تو مصافحہ کرتے بازو پھیلاتا تو معانقہ کرتے اور اس وقت تک نہ چھوڑتے جب تک کہ آنے والا خود نہ چھوڑ دیتا،ہر کسی کو مسکرا کر ملتے تھے۔سب سے بہترین سلوک اہل خانہ کے ساتھ تھا،ان کے ساتھ کم و بیش ہر کام میں ہاتھ بٹاتے تھے،ایک بار حبشیوں نے کوئی تماشاکیا،ام المومنین حضرت عائشہؓ جو عمر میں ابھی کم سن تھیں عرض کیا کہ مجھے بھی تماشا دیکھنا ہے،پرے حکم چونکہ نازل ہو چکاتھا اس لیے وہ سب سے بڑے انسان ﷺاپنی چھوٹی سی بیوی کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے چوکھٹ میں کھڑے ہوگئے اور پشت سے حضرت عائشہؓ تماشا دیکھنے لگیں۔کافی دیر بعدآپ ﷺ نے پوچھا عائشہ تماشادیکھ لیا؟؟عرض کیا کہ نہیں ابھی اور بھی دیکھنا ہے ۔جب تک بیوی کادل نہ بھر گیاآپ ﷺ وہیں کھڑے ہوئے اسے تماشا دکھاتے رہے۔
’’سراجاََمنیراﷺ‘‘اس خالق کائنات کا چمکایاہوا سورج ہے،جو تاقیامت اور اسکے بعد بھی ہمیشہ روشن و تابندہ رہے گا،حقیقت یہ ہے اس نظام شمسی کے سورج سمیت کل کائنات کی روشنیاں اسی ’’سراجامنیراﷺ‘‘کی روشنی کے خراج سے مستعارہیں،اگر آپ ﷺ کو غصہ آجائے تو یہ دہکتاہوااور آگ برساتاہواسورج بھی کسی سائے میں پناہ ڈھونڈتا پھرے ،اوراگر چاند کوآداب محبت اور برودت سیکھنے ہوں توچشم بینا رکھنے والے اسے یثرب کی گلیوں میں لوٹ پوٹ ہوتاہوا دیکھنے لگیں۔دنیا کی آسودگیاں اور آخرت کی راحتیں سب کچھ اسی ایک ذات نبوی ﷺ کی روشنی سے پھوٹنی والی کرنوں سے ہی ممکن ہے جس کے روضہ مبار ک پر صبح سے شام تک ستر ہزار فرشتے دور پڑھتے ہیں اور شام سے صبح تک اگلے ستر ہزار فرشتے اسی مقصد کے لیے آ جاتے ہیں اور جو فرشتہ ایک بار آگیا ہے پھر تاقیامت اسکی باری نہیں آئے گی۔

Short URL: http://tinyurl.com/y8x4moan
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *