روشِ مغربی ہے مدنظر

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: محمد سرور چغرزی
مشہور ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ایک مرتبہ کسی ٹرین میں ایک انگریز بیٹھا ہو ا تھا، سب لوگ اس کو رشک و حسرت کی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔وہ کسی اسٹیشن پر اترا تو سارے لوگ اس کے پیچھے ہولئے۔دیکھا کہ انگریز نے چائے لی اور کھڑے ہوکر پینے لگا۔ اتنے میں ٹرین نے حرکت شروع کی۔ انگریز نے جھٹ سے برف لی اور چائے میں ڈال دی۔ پھر غٹا غٹ پی گیا۔ اگلے اسٹیشن پر لوگوں نے انگریز کی دیکھا دیکھی چائے میں برف ڈالی اور کھڑے ہو کر چسکیاں لینے لگے۔
یہ واقعہ ہماری ذہنی غلامی کی عکاسی کر رہا ہے کہ ہم کس قدر تیزی سے مغربی اداؤں پر جان نچھاور کرنے لگتے ہیں۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ مسلمان قلب کے تو مسلمان ہیں لیکن قالب کے انگریز۔ مگر آج حال یہ ہے کہ مسلمان قلب و قالب، دونوں کے انگریز ہیں۔ ہم مسلمان انگریزی بولنے پر فخر کرتے ہیں۔ انگریز کا لباس ہمارے لئے حاصلِ عمرِ رواں ہے۔ اس کی طرح مذہب بیزاری میں، ہمارے لئے تسکین قلب وجاں ہے۔ اس کی تقلید میں ہمارے لئے حیاتِ جاوداں ہے۔ الغرض ہم نے اپنے اسلامی، تہذیبی،ثقافتی اور سیاسی تشخص کوایسے معاشرے پر وار دیا ہے جس میں ماں کی تمیز ہے نہ باپ کا پتا۔
اپریل فول کی بکواسات و ہفوات ہوں ،نیوایئر نائیٹ کا تماشہ بے ہنگام ہو یا ویلنٹائن ڈے کا حیا باختہ کردار، یہ سب اسی بیمار معاشرے کی پیداوار ہے۔ 
14 فروری کو ہماری قوم اسی ذہنی غلامی کی وجہ سے ویلنٹائن ڈے کے آشوب کا شکار ہوتی ہے۔ اس دن بیٹا اپنے باپ کا انتظار کرتا ہے کہ کب وہ گھر سے نکلے اور وہ اپنی گرل فرینڈ کو گلدستہ دینے جائے، جبکہ بہن، بھائی کے انتظار میں ہوتی ہے کہ کب بھائی گھر سے نکلے، اور وہ اپنے بوائے فرینڈ سے مل کر دادِ وارفتگی وصول کرے۔
اسی پر ہی بس نہیں بلکہ غضب یہ ڈھایا جاتا ہے کہ ویلنٹائن ڈے نہ منانے والوں کو دقیانوس گردانا جاتاہے۔انسان کی آرزوؤں کا دشمن گمان کیا جاتا ہے۔ شدت پسند جیسے بھیانک القابات سے نوازا جاتا ہے۔ بلکہ اس سے دو قدم آگے بڑھ کر ترقی کی راہ میں سنگِ گراں تصور کیا جاتا ہے۔
ان مذہب بیزار عناصر کو کیا خبر کہ ترقی کیا چیز ہے؟۔۔۔۔ اس کے تانے بانے کیسے بنے جاتے ہیں؟۔۔۔۔ اس کی طرف جانے والے راستے کا مٹیریل کیا ہے؟۔۔۔۔ کونسی بگھی اس کی طرف جاتی ہے؟۔۔۔۔ ان کے خیال میں”ترقی” مادی طور پر مستحکم ہونے دنیا کے آرائش وسکون حاصل کرنے اور خواہشات کی رتھ پر سوار ہوکر ہر طرح کی دلی جذبات کی تسکین نامی منزل (مغربی معشرے) حاصل کرنے کا نام ہے۔ درحقیقت جس کو یہ لوگ ترقی سمجھتے ہیں اس برمودا تکون کا نام ہے جہاں فنا ہی فنا ہے۔ اسی مغربی معاشرے کے بارے کس سیانے نے کیا خوب کہاہے:
سورج ہمیں ہر شام یہی درس دیتا ہے کہ اگر
مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے
المیہ در المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے رول ماڈل اپنی اپنی “دنیاؤں” میں مگن ہیں۔ ایک طرف اپنے دیس کے دانشوروں کا یہ حال ہے کہ ہفتوں اور مہینوں تک مکھی کے مرنے پر شپاشپ بولتے اور صفحات کالے کرتے رہتے ہیں، لیکن اس طوفانِ بدتمیزی پر بولتے اور لکھتے وقت ان کو ابکائی آنے لگتی ہے۔ بعض تو میڈیا کے چوپالوں میں اس پر مبارکباد دیتے اور وصول کرتے نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف اربابِ منبر و محراب کو بنی اسرائیل، قومِ عاد اور قومِ لوط کے قصے سنانے سے فرصت نہیں۔ یہ قصے لیکر بیٹھنا کوئی گناہ کی بات نہیں لیکن “مقتضائے حال” بھی بھی کسی بلا کا نام ہے۔ 
انسان کی تنزلی کا سفر اسی وقت شروع ہوجاتا ہے جب وہ اپنے اصولوں کو جڑ سے اکھاڑنے لگتا ہے اور اپنی آدرشوں کی قربانی کو جائز سمجھنے لگتا ہے۔
خدارا….!!!ہمیں مغربی یلغار کا مکمل ادراک کرنا ہوگا۔۔۔۔ اپنے وطنِ عزیز اور اسلامی اقدار وروایات کی چوکیداری کرنی ہوگی۔۔۔۔ آنے والی نسلوں کو مغربی دامِ تزویر سے بچانا ہوگا۔۔۔۔ اس معاشرے کی جھریاں پڑے چہرے پر لیپاپوتی کرنے کی بجائے، اس کاکچا چٹھا کھولنا ہوگا۔۔۔۔ اگر ہمیں وطنِ عزیز اور اسلامی نظریات وروایات کا کوئی پاس ہے تو اس بے لگام معاشرے کی روایات کیسیلِ رواں کے سامنے بند باندھنا ہوگا۔ پیہم اور مظبوط آواز اٹھانی ہوگی ورنہ
ہماری داستان تک نہ ہوگی، داستانوں میں۔

Short URL: http://tinyurl.com/y2qy38n2
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *